جعلی خبروں کی وبا

ریاست ہائے امریکہ میں آج کل سوشل میڈیا پہ جعلی خبروں کی وبا کسی لعنت کی مانند چھائی ہوئی ہے۔ نو منتخب صدر خود بھی سازشی نظریہ سازوں میں سر فہرست موجود ہیں۔ ٹویٹر پہ ان کی سرگرمیاں مضحکہ خیز بھی ہوتی ہیں اور فکر انگیز بھی! انہیں دیکھ کر ان ساٹھ ملین امریکیوں پہ افسوس ہوتا ہے جنہوں نے ایسے شخص کو وو ٹ دیا۔ قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ نے جس شخص کا انتخاب کیا ہے وہ اور زیادہ فکر انگیز ہے۔ جنرل (ر) مائیکل فلن کا دروغ گوئیوں کی ترویج و اشاعت میں کوئی ثانی نہیں۔ صدارتی انتخاب سے چھ روز قبل انہوں نے جھوٹ پہ مبنی ایک ٹویٹ میں بتایا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے ثبوت حاصل کئے ہیں جو ہلری کلنٹن کی صدارتی مہم کو واشنگٹن کے ایک پیزیریا کے تہہ خانے میں بچوں کی جنسی مقاصد کے لئے ٹریفکنگ میں ملوث ایک رِنگ کے ساتھ مربوط ظاہر کرتے ہیں۔ اس قصے کو ''پیزا گیٹ‘‘ کا نام ملا، اور اسے پھیلانے میں مائیکل فلن اور ان کے بیٹے پیش پیش رہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک احمق آدمی رائفل اور شاٹ گن لئے اس پیزیریا پہنچ گیا تھا تاکہ معصوم بچوں کو وہاں سے بچا سکے۔ اس نے وہاں گولیاں بھی چلائیں لیکن شکر ہے کہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی امریکہ کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری مائیکل فلن کو سونپی جا سکتی ہے؟ انٹرنیٹ پہ جعلی خبروں کی بھرما ر کے حوالے سے دو ہزار سولہ کو طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ ڈونلڈٹرمپ نے تو پرنٹ اور الیکٹرانک‘ دونوں قسم کی میڈیا کی ساکھ کو نشانہ بناتے ہوئے بڑی شدت کے ساتھ یہ مؤقف اختیار کئے رکھا ہے کہ ان کی رپورٹنگ کے حوالے سے دونوں قسم کا میڈیا ''کرپٹ‘‘ اور ''بددیانت‘‘ ہے۔ انہوں نے ہی اس خیال کو ترویج دی ہے کہ روایتی صحافت اب صداقت کی علمبردار نہیں رہی بلکہ اصل سچ وہی ہے جو وہ روزانہ کی بنیاد پہ اپنی درجن بھر ٹویٹس میں بیان کرتے رہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں تبدیلی کے بھوکوں کا پیٹ اسی طرح جھوٹ سے آلودہ باتوں سے بھر کر اپنی جیت پائی ہے۔ اپنے جھوٹ کو پھیلانے کے لئے وسیلہ انہوں نے ٹویٹر کا ہی استعمال کیا جو ایک پیغامبر کے طور پر انہیں اور ان کے کروڑوں مداحوں کو چوبیسوں گھنٹے میسر رہتا تھا۔ نتیجتاً سچ مات کھا گیا اور سوشل میڈیا کی فتح ہوئی۔ جھوٹ پہ جھوٹ بولنا اور اپنے ناقدین کے لئے زہر آلود زبان کا استعمال ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک نہیں چھوڑا۔ نجانے انہیں یہ ساری جھوٹی معلومات کہاں سے حاصل ہوتی ہیں؟ ان تمام معلومات میں سے زیادہ تر کا ذریعہ ایلکس جونز نامی ایک شخص ہے‘ جسے تمام سازشی نظریہ سازوں کا باپ مانا جاتا ہے۔ موصوف ریڈیو کے ایک میزبان ہیں اور ان کی ویب سائٹ InfoWars ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پھیلائے گئے سازشی نظریات کا منبع ہے۔ اسی لئے تو فتح پانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جن جن لوگوں سے پہلی فرصت میں بات کی ان میں ایلکس جونز بھی شامل تھے۔ اس بات چیت کے بارے میں ایلکس جونز نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ''ڈونلڈ ٹرمپ صرف شکریہ میرا ادا کر رہے تھے کہ میں کس قدر محنت کے ساتھ امریکیوں اور امریکن ازم کے لئے جدوجہد کر رہا ہوں، اور میرے سامعین اور حامیوں کا بھی انہوں نے شکریہ ادا کیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ مسلسل کام میں مصروف ہیں‘‘۔ یُو ٹیوب پہ ایلکس جونز کے 1.8 ملین سبسکرائبرز ہیں اور ایک سو ساٹھ ریڈیو سٹیشنوں سے ان کا شو نشر ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو ایک طرف، خود جنرل فلن اور ان کے صاحبزادے بھی جن سازشی نظریات کی ترویج میں مصروف رہتے ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر ایلکس جونز کی ویب سائٹ ہی سے لئے گئے ہوتے ہیں۔ پیزاگیٹ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ واشنگٹن کے پیزیریا پہ فائرنگ کے واقعے کے بعد صاحبزادہ موصوف تو برطرف ہو چکے ہیں‘ لیکن ان کے والد کی نامزدگی بدستور برقرار ہے۔ Politico جیسے معتبر میگزین نے بھی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ مائیکل فلن متعدد بار صریح سازشی نظریات کی ترویج میں ملوث رہے ہیں۔ نو اگست 2016ء سے لے کر اب تک کم و بیش سولہ بار انہوں نے غلط اعداد و شمار اور گمراہ کن حقائق پہ مبنی خبریں پھیلائی ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر مذہبی و انسانی حقوق کی نمائندہ تقریباً تریپن تنظیموں نے تحریری طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا ہے کہ ان کے خیال میں جنرل فلن قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پہ تقرری کے اہل نہیں۔ ''ان کی تقرری دنیا میں امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور ہماری قومی سلامتی کو بھی اس سے خطرہ درپیش ہوگا۔ جنرل فلن کئی بار اسلام مخالف بیانات دے چکے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف سازشی نظریات کو بھی پھیلاتے رہے ہیں‘‘۔ جنرل فلن ایک نہایت ہی خطرناک اور شیطانی کھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکہ کے ایک معروف تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق وہ ''نظریاتی تنصیبات‘‘ کا حربہ آزما رہے ہیں۔ وہ امریکیوں سے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں سے اجنبیت برتنی چاہئے کیونکہ ''اسلام پرستی 1.7 بلین افراد کے اند پنپتے ہوئے ایک سرطانی پھوڑے کی مانند ہے جسے نکال پھینکنا ضروری ہے‘‘۔ امریکیوں کو ہوشیار ہونا چاہئے کیونکہ سازشی نظریات پہ مبنی ایسی باتوں کی صدائیں داعش والوں تک بھی پہنچتی ہیں اور پھر وہ مغرب سے دل برداشتہ نوجوانوں کے آگے خود کو ایک آخری امید کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔ خود داعش والوں کے بھی سوشل میڈیا، ٹویٹر اور فیس بک پر بے شمار جعلی اکائونٹس موجود ہیں جن کے ذریعے وہ بھی جعلی خبریں پھیلاتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں جعلی خبروں کی پنپتی ہوئی روایت اس ملک کا جو حال کر رہی ہے اس پہ پوپ فرانسس نے بھی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے تبصر کیا ہے۔ پوپ فرانسس کہتے ہیں کہ ''امریکی میڈیا کا سکینڈلوں کے لئے جنون ایسا ہی ہے جیسے کوئی غلاظتوں کے لئے جنون رکھے۔ سب سے زیادہ نقصان اگر میڈیا پہنچا سکتا ہے تو وہ جھوٹی خبروں کا پھیلائو ہی ہے۔ ایسا کرنا گناہ ہے!‘‘ کمپیوٹر سائنس کے ایسے طلبہ جو جلد از جلد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا چاہتے تھے، انہوں نے بھی امریکی انتخابات کے دوران جھوٹی خبریں بنا کر پھیلانے میں پورا حصہ لیا۔ ذرا تصور کیجئے کہ ہزاروں میل دور بیٹھا ایک فاقہ زدہ طالب علم ہلری کلنٹن کے خلاف جھوٹی کہانیوں پہ مبنی ایک ویب سائٹ بنا لیتا ہے۔ کینیڈا میں بھی جان ایگن نامی ایک شخص نے ثابت کر دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں جعلی خبریں بنا کر پھیلانا سونے کی کان ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ویب سائٹ نے بھی ایسی خبروں سے کافی پیسہ کمایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کی صورت میں صدر اوباما کینیڈا منتقل ہو جائیں گے۔ جان ایگن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ آج کل ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی ہر طرف چرچا ہے۔ لوگ ایسی ہی باتوں کے شائق ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مداح جو بقول ہلری کلنٹن ''ناپسندیدہ افراد کا ایک جتھہ‘‘ ہیں، ہلری کلنٹن کے خلاف اس ویب سائٹ پہ دی گئی ہر خبر کو من و عن تسلیم کرتے رہے ہیں۔ بالغ امریکی آبادی کا چھیاسٹھ فیصد حصہ خبروں کے لئے فیس بک پہ ہی انحصار کرتا ہے۔ اسی لئے جعلی خبریں بنا کر پھیلانے والوںکا کاروبار خوب چمک اٹھا ہے۔ فیس بک کے شریک بانی مارک ذکر برگ نے پہلے پہل تو اس ضمن میں کوئی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا‘ لیکن بعد میں یہ اعلان کر دیا کہ جعلی خبروں کی ترویج کے لئے فیس بک کو وسیلہ بنانے والی ویب سائٹس پہ پابندی لگا دی جائے گی۔ اسی قسم کا اعلان گوگل والوں نے بھی کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں کمپنیاں ایسے اعلانوں سے اصل مسئلہ حل کر پائیں گی؟ جو نقصان ہو سکتا تھا وہ تو ویسے بھی ہو چکا ہے امریکہ میں اہم ترین عہدے پہ ایک بدترین امیدوار سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ پہ جھوٹ پھیلا کرمنتخب ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پہ چند ایک افراد خبروں کے سے انداز میں اس کے بولے گئے جھوٹوں کو عکسی طور پہ پیش کرتے اور لاکھوں کروڑوں افراد اسے آگے بھیج دیتے‘ یوں اس کے مداحوں میں ہیجان بھی بڑھتا رہا۔ ایک خبر ایسی بھی ہے جس کی درجہ بندی ممکن نہیں۔ صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی حلف نہیں اٹھایا‘ لیکن وہی شخص جس نے ان کی فتح کی پیش خبری دی تھی اب کہہ رہا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر کو عنقریب مواخذے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایلن لٹمین کی انتخابی پیش خبریاں انیس سو چوراسی سے درست ثابت ہوئی ہیں۔ موصوف واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسی تاریخ پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑے۔ بقول ان کے، ان کا دل کہتا ہے کہ ری پبلکن پارٹی والے ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے قدرے نروس ہیں کیونکہ ان کا کوئی اعتبار ہی نہیں کہ کب کیا کہہ دیں۔ ان کے حتمی خیالات اور مؤقف کی کسی کو بھی خبر نہیں۔ انہیں قابو بھی نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ سو کیا ہم یہ سمجھیں کہ وائٹ ہائوس میں اپنی اقامت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ ٹویٹر کے ساتھ اپنے دوستانے کے ذریعے اس امریکی صدارتی محل کو جعلی خبروں اور سازشی نظریات کا گڑھ بنانے والے ہیں؟!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں