نیب: محض سستا فکشن!

یوں معلوم ہوتا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین میجر (ر) قمرالزمان پُرعزم ہیں کہ وہ نواز حکومت سے ٹکر لے کے رہیں گے۔ اپنے افسران کو انہوں نے ہدایت دے رکھی ہے کہ مجرموں اور کرپشن کے خلاف انہیں کم سے کم درجے کی برداشت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اس کے لئے تو وہ بے شک تحسین کے مستحق ہیں لیکن دوسری جانب وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بھتیجے حمزہ شہباز بھی ہیں جو خود کو ابھی سے تختِ اسلام آباد کا وارث سمجھتے ہیں، لہٰذا اس کے دفاع کے لئے وہ فوراً دوڑے چلے آئے۔ میاں حمزہ شہباز نے سکول کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے جمہوریت کے بارے میں ایک بھاشن دیا۔ ان کی عادت ہے کہ دورانِ تقریر ہاتھوں کو وہ اپنے والد ہی کی طرح لہراتے رہتے ہیں۔ باتیں وہ بچوں سے کر رہے تھے لیکن سنایا انہوں نے ''پنڈی کے جوانوں‘‘ کو! پیغام ان کا یہ تھا کہ جمہوریت کی ریل گاڑی پٹڑی سے قطعاً نہیں اترنی چاہئے، کرپشن ہوتی ہے تو ہوتی رہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ بات حمزہ شہباز نے ایک دو نہیں بلکہ کئی بارکہی۔ 
دیکھا جائے تو پاکستانی سیاست اور سستے فکشن میں کئی لحاظ سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ نیب اور این آر او کو ملا کر دیکھیں توسستے فکشن ہی کی صورت سامنے آتی ہے، بلکہ پچھلے سولہ برسوں میں نیب سے متعلق مسائل کی جتنی خبریں آئیں انہیں این آر او کے مسودے کے ساتھ یکجا پڑھا جائے تو اسی سستے پن کی کامل مثال واضح ہو جاتی ہے۔ ہم جب جمی ہوفا کی یہ بڑھک پڑھتے ہیں کہ "I have my faults, but being wrong ain't one of them," (یعنی یہ کہ مجھ میں عیب تو ہیں لیکن میں غلط نہیں ہوں) تو ذہن میں پاکستانی سیاستدانوں کا خیال آتا ہے۔ جمی ہوفا امریکہ میں لیبر یونین کے لیڈر تھے۔ وہ بہت بارسوخ اور نہایت متنازع تھے! فراڈ کے جرم میں وہ برسوں جیل میں رہے۔
ہمارے ماضی و حال( اور مستقبل ) کے لیڈروں کی اکثریت بھی ایسے ہی غلط کار لوگوں پر مشتمل ہے، جن کے جرائم ثابت ہو چکے ہیں اور جو سالہا سال جیلوں میں بھی گزار چکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ہمارے حاکم ہیں اور ہمیشہ ہم پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔ اس بار البتہ نیب کے چیئرمین نے ہمت کی ہے اور وہ ان مرد و زن کے مشکوک ماضی کو کرید رہے ہیں جن کے کالے کرتوتوںکی داستانیں اخباروں میں شہ سرخیوں کے ساتھ چھپتی آئی ہیں۔ اب ایک اور لطیفہ سنیے۔ اسی ہفتے کی خبر ہے کہ ضیاء دور کے بعد نواز لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کو بینظیر بھٹو کی زیرِ قیادت پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات لڑنے کے لئے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی جانب سے مالی امداد دی جاتی رہی تھی۔ مزید تفصیل کے لئے ''شہیدِ امن‘‘ نامی کتاب پڑھیے جو آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار خالد خواجہ کی اہلیہ شمامہ خالد نے تحریر کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں، شریعت کے نفاذ اور امیرالمؤمنین بننے سے متعلق میاں صاحب کا جو منصوبہ تھا وہ اسامہ بن لادن کو پُر کشش محسوس ہوا۔ خالد خواجہ بھی اسامہ بن لادن کی طرح اسلامی نظام متعارف کرانے کے اس جال کی کشش میں پھنس گئے تھے۔ القاعدہ کے سربراہ نے نواز شریف کی بھاری مالی مدد کی لیکن جب میاں صاحب کو اقتدار ملا تو وہ اپنے وعدوں سے پھرگئے۔کتاب میں آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل حمید گل مرحوم کا بھی ایک نوٹ درج ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت تھا جب خالد خواجہ، نواز شریف کے کافی قریب تھے۔ اسامہ بن لادن سے خالد خواجہ کا تعارف عبد اللہ عزام نے کروایا تھا جو عالمی سطح پر بابائے جہاد سمجھے جاتے ہیں۔ عبداللہ عزام سنی المسلک فلسطینی تھے۔ انہوں نے جہاد کے لئے مالی وسائل جمع کئے اور عرب دنیا سے جہاد پرستوں کی بھرتیاں کیں۔ کیا وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب اس ضمن میں کچھ کہیں گے؟ ہم ان کے باس کے بارے میں ان سے سچ سننا چاہتے ہیں۔
اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود آلمرٹ اس وقت قیدی نمبر 9032478 ہیں۔ پہلی بار اسرائیل نے اپنے ایک سابق سربراہِ حکومت کو جیل کی سزا دی ہے۔ ایہود آلمرٹ نے متعدد مقدمات میں انصاف کی راہ میں حائل ہونے کے الزامات قبول کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''اسرائیل کے وزیر اعظم کی حیثیت میں اس ملک کے تحفظ و سلامتی کا اختیار مجھے سونپا گیا تھا اور اب مجھے ہی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا رہا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ تبدیلی میرے لئے کس قدر عجیب اور تکلیف دہ ہے۔ دوسری طرف ہمارا ملک ہے جہاں نیب اور ایف آئی اے موجودہ اورگزشتہ وی وی آئی پیز کے گرد دائرہ تنگ کر رہے ہیں، جناب پرویز رشیدنے ٹھان لی ہے کہ ان کو بے دست و پا کر کے چھوڑیںگے۔ نیب کے چیئرمین اور ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر شاہد حیات کے خلاف مقدمے کھولے جا رہے ہیں تاکہ انہیں نواز لیگ اور پی پی پی کے لیڈروں کی جانب بڑھنے سے روکا جائے۔ زرداری اور نواز شریف دونوں ہی جیل جا چکے ہیں، لیکن انہیں چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ باری باری پھر قومی خزانے کو لوٹ سکیں اور ملک کو دیوالیہ کر دیں۔ 
اس ضمن میں عمران خان نے بھی ہمیں کافی مایوس کیاکیونکہ وہ بھی پختونخوا میں نیب کے صوبائی سربراہ کو گھر بھجوا چکے ہیں۔ یہاں ہم ایک پختون ہی کا حوالہ دیں گے جس نے ہمیں بتایا کہ '' فوج میں جن حلقوں کو بڑی امید تھی کہ پی ٹی آئی کی قیادت میں خیبر پختونخوا دیگر صوبوں کے لئے ایک مثال بنے گا، ان میں اب کرپٹ مافیا آرڈیننس/ ترمیم کے بارے میں تبصرے ہو رہے ہیں جو انتہائی حد تک ایک منفی چیز ہے۔ پختون افسران سمجھتے ہیں کہ جنرل ایم حامد خان کو بطورِ سزا ان حالات سے دوچارکیا گیا۔ جہاں تک خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے مستقبل کا سوال ہے، امیدوںکے خاک میں ملنے اور دغابازی کے نتیجے میں پختون جس طرح بدلے اور انتقام کی سوچ رکھتے ہیں، یہ عنصر یاد رکھنا چاہئے۔ ''کے پی کے میں پی ایم ایل کا کوئی چانس ہی نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ عمران خان کو اس چیز کے لئے معاف کر دیں گے جو انہیں بدمعاشوں کے ساتھ ان کی سودے بازی معلوم ہو رہی ہے۔ عمران خان بھلے بہت ایماندار ہوں لیکن اپنے وعدوں پر اگر وہ پورے نہیں اترے تو ان کی ساری ایمانداری دھری کی دھری رہ جائے گی۔ ریحام خان والا معاملہ بھی مت بھولیے جس نے عمران خان کو تقریباً تباہ کر ڈالا‘‘۔ پختونوں کا خیال ہے کہ اگر حامد خان والا یہ معاملہ عمران خان نے جلد درست نہ کیا توکے پی کے میں اگلے انتخابات وہ ہار جائیں گے۔ ہم نے پڑھا ہے کہ عمران خان نے حامد خان والے معاملے میں چھان بین کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ پشاور اور کے پی کے میں دیگر شہروں کا ردعمل اس ضمن میں پہلے ہی سے کافی منفی ہے۔ ساری سیاست مقامی سطح سے مربوط ہوتی ہے اور ٹی وی پر نون لیگ والے اپنی کامیابیوں کے جو اشتہارات دیتے پھر رہے ہیں ان کا کے پی کے والوں کے لئے کوئی مطلب ہی نہیں۔ پختون سب سے پہلے اپنے صوبے کی بہتری چاہتے ہیں۔ پچھلی حکومتوں کی کرپشن سے تنگ آکر انہوں نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا لیکن اب وہ محسوس کر رہے ہیں کہ کے پی کے میں جو لوگ پی ٹی آئی کی حکومت چلا رہے ہیں ان کا اپنا ایجنڈا یہی ہے کہ جس قدر پیسہ بٹورا جا سکتا ہے، بٹور لینا چاہئے۔ عمران خان بیچارہ کیا کر سکتا ہے؟ انہی کا ساتھ دینے کے سوا اس کے پاس اور کوئی راستہ ہے بھی تو نہیں۔ یا تو ہمارے ایماندار لیڈروں میں اپنی ٹانگوں پہ کھڑا ہونے کی سکت ہی نہیں یا پھر ہمارا سیاسی، عدالتی اور انتظامی سسٹم ہی سارا گل سڑ چکا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں