ٹرمپ کے زیرِ سایہ مسلمان

امریکہ کے طول و عرض میںامریکی مسلمانوں کی جانب سے مختلف آرا سننے میں آ رہی ہیں۔ یہ لوگ مذہب کی بنیاد پہ ہونے والی تعصب پسندی کے مقابلے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوںکو اپنی جبری عزلت سے متعلقہ آرا رد کرکے منجدھار کے معاشرے میں ضم ہونے کی سعی کرنی چاہئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے پروفائلنگ کے لئے انہی کی جانب اشارہ کیا تھا۔ کیا واقعی ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ تمام منفی پرچار انتخابی فتح پانے کے لئے درکار تھا؟ سچائی شاید ہمیںکبھی معلوم نہ ہو سکے؛ تاہم نقصان اس سے بہت ہو چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی کمپنی سمیت سارے کارپوریٹ امریکہ میں پچھلی پانچ دہائیوں سے لوگوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنا غیر قانونی ہے؛ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلانے والوں کی نظر میں دورانِ مہم اس طرح مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو ہدف بنانا بالکل ایک جائز امر تھا۔ اس سارے عرصے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا جو بھی رویہ رہا ہے اس کی بدولت صرف یہی نہیں کہ امریکہ میں مہذب گفتگو کا معیار گر گیا ہے بلکہ خود ڈونلڈ ٹرمپ کی قامت بھی گھٹ گئی ہے اور اوول آفس کی قدر و قیمت بھی کم ہو گئی ہے۔ یہ تبصرہ ایک ایسے پاکستانی نژاد امریکی کا ہے جو خود کئی عشروں پہلے امریکہ آ کر آباد ہوا۔ نام اس کا علی خان ہے۔ علی خان امریکہ میںکامیابی کی پھسلن زدہ ڈھلوان کو زینہ بہ زینہ عبور کرتے ہوئے کاروباری دنیا میں اعلیٰ ترین مقام پر پہنچے۔ راستے میں انہوں نے ہر قسم کی نسل پرستی اور تعصب پسندی کا سامنا بھی کیا مگر ان کی توجہ اپنے امریکی خواب کی تکمیل پر ہی مرکوز رہی۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ٹرمپ کی حکمرانی سے مسلمان کس طرح نمٹیں گے تو 
اس کے جواب میں انہوں نے تین بڑی قابلِ ذکر باتیں کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی دس فی صد وارداتی ہوتی ہے اور نوے فی صد کسبی! لہٰذا ٹرمپ یا اس کے ساتھیوں سے خائف ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے کردار کی تعریف کے تعین کی اجازت ہم ان لوگوں کو نہیں دے سکتے، یہ ہمارا کام ہے جو ہم خود اپنے ہی اعمال کے ذریعے کریں گے۔ ہمیں مزید ایمانداری، محنت، تعلیم، تحمل کا مظاہرہ کرکے معاشرے کو مثبت طور پر کچھ دینا ہو گا۔ دوسری بات‘ جو علی خان کہتے ہیں‘ یہ ہے کہ کسی کو کبھی بھی خود کو مظلوم نہیں سمجھنا چاہئے‘ کیونکہ مظلوم ہونے کا احساس لوگوں کو خود ترحمی کا شکار بنا دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں خود پر یقین رکھتے ہوئے اپنا سر بلند رکھتے ہوئے‘ اور دوسروں کے کام آتے ہوئے اپنی ترقی کی راہیں خود بنانا ہوں گی۔ اگر مسلمان زیادہ کامیاب ہوں، دنیا پہ ان کی مثبت چھاپ زیادہ ہو تو معاشرے میں مجموعی طور پر ان کو سراہا بھی جائے گا۔ یہودیوں اور ہندوئوں کو یہاں زیادہ عزت اسی لئے دی جاتی ہے کہ لوگ ان کی کامیابی اور خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں ان کی کامیابی کی داستانیں زیادہ سنتے ہیں۔ فیس بک کے سی ای او مارک ذکربرگ، گوگل کے سی ای او سندر پچائی اور مائیکروسافٹ کے سی ای او ستیہ نڈیلا کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ تیسری بات علی خان یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو دہشت گردوں کے حوالے سے مکمل عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہ دہشت گرد دنیا بھر میں 
لاکھوں کروڑوں امن پسند، مہذب اور محنتی مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ میڈیا کے آئیوی لیگ کے تعلیم یافتہ، ایک بلبلے میں خود کو محصور رکھنے والے صرف باتوں کے شوقین مبصرین و تجزیہ نگار مسلمان تارکین وطن کے ڈیٹابیس کی تیاری سے متعلق ٹرمپ کی تجویز کے بارے میں کنفیوژن پھیلانے کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ نومنتخب امریکی صدر بذاتِ خود ایک غیر مستحکم ہدف کی مانند ہیں‘ لیکن میڈیا نے بھی اسلام ترسی پہ مبنی ان کی اس تجویز کا مکمل جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ میڈیا والے اس بات کو محض سنسنی اور امریکہ بھر میں مسلمانوں کے بچوں، یونیورسٹی کے طلبہ، پیشہ ور اور کاروباری افراد، گھریلو خواتین اور معمر افراد میں خوف وہراس پھیلانے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان ٹی وی والوں کے برعکس راس صدیقی نامی ایک اور پاکستانی نژاد امریکی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پہ مکمل پابندی لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ راس صدیقی کیلیفورنیا میں مقیم ایک مصنف اور صحافی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی باتیں بیان بازیوں اور غیر گریز متعصب افراد کا ووٹ پانے کی حد تک ہی سود مند ہیں لیکن کاروبار اور سیکولر اقدار کے لئے یہی باتیں بے حد نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ ٹرمپ صرف یہ کر سکتا ہے کہ مزید پابندیاں لگا کر مسلمانوں کے لئے امریکی ویزے کا حصول تقریباً ناممکن بنا دے، جو ویسے بھی پہلے ہی سے مسلمانوں کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سیلیکان ویلی والے ٹرمپ سے بے حد خوفزدہ ہیں۔ یہ لوگ بیرون ممالک سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے ورکرز کی خدمات حاصل کر کے انہیں H-1B ویزہ پروگرام کے تحت امریکہ لاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اسی پروگرام کے خاتمے کے عزم کا اعلان کر چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ملازمتیں مقامی امریکیوں کو ملنی چاہئیں، بیرون ملک سے لائے گئے افراد کو نہیں! بہت سارے پاکستانی بھی اسی ویزے کے تحت امریکہ آئے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کے ساتھ راس صدیقی کے رابطے بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے جو دوست سیلیکان ویلی میں اونچے عہدے، اونچی تنخواہیں اور مستحکم کیریئرز رکھتے ہیں‘ ان کا خیال ہے کہ اس ویزے کے تحت بلوائے جانے والوں کی تعداد کی کوئی حد بندی ہونی چاہئے، کیونکہ اس سے انہیں ملازمتی اور مالی تحفظ حاصل ہو سکے گا؛ تاہم فیس بک، گوگل، آریکل اور اسی طرح کی دیگر کارپوریشنز اس اقدام کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ اس سے پھر انہیں کم دام میں کام کرنے والے میسر نہیں ہو سکیں گے۔ راس صدیقی اپنی کمیونٹی میں بڑے سرگرم ہیں۔ بے ایریا میں پاکستانیوں کی ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں میں وہ پیش پیش ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی صدارت سے انہیں کوئی تشویش نہیں کیونکہ ایک بار صدارتی محل پہنچنے کے بعد سب بدل جاتے ہیں۔ بارک اوباما نے بھی تو ''جسارتِ امید‘‘ کا نعرہ دیا تھا، آخر اس کا کیا بنا؟ دوسری طرف نیوجرسی میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی انجینئر ارشد جمیل کو خدشہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے خلافِ اسلام ایجنڈے پہ عمل کر لیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہئے۔ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ہماری پہچان کیا ہے؟ ارشد جمیل اپنی کمیونٹی کو ترغیب دیتے ہیں کہ مقامی سیاست میں بھی حصہ لے۔ وہ کہتے ہیں کہ پڑوسیوں سے بات کریں، ساتھی ملازمین سے بات کریں، ٹائون شپ جائیں، اپنے کانگرس کے نمائندوں اور سینیٹروں سے رابطے بنائیں۔ اسی طریقے سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ابھی چودھویں صدی تک تعلیم، سائنسی ایجادات، دانشورانہ مباحث اور اقلیتو ں کے لئے برداشت کے حوالے سے ہم مسلمان ہی ساری دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے۔ یورپ اس وقت اپنی تاریخ کے سیاہ دور سے گزر رہا تھا، قبائلی جنگیں، مذہبی بحثیں اور اقلیتوں اور خاص طور پر یہودیوں کے خلاف عدم برداشت عروج پر تھی۔ سترہویں صدی کے آغاز پہ روشن فکری کے دور اور صنعتی انقلاب کی ابتدا نے یورپ کو بدل کر رکھ دیا۔ علی خان کہتے ہیں کہ مسلمان بھی اپنے دوسرے سنہرے دور کے آغاز کی جانب قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ''ایک بار جب ہم متحد ہو جائیں اور یہ یقین رکھیں کہ ہم اچھائی کی قوت ہیں تو اس کے بعد کوئی بھی ہمیں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکے گا۔ ہمیں اپنی امید زندہ رکھنی چاہئے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں