ٹرمپ فارمولہ: پیار اور نفرت ساتھ ساتھ!

ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھنا بے حد مشکل ہے۔ مکمل واضح جملوں کی بجائے موصوف کی باتیں عموماً تفضیلی صیغے کے مختصر کلمات پر مبنی ہوتی ہیں۔ نتیجتاً عموماً ان کے منہ سے جو کچھ نکلتا ہے وہ زیادہ تر ناقابلِ فہم ہی رہتا ہے۔ پچھلے ہفتے میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی جو ٹیلی فونک گفتگو ہوئی، اس کا بھی یہی حال رہا۔ مثلاً، میاں صاحب سے انہوں نے کہا کہ ''آپ کی شہرت بڑی اچھی ہے، آپ بڑے ہی زبردست آدمی ہیں، آپ بڑا ہی شاندار کام کر رہے ہیں جو ہر طرح سے واضح دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستانیوں کی شان میں بھی قصیدے پڑھے۔ ''پاکستان شاندار لوگوں کا شاندار وطن ہے۔ میری طرف سے پاکستانیوں کو بتائیے گا کہ وہ ایک شاندار قوم ہیں۔ جن پاکستانیوں کو بھی میں جانتا ہوں وہ نہایت غیر معمولی لوگ ہیں۔ پاکستانی قوم دنیا کی ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہے‘‘۔ اس بات چیت نے سیاسی مبصرین کو مبہوت کرکے رکھا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کبھی پاکستان کا دورہ نہیں کیا، اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ مسلمانوں سے لاحق خطرات کی بات کرتے تھے، اور اس سب کے بعد اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں شاندار مواقع کی بہتات ہے! مطلب یہ کہ امکان ہے کہ اپنے ہوٹلوں اور ٹاوروں کی تعمیر کے کام کو وہ پاکستان کے طول و عرض تک وسعت دے دیں گے۔ نو منتخب امریکی صدر کی جانب سے الفا ظ کا غیر دانشمندانہ چنائو مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر سنگین نوعیت کے اثرات کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ ان ماہرین کا خیال ہے جو یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ خارجہ امور میں پاک بھارت تعلقات سے زیادہ پیچیدہ شاید ہی کوئی اور معاملہ رہا ہو۔ جنوبی ایشیا کی یہ دونوں جوہری طاقتیں ایک دوسرے کی دیرینہ دشمن ہیں۔ کوئی عالمی لیڈر جب اس معاملے کی طرف ذرا سا بھی اشارہ کرنا چاہے تو احتیاط سے کالم لینے کی انتباہی ہدایت اسے میلوں دور سے ہی دکھائی پڑ جاتی ہے۔ مگر ماہرین کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ تاحال ان باریکیوں سے واقف نہیں جو امریکی دفترِ خارجہ والے عموماً اپنے صدور کے سامنے احتیاط کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کی جس لہر کو تحریک ملی تھی، وہ بھی بدستور جاری ہے۔ ڈاکٹر رفعت حسین ایک پلاسٹک سرجن ہیں جو پچاس برس قبل امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کئی بار انہیں موت کی دھمکیاں ملتی رہی ہیں لیکن ایسا صرف تبھی ہوا کرتا جب سیاسی حالات میں کشیدگی کا عنصر غالب ہوتا، جیسا کہ 1967ء اور 73ء کی عرب اسرائیل جنگوں کے دوران ہوا، یا پھر 1990ء کے آپریشن ڈیزرٹ سٹارم کے دوران اور پھر جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا سانحہ۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ابھی حال ہی میں ان کی بیٹی کے ساتھ جو ہوا وہ ان تمام برسوں میں ان کے ساتھ ہونے والا سب سے خوفناک واقعہ تھا۔ ان کی بیٹی انسانی حقوق کے شعبے کی وکیل ہیں اور ایک چھوٹی سی گاڑی چلاتی ہیں۔ پچھلے دنوں جب وہ اپنی گاڑی میں تھیں تو ایک شخص بڑی سی ایس یو وی میں سوار پیچھے سے آیا اور بڑی قوت کے ساتھ بار بار ان کی گاڑی سے اپنی گاڑی ٹکراتا رہا۔ اسی گلی میں واقع ایک مکان میں سے کسی نے یہ منظر دیکھ کر 911 پہ خبر کر دی۔ جب پولیس پہنچی تو وہ شخص موقع سے فرار ہو چکا تھا؛ تاہم جس شخص نے یہ سارا منظر دیکھا تھا اس نے اس گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا تھا جو اس سے پولیس کو دے دیا۔ ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں کہ گاڑی کی حالت تو بُری ہو ہی چکی ہے لیکن ان کی بیٹی شدید صدمے کی کیفیت میں ہے۔ امریکہ میں تعصب، نسلی امتیاز اور نسلی تفریق کی بنیاد پہ نفرت شروع ہی سے راج کرتی آئی ہے۔ کسی نہ کسی وقت میں وہاں عورتیں، سیاہ فام، مقامی امریکی باشندے، لاطینی نسل کے لوگ، جنوب ایشیائی افراد، چینی، جاپانی یا یہودی النسل لوگ کسی نہ کسی شکل میں نفرت، تعصب، اجنبیت اور حتیٰ کہ بدنی حملوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ بقول ڈاکٹر رفعت حسین سیاسی قیادت کی جانب سے اپنے فائدے کے لئے ایسے معاملات کا استعمال بھی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ اسے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کی کوئی انفرادی خاصیت نہیں۔ امریکی دارالحکومت میں پچھلے دنوں سفید فام قوم پرست باشندوں نے نومنتخب امریکی صدر کو بطور تہنیت نازی سلام پیش کیا۔ اس قسم کے سلاموں پہ جرمنی میں قانوناً پابندی لگ چکی ہے لیکن ٹرمپ کے زیرِ حکومت امریکہ میں ایسی باتیں قابلِ قبول سمجھی جائیں گی۔ شاید یہ ابتدا مسلمانوں کے لئے انتباہ ہے کہ سترہ جنوری2017ء کے بعد جب ڈونلڈ ٹرمپ آزاد دنیا کے باقاعدہ لیڈر بن جائیں گے تو ان کے ساتھ مزید بہت کچھ بھی بُرا ہو سکتا ہے۔ سائوتھ کیرولائنا کی ریما احمد آج وہاں ہیلتھ کیئر مصنوعات تیار کرنے والی ایک کامیاب کمپنی چلا رہی ہیں۔ چالیس برس تک اپنے اس سفر کے ہر قدم پہ انہوں نے نسلی تعصب کا سامنا کیا مگر آج وہ اچھا کما رہی ہیں اور کافی خوشحال ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خود ترحمی کا شکار ہونا چھوڑیے اور خدا را مذہب کا کارڈ بھی استعمال نہ کریں! جب کوئی امریکہ کو اپنا گھر کہتا ہو اور وہ یہاں پیدا نہ ہوا ہو تو یہ پھر اس کی اپنی مرضی اور اپنا اختیار ہے۔ کوئی امریکہ منتقل ہونے پہ کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ امریکی شہری کے طور پر ہم لوگ اس ملک میں میرٹ کی بالاتری پہ فخر کرتے ہیں اور دوسروں کا یہاں خیر مقدم کرتے ہیں بشرطیکہ وہ یہاں قوانین کی پاسداری کریں اور اپنے مذہب اور نسل کی نمائش کے بغیر اس معاشرے میں ضم ہونے کو تیار ہوں۔ پاکستان کے برعکس امریکہ کسی مذہبی ریاست کے طور پر نہیں بلکہ ایک سیکولر ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ پاکستان میں تو آئے دن فرقہ واریت کا عفریت سر اٹھا لیتا ہے۔ اگر کوئی ہمارے فرقے کا نہیں تو چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ اتفاق رکھنا ہمارے لئے دشوار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت پہ مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے لیکن امریکہ اور یورپ میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے پیچھے انتہا پسند عناصر ہی تھے۔ ہر بار جب خبروں میں ایسا کچھ آتا ہے تو ہم دعا کرتے ہیں کہ خدایا، اس کے پیچھے کسی مسلمان کہلانے والے کا ہاتھ نہ ہو۔ گیارہ ستمبر کے واقعات ایسے آثار کی ابتدا تھی کہ امریکہ اب مسلمانوں کے لئے محفوظ نہیں رہا اور امریکی نفسیات میں پنہاں اسی خوف کا ٹرمپ نے استحصال کیا ہے۔ ابھی چند دن پہلے عبدالرزاق علی ارتن نامی ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں کیمپس میں کھڑے ہجوم پہ گاڑی چڑھا ڈالی اور پھر کئی لوگوں پہ چھری سے وار کئے۔ پولیس نے اس نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ نوجوان ایک صومالی پناہ گزین تھا جس نے خاندان سمیت سن دو ہزار ساتھ میں وطن چھوڑا تھا۔ سات برس تک یہ لوگ پاکستان میں رہے اور پھر دو ہزار چودہ میں انہیں امریکہ میں قانوناً مستقل رہائش ملی۔ اپنے فیس بک پیج پر ایک پیغام میں اس نے لکھا ہے کہ اس کے لئے اب حد تمام ہو چکی ہے، ایک تنِ تنہا کارروائی کرنے والے دہشت گرد کا حوالہ بھی اس نے دیا ہوا تھا اور انتہا پسند ملا انورالعولاقی کی یہ بات بھی نقل کی ہوئی تھی کہ ''امریکہ والو، دیگر ممالک، اور خاص طور پر مسلمان اُمہ میں دخل اندازی بند کرو، ہم کمزور نہیں ہیں، ہم کمزور نہیں، یہ یاد رکھو!‘‘ اوہائیو میں صومالی کمیونٹی ایسوسی ایشن کے صدر حسن عمر کہتے ہیں کہ صومالی کمیونٹی اس وقت صدمے کی حالت میں ہے۔ ''ہم پُرامن لوگوں کے طور پر یہاں رہتے ہیں۔ یہ واقعہ سبھی کی زندگی پہ اثر انداز ہو گا۔ ہم امریکی ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ اس طرح کا مسئلہ کوئی کھڑا کرے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں