فریبِ آزاد

لوگ نریندر مودی خود کو بھارت کا راک سٹار سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف انہوں نے اپنے ملک کی ساری جنگی مشینری متحرک کر دی ہے۔ پچھلے سال دسمبر میں وزیر اعظم نواز شریف کی سالگرہ والے دن وہ ایک دم لاہور پہنچ گئے تھے۔ دونوں وزرائے اعظم کے بیچ پُر جوش مسکراہٹوں کے ساتھ مصافحوں اور معانقوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ تاہم وہ ساری باتیں اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔ اب تو وہ بڑے فخر سے اس امر پہ اطمینان کا اظہارکرتے نظر آتے ہیں کہ عالمی سطح پر بھارت نے بڑی کامیابی سے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھا کر وہ پاکستان کو دنیا میں اکیلا رہنے پہ مجبور کر دیں گے۔ جواباً وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے انہیں اپنی رفتار دھیمی رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں میاں صاحب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے ذریعے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کو 
بے نقاب کرنے نیویارک پہنچے تھے۔ توقعات کے عین مطابق بھارت نے بھی انتقاماً پاکستان کو دہشت گرد ریاست کہہ ڈالا۔ آج اگر ذوالفقار علی بھٹو حیات ہوتے تو بھارت کے ساتھ کس طرح نمٹتے؟ بھٹو صاحب میں قابلیت بھی تھی اور جرأت بھی۔ مقرر بھی وہ بلا کے تھے۔ بھارت کو ایک جارح ریاست ثابت کرنے کے لئے اپنی دلیلیں دیتے ہوئے وہ اپنے انداز و الفاظ سے اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں میں اکتائے بیٹھے مندوبین کو پوری طرح سے جاگ اٹھنے اور متوجہ ہونے پہ مجبورکر دیا کرتے تھے۔ 1965ء سے لے کر اب تک کشیدہ حالات کو جنگ کے دہانے تک دھکیل دینے کی بھارتی پالیسی میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ بھٹو صاحب جب وزیرِ خارجہ کے عہدے سے مستعفی ہوئے تو انہوں نے The myth of Independence کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب امریکہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 1969ء میں چھاپی تھی۔ ایک سواٹھاسی صفحات کی اس کتاب کے مندرجات صرف اسی دور کے ساتھ نہیں بلکہ آج کے حالات کے ساتھ بھی اسی طرح مطابقت رکھتے ہیں۔انہوں نے اس کتاب میں بھارت کے ساتھ سخت رویہ اپنانے، چین کے ساتھ ایک مضبوط تعلق استوار کرنے اور معروضی طور پر پاک امریکہ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے کی بات کی تھی۔ سٹینلے والپرٹ لکھتے ہیںکہ بھٹو کے بد ترین دشمن اور سخت ترین نقاد بھی اس امر سے اختلاف نہیں کریںگے کہ وہ خارجہ امور کے حوالے سے بہترین جارح پالیسی ساز تھے۔ یہ کتاب بھٹو صاحب نے ایک ایسے دور میں لکھی تھی جب سیاسی سطح پر حالات ان کے لئے ناموافق تھے۔ ایوب خان سے وہ الگ ہو چکے تھے اور پیپلز پارٹی کی تشکیل کا عمل وہ شروع کر رہے تھے۔ ایک مبصر نے ان کے بارے میں یہ بھی کہاکہ اپنے دور کے حالات پہ بھٹو صاحب کی گرفت شاندار تھی۔ ان کی کتاب کا فقط ایک جملہ ان کی بصیرت کا ثبوت دے سکتا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ وہ پیشگی طور پر یہ کہنے کی جرأت کرنا چاہیں گے کہ ستر کے عشرے کے اوائل میں امریکہ اور چین کے درمیان مصالحت ہو جائے گی اور دونوں بہترین دوست بن جائیں گے۔ اس کتاب کے ایڈیٹر ڈاکٹر تھامس بی مینٹن تھے۔2010ء کے سرما میں جب بینظیر بھٹو کی دوسری برسی کے حوالے سے ہم نے ایک کالم لکھا تو ہمیں ٹام مینٹن کی جانب سے ای میل موصول ہوئی تھی۔ وہ خود کو بے نظیر بھٹو کا بھائی بتا رہے تھے۔ ان کے ای میل کا آغاز ان جملوں سے ہوا تھا:''ZAB میرے بہترین دوست تھے۔ ان کی سوانح حیات مجھے ہی لکھنا تھی۔ ان کی پیاری بیٹی نے اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے اپنی جان قربان کی۔ کراچی میں ان کی آمد کے بعد ان کے ساتھ مجھے بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔2007ء میں نیویارک میں جب ہماری آخری ملاقات ہوئی تو ہمارے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو بھائی بہن کے طور پر اپنائیں گے۔ وہ بھی ایک الگ ہی کہانی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انہیں کس نے قتل کیا‘‘۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان دنوں ہم چھٹیاں اسی علاقے میں گزار رہے تھے جہاں مینٹن کی رہائش تھی۔ چنانچہ اگلی شام ہم کھانے پہ ملے۔ تعارفی کلمات کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم انہیں ٹام پکاریں۔ یہ کہنے کے بعد وہ ارد گرد یوں دیکھنے لگے جیسے اندازہ کرنا چاہ رہے ہوں کہ ہماری نگرانی تو نہیں ہو رہی۔ ہم نے دل میں سوچا نجانے انہیں کیوں اس قدر اس بات کی فکر ہے۔ خیر، ہاتھ میں قلم کاغذ سنبھالتے ہوئے ہم ان کی کہانی کی جانب متوجہ ہوئے جو خاصی دلچسپ تھی۔ ٹام مینٹن بھٹو صاحب کے بہترین امریکی دوست تھے۔ ان دونوں کی ملاقات 1966ء کے خزاں میں ٹام کے ایک عزیز دوست کے توسط سے ہوئی تھی جو اقوام ِمتحدہ میں ڈان کے نمائندہ تھے۔ بھٹو صاحب اور ٹام مینٹن کی وہ پہلی ملاقات چار گھنٹوں پہ محیط تھی جس کے دوران بھٹو صاحب نے1965ء کی پاک بھارت جنگ کی تفصیلات ٹام مینٹن کو بتائی تھیں۔ اس ملاقات کو ٹام نے پچانوے صفحات کی ایک تحریر کی صورت دی۔ امریکی حکومت اس انٹرویو کی تحریری صورت ملاحظہ کرنا چاہتی تھی لیکن بقول ٹام مینٹن انہوں نے وہ دستاویز کبھی امریکی حکومت کو نہیں دی۔ ٹام کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے انہیں بتایا تھا کہ اگر اقوامِ متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل اوتھانٹ (جن کی سوانح ٹام اس وقت لکھ رہے تھے) مداخلت نہ کرتے تو پاک بھارت جنگ کبھی ختم نہ ہوتی۔ بقول ٹام پریس میں عموماً بھٹو کو ایک جوشیلے نوجوان وزیر خارجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ بڑے ہی حقیقت پسند اور بصیرت رکھنے والے قائد تھے جنہیں بخوبی احساس تھا کہ پاکستان کے پاس اختیار کرنے کے لئے کون کون سے راستے موجود ہیں۔ٹام نے 1967ء میں ZAB کو اقوامِ متحدہ کے مستقبل کے حوالے سے سوئٹزر لینڈ کی مشہور سیر گاہ برجن سٹاک میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں مدعو کیا تھا۔ٹام مینٹن نے بتایا کہ ''اس وقت تک میں یوتھانٹ کی ساڑھے تین سو صفحات پہ مشتمل سوانح مکمل کر چکا تھا۔ میں نے ZAB کو اپنی پہلی ملاقات کی تفصیل پہ مشتمل پچانوے صفحات کا مسودہ بھی دکھایا۔ وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے مجھے اپنی کتاب The Myth of Independence کی ایڈیٹنگ کرنے کی دعوت دے دی۔ بقول ٹام بھٹو صاحب پہ اس وقت بھی اور پھر خاص طور پر بعد میں بھی امریکہ مخالف قرار دے کر کافی نکتہ چینی ہوتی رہی۔انہیں ناپسندیدہ اس لئے بھی ٹھہرایا گیا کہ وہ 1963ء میں پاکستان کو چین کے بے حد قریب کر گئے تھے۔ صدر جانسن نے ایوب خان کو کہا تھا کہ وہ بھٹو کو کابینہ سے نکال باہرکر دیں۔ چین اور روس کے ساتھ امریکہ کی سرد جنگ جاری تھی۔ ٹام نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں لیکن آج تک ان کی دی گئی معلومات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ امریکہ کی نظر میں بھٹو صاحب کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اس کے سب سے بڑے دشمن یعنی چین کے ساتھ دوستی کر لی تھی۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات ہی کو امریکہ نے پھر چند سال بعد چین میں اپنے داخلے کے لئے راستے کے طور پر استعمال کیا۔ چین کے ساتھ تعلقات کی تجدید کے لئے بھٹو صاحب کی کاوشوں کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ فروری 1972ء میں صدر نکسن کے چینی دورے کا اعلان کیا گیا۔ اس سے قبل1971ء کے موسم ِگرما کے اوائل میں پی آئی اے کی ایک خفیہ وی وی آئی پی پرواز میں ہنری کسنجر پیکنگ گئے تھے۔ یہ طیارہ ٹام مینٹن کے عزیز دوست کیپٹن عظیم جان اڑا رہے تھے۔ ٹام مینٹن کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب نے وہی سب کیا جو ان کی نظر میں ان کے ملک کے مفاد کے لئے بہترین تھا۔ ''میں نے خود اپنی آنکھوں سے پاکستان کی مغرب نواز اور فوج پرور اشرافیہ کو امریکہ کے ساتھ ساز باز کرتے دیکھا ہے۔ بھٹو صاحب پاکستان کے وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے بائیس خاندانوں کے تسلط کے خلاف عوام کی بالادستی کے لئے آواز اٹھائی تھی۔ انہوں نے پاکستان کے لوگوں کو یہ احساس دلایا تھا کہ وہ بھی اہم ہیں۔ یہی جمہوریت کی روح ہوتی ہے‘‘۔ ٹام مینٹن ایسے صحافی تھے جن کے گہرے اور مضبوط روابط ایوان ہائے اقتدار اور معتبر دانش گاہوںکے ساتھ قائم تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے الحاق شدہ ریڈ کلف کالج میں بینظیر بھٹو کے داخلے کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی لیکن بعد میں ٹام مینٹن ہی کی سفارش پہ انہیں وہاں داخلہ ملا۔ اس کالج کے صدر ٹام کے دوست تھے۔ ٹام نے انہیں لکھا تھا: ''آپ جسے داخلہ دیں گے وہ ایک دن پاکستان کی وزیر اعظم ہوگی‘‘۔ ZABکی موت کے بعد کئی بار بے نظیر بھٹو نے ٹام مینٹن سے اپنے والد کی سوانح حیات لکھنے کو کہا تھا۔ 19جنوری2011ء کو ٹام مینٹن قتل کر دئیے گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں