موت کے سوداگر

امریکہ میں ری پبلکن پارٹی پوری طرح سے گن لابی کی گرفت میں ہے‘ اور اب ایک بار پھر جیت اسی کی ہوئی ہے۔ امریکی تاریخ میں بد ترین قتلِ عام کا سانحہ حال ہی میں رونما ہوا اور ہمارا خیال تھا کہ اس کے بعد کم از کم ایک اقدام‘ جسے واشنگٹن میں امریکی کانگرس کی حمایت حاصل ہو سکے گی‘ یہ ہو گا کہ وفاقی سطح پر ہتھیاروں کی نگرانی کے حوالے سے جو خامیاں موجود ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ نوے فیصد امریکی عوام اس امر کی حمایت بھی کرتے ہیں؛ تاہم پچھلے سوموار کو چھپن امریکی سینیٹروں نے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ہتھیاروں کو مجرموں، مفروروں، دماغی مریضوں اور تشدد پسندوں کے ہاتھ کا کھلونا بننے سے روکنے کا ایک اور موقع گنوا دیا۔ ری پبلکن پارٹی کے بزدل اراکینِ مقننہ نے بہبودِ عامہ کے ایک ایسے اقدام کے خلاف ووٹ دیا‘ جس کے تحت صرف وفاق سے لائسنس یافتہ ڈیلرز سے خریدے جانے والے ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے اسلحے کی فروخت کی نگرانی تجویز کی گئی تھی۔ ریاست فلوریڈا میں اورلینڈو کے نائٹ کلب کے قتلِ عام میں قاتل عمر متین نے جس ہتھیار کا استعمال کیا تھا‘ اس طرز کے ہتھیار وفاقی نگرانی سے بچنے کے لئے امریکہ میں کوئی بھی بڑی آسانی کے ساتھ ہتھیاروں کی کسی نجی دکان، ہتھیاروں کی نمائش، آن لائن یا پھر اخباروں میں دیئے گئے اشتہارات کے ذریعے خرید سکتا ہے۔ صدر اوباما کی کاوش تھی کہ جو لوگ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں یا دماغی امراض کے شکار ہیں ان کو ہتھیاروں تک رسائی رکھنے سے روک کر ایسے پُرتشدد واقعات کا سدباب کر دیا جائے؛ تاہم ان کی یہ کاوش اس لئے ناکا م ہو گئی کہ ری پبلکن پارٹی مکمل طور پر نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی گرفت میں ہے۔ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن یعنی NRA ایک طاقتور اور بارسوخ لابی گروپ ہے‘ جسے امریکہ میں ہتھیار سازوں کی معاونت حاصل ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک بہت بڑی تقریب کے دوران این آر اے نے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی متعصب شخص ہے، نسلی تعصب کا حامی ہے اور لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا بھی رہتا ہے‘ لیکن اس سے بڑھ کر وہ ایک بہت بڑا منافق بھی ہے۔ اورلینڈو کے واقعے کے بعد مسلمانوں کے خلاف اس کی زہر افشانی مزید بڑھ چکی ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پہ پابندی اور وہاں رہنے والے لاکھوں مسلمانوں کی پروفائلنگ جیسی باتیں کرکے اسے امید ہے کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو کر وائٹ ہائوس پہ وہ قبضہ جما سکے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی ایک امریکی بھی اس کے اسلاموفوبیا کی حمایت کرتے ہیں؛ تاہم ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس کی نفرت انگیزی، سازشی نظریات کی ترویج اور سیاسی حملوں میں ملوث ہونے کی عادت سے متنفر ہیں۔ عمر متین ایک فرد تھا‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اس شخص کی ایک انفرادی حرکت کا تمام مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ قصور اس کی نظر میں مسلمانوں کا ہے، ہتھیاروں کا نہیں! ڈونلڈ ٹرمپ کی ہرزہ سرائیوں کے جواب میں ایک پاکستانی نژاد امریکی محمد مالک نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس کا عنوان ہے، "I reported Omar Mateen to FBI"۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے کہ ''امریکی مسلمان کچھ چھپا رہے ہیں، انہیں علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے، انہیں علم تھا کہ (عمر متین) برا شخص ہے۔ امریکی مسلمانوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کرنا چاہئے اور جن لوگوں کے غلط کار ہونے کا انہیں علم ہوتا ہے‘ انہیں متعلقہ اداروں کے حوالے کرنا چاہئے لیکن ایسا انہوں نے کیا نہیں، نتیجہ تباہی اور قتل و غارت گری کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں‘‘۔ محمد مالک نے جواباً لکھا ہے کہ ''یہ قطعی جھوٹ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ بات بالکل غلط ہے کہ ہم مسلمان جہاں آواز اٹھا سکتے ہیں، وہاں نہیں اٹھاتے۔ ایف بی آئی کو عمر متین کے بارے میں اطلاع میں نے ہی دی تھی‘‘۔ عمر متین کے ساتھ محمد مالک کی پہلی ملاقات 2006ء میں ایک افطار کے دوران ہوئی۔محمد مالک کو وہیں کسی حد تک خود میں مگن رہنے والے عمر متین (جو اس وقت ایک ٹین ایجر تھا) اور اس کے افغان نژاد باپ کو جاننے کا موقع ملا۔ محمد مالک نے لکھا ہے کہ عمر متین نے روزہ پروٹین شیک سے افطار کیا تھا۔ وہ ہمیشہ چپ چاپ ہی رہتا تھا‘ اور اس وقت بھی خاموش سا تھا۔ اس کا باپ البتہ بہت بولتا تھا۔ اس کے بعد اسلامک سنٹر میں ان کی ملاقات ہوتی رہی اور میسجز یا ای میل کے ذریعے بھی ان کا رابطہ ہوتا رہا۔ محمد مالک کہتا ہے کہ عمر متین امریکی نظام کے مطابق خود کو نہیں ڈھال پا رہا تھا‘ اور اسے اپنا آپ یہاں غیر محسوس ہوتا تھا۔ سکول میں بھی وہ ڈرایا دھمکایا جاتا تھا۔ خود محمد مالک 1979ء میں چھ سال کی عمر میں پاکستان سے امریکہ منتقل ہوا تھا؛ تاہم امریکی طرزِ زندگی کے مطابق رہنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ عمر متین جہاں رہتا اور کام کرتا تھا وہاں مسلمانوں کے ساتھ لوگوں کا رویہ نامناسب رہتا تھا۔ایک کورٹ ہائوس میں وہ خود سکیورٹی گارڈ رہا تھا‘ اور اس ملازمت کے دوران جس قسم کے پُرتعصب کلمات اسے ارد گرد کے لوگوں سے سننا پڑتے تھے‘ ان کے بارے میں اس نے محمد مالک کو بتایا بھی تھا۔ محمد مالک کہتا ہے کہ ''اس نے مجھے بتایا تھا کہ کیسے لوگ اس کے سامنے اسلام کے بارے میں تعصبانہ اور بے ہودہ تبصرے کرتے ہیں‘‘۔ اس نے لکھا ہے کہ ''گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ اسلام ترسی کا واحد جواب تہذیب اور مہربانی سے دیا جا سکتا ہے۔ اسلام کے بارے میں لوگ ٹی وی پہ جتنی منفیت دیکھ رہے تھے اس کے مقابلے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ اس کے بالکل برعکس رویہ اپنایا جائے‘‘۔ 2014ء میں اسلامک سنٹر میں انہی کا ایک ساتھی چھپ کے شام چلا گیا‘ اور وہاں داعش کے لئے خود کش بمبار بن گیا۔ اس کی یہ انتہا پسندی انورالعولاقی کی تقاریر سننے کا نتیجہ تھی۔ انورالعولاقی ایک یمنی نژاد امریکی امام تھا‘ جو مبینہ طور پر امریکہ سے القاعدہ کے لئے خود کش بمباروں کی بھرتی کرواتا تھا۔ عمر متین نے محمد مالک کو بتایا کہ وہ بھی انورالعولاقی کی ویڈیوز دیکھتا ہے۔ محمد مالک کہتا ہے کہ یہ سن کر میرے دماغ نے فوراً ہی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی‘ اور میں نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ایف بی آئی کو مطلع کر دیا تھا کہ عمر متین انورالعولاقی کی ویڈیوز دیکھ رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایف بی آئی والوں نے دو بار عمر متین سے پوچھ گچھ بھی کی‘ لیکن ایسا کچھ بھی انہیں معلوم نہیں ہو سکا‘ جس کی بنیاد پر اسے زیرِ نگرانی رکھا جاتا۔ محمد مالک کی تحریر کے بارے میں ہم نے لوگوں کے کافی بے ہودہ تبصرے آن لائن پڑھے۔ مثال کے طور پر چند یہاں پیش کر دیتے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ''تمام مسلمان قاتل اور دہشت گرد ہیں‘‘۔ یہ یقینا ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان ہے۔ ایک اور معترض لکھتا ہے ''دیگر تمام مسلمانوں کی طرح محمد مالک بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ایک معصوم جان کا قتل تمام انسانیت کے قتل کے مترادف ہوتا ہے‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی لحاظ سے غیر مسلموں کا قتل ان پہ فرض کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی ایسے نقائص ہیں جو انہیں مذہب کے نام پہ قتل کرنے کے لئے اس طرح ابھارتے ہیں کہ خود کش حملہ کرنا ان کے لئے سہل ہو جاتا ہے۔ ہم سبھی کے لئے بہتر یہ ہو گا کہ یہ لوگ صرف اپنے اسلامی ممالک کی حدود کے اندر ہی رہیں۔ اگر مسلمان مغربی ممالک میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں احساسِ برتری، مطلق العنانیت، عورتوں کے خلاف غاصبانہ اور پُرتشدد رویے اور نظامِ حکومت ترک کرنا ہوں گے، بصورتِ دیگر انہیں ان مغربی ممالک سے نکل جانا چاہئے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں