فریب

ہمارے وزیر اطلاعات اپنے وزیر اعظم پر ہونے والی تنقید کا رُخ خود ناقدین کی جانب موڑ دینے کے فن میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔برسوں سے وہ نون لیگ کے لئے گول کیپر کا کردار نبھاتے آئے ہیںلہٰذا اس جماعت کی ترجمانی کے ہنر میں بھی وہ طاق ہو چکے ہیں۔ ان کی وزارت کو یوں ہی تو منسٹری آف ڈِس انفارمیشن نہیں کہا جاتا! میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد میں پرویز رشید پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ ان دنوںاگر مالی بد عنوانی کے الزامات میں ان پہ تنقید ہوتی تو ناقدین کو خاموش کرانے کا فن بھی انہیں خوب آتا تھا۔ ہم جیسے بیچاروں کے منہ پہ وہ جھٹ قانونی نوٹسوں کا تھپڑ جھاڑ دیا کرتے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمارا ہفتہ وارکالم جس انگریزی اخبارمیں چھپتا تھا‘ اس کے مدیر سمیت تمام قانونی ٹیم ہماری حمایت کر رہی تھی۔ ہمارے مدیر کی جانب سے انہیں بے باکانہ طور پر اس پیغام کا ابلاغ کیا جا رہا تھا کہ ہمت ہے تو سامنے آئو۔ آخر پی ایم ایل (ن) کے وہ بڑے بڑے نام پیچھے ہٹ گئے، ہمیں اور ہمارے اخبار کو عدالت لے جانے کا خیال انہوں نے ترک کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومتِ وقت کی جانب سے بھیجے گئے قانونی نوٹس اخباروالوں کو خائف نہیں کرتے تھے۔ پی پی پی، نون لیگ اور قاف لیگ تینوں ہی نے اپنے اقتدار کے زمانے میں خوب خوب کرپشن کی۔ ان کے کئی ایک ایسے راز تھے جنہیں وہ پوشیدہ ہی رکھنا چاہتے تھے لیکن اس وقت کا بے باک میڈیا انہیں افشا کرنے پہ تُلا ہوا تھا۔آج کل جب کہ نت نئے چینلز سامنے آ رہے ہیں تو اصل دوڑ اب ریٹنگ کی ہے۔ پرائم ٹائم کے دوران اینکرز اور ان کے مہمانان بھی گلا پھاڑکر چیخ رہے ہوتے ہیں۔سنجیدہ خبروں کی اب کوئی وقعت ہی نہیں رہی۔ یہ خبریں اگلے دن کی بریکنگ نیوز کے چکر میں کہیں دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ بریکنگ نیوز عموماً بے بنیاد اوراحمقانہ ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ پھر ان کا کوئی فالواپ بھی نہیں ہوتا۔ کوئی ایسا سنجیدہ صحافی نہیں جو ایسی خبروں پہ اول تا آخر تحقیق کر کے انہیں پیش کر سکے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان خبروں میں تحقیق کے قابل کچھ ہوتا بھی تو نہیں ہے۔ صرف سنسنی ہی ہوتی ہے جس کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دیکھنے والے چینل کے لئے حاصل کئے جا سکیں تاکہ ریٹنگ بڑھے اور اس طرح زیادہ اشتہارات چینل کو حاصل ہوں۔ یعنی اصل مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ مختصر یہ کہ ہر رات اطلاعات کا ایک انبارٹی وی چینل والے کسی تحقیق کے بغیر اٹھا کر پیش کر دیتے ہیں جن میں اکثر کی تصدیق بھی نہیں کی جاتی۔سو، اصل خبر کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ بہتر تو یہی ہو گا کہ میڈیا قوم کے اصل مسائل پہ بات کرے، لیکن ایسا ہو کیسے؟ معاشرے کے مختلف طبقات کے ایسے افراد کے تبصرے‘ جن کا تبصرے کرنے کا مقصد کسی ذاتی مفاد کا حصول نہیں‘ بلکہ سچ کا بیان ہو؛ تاہم بھیڑ کے بھیس میں چھپے بھیڑیوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہئے۔ 2013ء میں جب انتخابات ہونے والے تھے تو ہم نے اس وقت ایک امریکی مصنف اور ماہرِ معاشیات ریمنڈ بیکر کے حوالے سے نواز شریف، بے نظیر اور آصف زرداری کی کرپشن کے بارے میںایک کالم تحریر کیا تھا۔ بیکر نے اپنی کتاب میں نواز شریف کی غیر ملکی کمپنیوں کا ذکر کیا تھا جس پہ انہوں نے اس وقت سے نظر رکھی ہوئی تھی جب وہ قائم کی گئی تھیں یعنی نوے کے عشرے سے! ہمارا وہ کالم ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہوا تھا۔ ہمیں امید تو یہ تھی کہ شاید آصف علی زرداری یا محمد نواز شریف کے لوگوں میں سے کوئی ان باتوں کی اگرواضح تردید نہ بھی کرے تو کم از کم کوئی ردعمل ضرور ظاہر کرے گا، لیکن کہیں سے کوئی سرگوشی بھی جواب میں سنائی نہیں دی۔ اس سے کیا پتہ چلتا ہے؟ اگر تو ان دونوں کا یہ خیال ہے کہ بیکر نے جو باتیں اپنی کتاب میں لکھی ہیں وہ جھوٹی، من گھڑت اور شر انگیز ہیں تو انہیں چاہئے تھا کہ اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کرتے۔ سچ یہ ہے کہ‘ جیسا کہ اب پانامہ دستاویزات سے بھی ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ گیارہ سال پہلے ریمنڈ بیکر نے جو لکھا تھا وہ سب حقیقت پہ مبنی تھا، اور یہ ایسی مبنی بر حقیقت معلومات تھیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے لئے انہیں جھٹلانا ممکن ہی نہیں تھا۔ یہاں ہم چند ایک ایسے تبصرے نقل کرنا چاہتے ہیں جو فروری 2013ء میں لکھے گئے ہمارے اس کالم پہ ہمیں موصول ہوئے تھے۔ انجینئر ایم باقر خان نے لکھا تھا،'' ریمنڈ بیکر نے اپنی کتاب میں جو حقائق بیان کئے ہیں ان پہ چیف جسٹس کو از خود نوٹس لینا چاہئے۔ اس کتاب میں جن بد عنوانیوں اور غلط بیانیوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے اس کی روشنی میں کوئی قدم اٹھانا الیکشن کمیشن کی بھی ذمہ داری ہے۔اگر یہ دونوں کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہتے ہیں تو قانون کی نظر میں دونوں یکساں طور پر قابلِ مواخذہ ہوں گے۔ ان دونوں کی جانب سے یہ اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت کے مترادف ہوگا۔ سو، خدارا، سیاست کو مت دیکھیں، قانون کو دیکھیں!‘‘ افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ ہی چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم اور نہ ہی قائم مقام وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو (یہ دونوں حضرات اسّی کے پیٹے میں تھے) نے اس ضمن میں کوئی نوٹس لیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری (جنہیں تب نجات دہندہ سمجھا جاتا تھا) کے کان پر بھی کوئی جوں نہیں رینگی تھی ، شاید اس لئے کہ ان کے ذہن کے کسی کونے میں اپنے ذاتی سیاسی عزائم پنپ رہے تھے۔ ایک اور تبصرہ ملاحظہ کیجئے ''یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے میڈیا اور معاشرے کا ایک بڑا حصہ آج بھی ایسا ہے جو ان سیاہ کرداروں کی حمایت کرتا ہے۔ ہمیں معقول لکھاریوں اور سماجی کارکنوں کی ضرورت ہے۔‘‘ ایک اور تبصرہ یہ بھی تھا، ''سپریم کورٹ کو ان الزامات کا جائزہ لینا چاہئے، یہ بات قابلِ افسوس ضرور ہے لیکن حیران کن نہیں کہ یہی لوگ ایمان کے نام نہاد محافظ بنے پھرتے ہیں اور حکمران اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ ٹیکسوں کی مد میں یہ لوگ، جن میں سیاستدان اور بعض جرنیل بھی شامل ہیں، چند ٹکے دیتے ہیں لیکن لندن اور دبئی میں ان کے بڑے بڑے محلات موجود ہیں۔‘‘ اپنے حکمرانوں کی کرپشن کا ہم لوگ بس واویلا ہی کرتے رہتے ہیں اور بعد میں انہی لوگوں کو بار بار اقتدار میں بھی لے آتے ہیں۔ یہی ایک روایت بن گئی ہے، وہی لوگ، وہی کرتوت! جب بھی انہیں خدشہ ہو کہ اب احتساب کا حلقہ ان کے گرد تنگ ہونے والا ہے تو یہ لوگ دل تھام کر دل کے دوروں کے بہانے لندن کے دورے پہ چلے جاتے ہیں، اور جب خطرہ ٹل جائے تو ان کی صحت بھی لوٹ آتی ہے۔ اگر ایک لمحے کے لئے ہم یہ سوچیں کہ نواز شریف صاحب رخصت ہو گئے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کی جگہ کون لے گا؟ بلاول بھٹو زرداری! اور کون؟! اور بلاول کے مشیر و رہنما کون ہوں گے؟ زرداری اور فریال تالپور! اپنے بھائی کی مہربانی سے فریال تالپور بھی حال ہی میں کروڑپتیوں کی صف میں شامل ہوگئی ہیں۔ اپنی آواز اور اپنا لہجہ انہوں نے اپنی بھابی بے نظیر بھٹو کی طرح بنا لیا ہے۔ گیارہ سال قبل ریمنڈ بیکر نے اپنی کتاب میں ایک پاکستانی بینکار کا یہ قول نقل کیا تھا کہ ''ہم پاکستانی قانونی اور غیر قانونی چیزوں کا امتیاز بھول چکے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی نفرت نہیں کرتا جو غیر قانونی طریقوں سے پیسہ کماتے ہیں۔ ایک مزاحمتی عنصر کے طور پر معاشرہ اپنا کردار کھو چکا ہے۔‘‘
یہی وہ شیطانی چکر ہے جو بغیر کسی انت کے مسلسل چلا جا رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں