کیا شوہر امام ہوتا ہے؟

پاکستانی نژاد کینڈین خاتون فرزانہ حسن کی تصنیف کردہ کتاب 'Islam, Women and the Challenges of Today' تازہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ یہ کتاب ہر جگہ رہنے والوں مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اسلامی روایات کو دورِ جدید کی زندگی کے حقائق کے ساتھ ہم آہنگ کر لیں۔ یہ کتاب تقریباً عشرہ قبل لکھی گئی ہے لیکن آج کے حالات کے ساتھ بھی یہ ربط رکھتی ہے اور آج بھی قابلِ مطالعہ ہے۔قرآنی تعلیمات پہ مبنی تفصیلی تحقیق کی روشنی میں یہ کتاب مذہب کا ایک جرأت مندانہ تجزیہ کرتے ہوئے ایک متبادل بیانیہ پیش کرتی ہے۔فرزانہ حسن نے فرحت ہاشمی کے وعظ سن رکھے ہیں ۔ہم نے فرزانہ سے پوچھا کہ کیا فرحت ہاشمی ابھی تک کینیڈا میں وعظ و تبلیغ کر رہی ہیں۔جوابا ً ان کا کہنا تھا کہ انہیں علم نہیں لیکن کئی ایک عورتوں پہ ان کا اثر تاحال موجود ہے۔ وہ عورتوں کومذہبی لحاظ سے نہایت قدامت پرستانہ نظریات اپنانے کا کہتی ہیں جن کی بدولت عورتوں کا کردار نہایت محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ فرزانہ حسن کو تشویش اس بات پہ ہے کہ زندگی میں آگے بڑھنے کی بجائے برین واشنگ پاکستانی عورتوں کو ایسے غیرلچکدار اور دقیانوسی سوچ اپنانے کے لئے ابھارتی ہے جو معاشرے میں ان کے کردار کو محدود تر کرنے کا باعث بنتی ہے۔فرزانہ حسن کی کتاب اور ٹورنٹو کے اخبار میں ان کے ہفتہ وار کالم مذہب، عورتوں اور مردوں کی تفریق، تعدد ازدواج اور اس قسم کے دیگر موضوعا ت پہ ترقی پسندانہ خیالات کا پرچار کرتے ہیں، یعنی ایسے خیالات جو اکیسویں صدی کے طرزِ زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میںصحائف اور دیگر مذہبی کتب کا ایک ایسا ترقی پسندانہ مطالعہ پیش کرنا چاہتی ہوں جس سے مذہب کی خاتون پروری کا اظہار ہوتا ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں حدود قوانین میں عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف امتیاز برتا گیا ہے۔ فرزانہ حسن کی کتاب پہ ملا جلا ردِ عمل ظاہر ہوا ہے۔ قدامت پسند ذہنیت کے حامل لوگ انہیں ارتداد کا مرتکب سمجھ رہے ہیں جبکہ اعتدال پسند مسلمان انہیں سراہ رہے ہیں۔ پچھلے برس ان کی کتاب کا ترجمہ اطالوی زبان میں بھی کیا گیا۔ ایک متعلقہ سوال اس ضمن میں یہ بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان میں عزت کے نام پہ ہونے والے قتل مقاتلوں کے خلاف پوری قوم متحد ہو کر آواز کیوں نہیں اٹھاتی؟ اس کے لئے کسے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ فرزانہ حسن کہتی ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل ہمارے ملک میں کسی بھی قسم کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ جب بھی سول سوسائٹی کی جانب سے ترقی پسندانہ قوانین کے متعارف کرانے کے لئے کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی راہ میں روڑے اٹکا دئیے جاتے ہیں۔ سماجی اور ثقافتی دبائو اور مذہب کی ناقص تفہیم کی بدولت پاکستان میں عورتوں کا کردار محدود تر ہے اور قوانین اس صورتحال کو مزید ابتر بنا دیتے ہیں۔ دنیا کے مہذب ممالک میں اس کے بالکل برعکس عمل دکھائی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں قوانین کمزوروں کو تحفظ دینے کے لئے بنائے جاتے ہیں لیکن کئی ایک مسلمان ممالک میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے اور پاکستان کی حیثیت کو بھی اس ضمن میں کوئی استثنیٰ نہیں۔کیا ہمارے یہاں کسی نے ارشاد مانجی کا نام سنا ہے جو اس وقت مغرب کی آنکھوں کا تارہ بنی ہوئی ہے؟ نیویارک ٹائمز نے اسے اسامہ بن لادن کا ''کابوسِ اعظم ‘‘ٹھہرایا ہے۔ مختصر کٹے بالوں والی یہ عورت ایک کینیڈین مصنفہ ہے جو اسلام کی ''اصلاح پسند‘‘ تشریحات کا پرچار کرتی ہے۔2011ء میںموصوفہ نے Allah, Liberty and Love کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں ان کے دعوے کے مطابق انہوں نے مسلمانوں کو روایت شکنی کی ترغیب دی ہے۔ان کی ویب سائٹ پہ کہا گیا ہے کہ تنگ نظری پہ مبنی عقائد سے بھری پڑی اس دنیا میں ہمیں عقائد اور آزادیوں کے بیچ توافق کی کوشش کرنی چاہئے۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگوں میں اپنی سوچ کے اظہار کی اخلاقی جرأت ہونی چاہئے تاکہ وہ حقیقی معنوں میںدنیا کے روایت شکن باسی بن سکیں۔ ہم نے فرزانہ حسن سے پوچھا کہ وہ ارشاد مانجی کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں؟انہوں نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہی ہیں لیکن کبھی کبھی وہ محاذ آرائی کی جانب کچھ زیادہ ہی مائل نظر آتی ہیں۔ طارق فتح ایک اور پاکستانی نژاد کینیڈین ہے جسے پاکستانیوں کی اکثریت اس کی پاکستان مخالف باتوں کی وجہ سے ناپسند کرتی ہے۔ٹورنٹوسن میں اس کے ہفتہ وار کالم پاکستان مخالفت پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔اس کی بھارت نواز سوچ کی بدولت اکثر لوگ اسے بھارتی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ اسلام کے خلاف تعصب سے نمٹنے کے لئے مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کو جو فارمولا فرزانہ حسن بتاتی ہیں وہ بڑا ہی سادہ سا ہے اور وہ یہ کہ ہم سب کو ہم اور تم کی متقمانہ تفریق سے بالا تر ہو کر انسانی اقدار کی پاسداری پہ مبنی اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ جس قدر زیادہ مسلمان دہشت گردی کے خلاف یک زبان ہو کر آواز بلند کریں گے، اتنا ہی ہم سب کے لئے اچھا رہے گا۔ایک مثالی دنیا میں فرحت ہاشمی کو فرزانہ طارق جیسے رائے عامہ کی قیادت کرنے والوں کا ہم خیال ہونا چاہئے۔ تاہم ایسی دنیا کے وجود کا تصور محض ایک سراب ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں