لازوال عشق یا عارضی معاشقہ؟

کہتے ہیں کہ سیاست میں انسان عجیب عجیب لوگوں سے بھی بنا کے رکھنے پہ مجبور ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور میاں نواز شریف جیسے کاروباری پس منظر کے حامل قائدین جب ایک دوسرے کے کانوں میں میٹھی میٹھی سرگوشیاں کریں تو اس سے عجیب تر بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ ہم نے تو سنا ہے کہ کاروبار کی زبان آفاقی ہوتی ہے۔ اس میں سب سے بڑا روپیہ ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک ان کہی قسم کی مفاہمت کے تحت کاروباری لوگ ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو سمجھ پانا ان کے لئے آسان ہوتا ہے۔ یہ ذہین لوگ ہوتے ہیں، جو خطرات مول لینے سے کتراتے نہیں، موافق مواقع پہ ان کی نظر ہوتی ہے اور منفی رویے رکھنے والے ان کی راہ کی رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ ایک کامیاب کاروباری انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہے اسے بہترین نتائج کے حصول کے لئے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مدِمقابل سے وہ زیادہ ذہانت کا حامل ہو۔ اپنی حکمت عملی اسے کسی فوجی جرنیل کی مانند مرتب کرنا پڑتی ہے۔ محتاط راہیں اپنانے کے لئے درکار سفارتی مہارت بھی اس میں ہونی چاہئے اور کام مکمل کروانے کی مالیاتی فراست بھی ضروری ہے کہ اس میں ہو۔ مگر کسی کاروباری شخص کو جب ایک ملک کی قیادت سونپ دی جائے تو پھر کیا ہو گا؟ نتائج تو حاصل ہوں گے ہی، چاہے کوئی انہیں پسند کرے یا نہ کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور 
میاں صاحب میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ تمام فیصلے انہی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے علاوہ اور کسی کو بھی کچھ ثابت کرکے نہیں دکھانا۔ انہیں مالی آزادی بھی حاصل ہے۔ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ لوگوں کو بتاتے بھی رہتے ہیں کہ وہ کسی کے بھی ممنونِ احسان نہیں رہے۔ انانیت، اقتدار اور کامیابی کی یکجائی بڑی ہی مہلک ثابت ہوتی ہے۔ کاروباری لوگوں کو مذاکراتی مہارت تو حاصل ہوتی ہے لیکن قوانین کی پاسداری کی پروا انہیں نہیں ہوتی کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے حتمی فیصلوں کے بارے میں مخمصے کا شکار رہیں۔ ان کی کاروباری ذہانت انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنا تُرپ کا پتّا چھپا کر رکھیں۔ اپنے اصل جذبات اور خیالات کا سرِعام اظہار وہ کبھی نہیں کرتے۔ فریقِ مخالف کو چکرائے رکھنا، خود محتاط رہنا، سوچ بچار کرنا، عمل پہ یقین رکھتے ہوئے اپنے حربے مرتب کرنا، اور ضرورت پڑنے پہ ناقابلِ پیشگوئی کرنا، یہ سب ان کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ الزام تراشیوں کا کھیل یہ لوگ نہیں کھیلتے، جزئیات اور تفصیلات انہیں پریشان نہیں کرتی ہیں۔ ایک وسیع تصویر پہ نظر رکھتے ہوئے اور اپنے مخالفین کے مقابل زیادہ علم رکھ کر یہ لوگ اپنے کام کروانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ یہی حقیقی طاقت ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیتے‘ کیونکہ وہ شروع سے ہی جانتے تھے کہ وسط مغربی ریاستوں کے لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ دوسری طرف امریکی میڈیا اور ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم چلانے والوں کو تو ان سروے رپورٹوں نے اندھا کر رکھا تھا جو آخری دن تک ہلری کلنٹن کی فتح کے اشارے دے رہی تھیں۔ اسی طرح سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں نواز شریف کو بھی علم تھا کہ فتح انہی کو ملنے والی ہے حالانکہ ماہرین عمران خا ن کی جیت کی پیش خبریاں دے رہے تھے۔ سوال اس وقت یہ ہے کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ اور میاں نواز شریف کے درمیان یہ پُرجوش تعلق قائم بھی رہے گا؟ ہمارے خیال میں تو رہے گا! کسی بھی دیرپا اور پائیدار تعلق کی مانند اس کی بنیاد بھی باہمی احترام ہی پہ ہے۔ یہ کسی جذباتی جوش کے نتیجے میں نہیں بنا بلکہ ایک ایسے سوچے سمجھے کاروباری منصوبے کا یہ نتیجہ ہے جو یہ دونوں ہی عمل میں لانا چاہتے ہیں۔ فائدہ اس سے پاکستان اور امریکہ دونوں ہی کو ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں نواز شریف بڑے ہی ''شاندار‘‘ انسان ہیں۔ پاکستانی قوم بھی بقول ان کے بڑی ہی زبردست قوم ہے بلکہ ذہین اقوام میں سے ایک ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہمارا ملک اور 
ہمارے وزیر اعظم اس قدر پسند ہیں کہ انہوں نے تو یہ پیش کش تک کر دی ہے کہ اہم مسائل کے حل کے لئے جو بھی کردار میاں صاحب چاہیں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ادا کریں تو وہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ اس قدر گرمجوشی پر مبنی باتیں سن کر اور وہ بھی ایک ایسے انسان کی جانب سے جو کچھ ہی عرصے میں دنیا کا طاقت ور ترین شخص ہو گا، میاں صاحب کے کان مارے شرم کے سرخ ہو گئے ہوں گے لیکن ساتھ ہی یہ باتیں بے شک ان کے لئے فردوسِ گوش بھی ثابت ہوئی ہوں گی۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ کسی بھی دوسرے تعلق کی مانند یہ تعلق بھی نشیب و فراز سے دوچار ہو سکتا ہے۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی طارق فاطمی واشنگٹن میں تھے۔ وہ اپنے ساتھ میاں صاحب کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی تقریبِ افتتاح میں شرکت کا دعوت نامہ بھی لے کر آئے ہیں۔ میاں صاحب بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے دُوبدُو ملاقات کے لئے بے چین ہیں۔ ایسے حاسدین بھی یقینا موجود ہیں جو کچھ بدمزگی ضرور پیدا کرنا چاہیں گے، جیسا کہ بھارت! لیکن بارہ ہزار کلومیٹر کی دوری سے جو تعلق بذریعہ فون کال بنا ہے، وہ کسی محبت کی داستان سے کم تھوڑی ہو سکتا ہے! ہم کم از کم اس کی امید تو رکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف روسی صدر ولادی میر پیوٹن بھی ایک کاروباری انسان ہیں جو مبینہ طور پر پچاسی بلین ڈالرز کی ملکیت کے ساتھ دنیا کے مخیر ترین شخص ہیں۔ پاکستان کے ساتھ کاروبار کی خواہش وہ بھی رکھتے ہیں۔ 
میاں صاحب پیوٹن سے بھی ٹرمپ جیسی ہی دلداری کی توقع رکھے ہوئے ہیں۔ روسی حکومت سی پیک میں شمولیت چاہتی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ ان کا اپنا یوریشین اکانومک یونین پروجیکٹ سی پیک کے ساتھ مربوط کر دیا جائے۔ کیا روس والے اپنا عاشق بدلنے کے چکروں میں ہیں؟ بھارتی وزیر اعظم کی بجائے اب پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ وہ دوستانہ گانٹھنا چاہتے ہیں؟ پیوٹن اور ٹرمپ‘ دونوں ہی کی نوازشات کی بارش میاں صاحب پہ ہو رہی ہے اور وہ ان نوازشات اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کو گنتے نہیں تھک رہے۔ فوربز میگزین کے مطابق روسی صدر اس وقت دنیا کے طاقت ور ترین افراد میں اول نمبر پر ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا نمبر اس فہرست میں دوسرا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسر ے کو پسند بھی کرتے ہیں‘ سی آئی اے اور ایف بی آئی والے بھلے ہی یہ الزام لگاتے رہیں کہ روسی صدر کی ایما پر ڈیموکریٹک پارٹی کی ای میلز ہیک کی گئی تھیں تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جیتنے میں مدد دی جا سکے۔ امریکہ کے صدرِ ناتواں بارک اوباما نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ اس سال ستمبر میں جب وہ روسی صدر سے ملے تھے تو انہوں نے ان سے کہا تھا کہ روس کو امریکی انتخابات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے۔ پیوٹن کو ان کی بات سننے کی کیا پڑی تھی۔ اگر یہ خبر اتنی ہی سنگین ہوتی تو وائٹ ہائوس اور کلنٹن خاندان کی جانب سے اس کا پُرزور پرچار کیا جاتا۔ کیا امریکی میڈیا نے کوئی شور مچایا؟ نہیں، بلکہ ہیک شدہ مواد کی خوشی خوشی نمائش کی جاتی رہی!
سالِ نو کے دوران امریکہ، پاکستان اور روس کے درمیان محبت کی ایک تکون تشکیل پا سکتی ہے، لیکن یہ مت بھولیں کہ یہ تین کاروباریوں کے بیچ لین دین پہ مبنی ایک دوستانہ ہے۔ پاکستان کی صورت میں روسی فوجی ہارڈویئر کا ایک نیا خریدار پہلے ہی روس کو مل چکا ہے۔ اب یہی باقی ہے کہ میاں صاحب امریکہ جا کر ڈونلڈ ٹرمپ کے دونوں بیٹوں ڈونلڈ جونیئر اور ایرک کو پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی دعوت دیں۔ شاید یہ فرزندانِ ٹرمپ پاکستان کے بلند و بالا، دلکش اور حسین و جمیل پہاڑی علاقوں میں کہیں ایک سیون سٹار ریزورٹ تعمیر کرنا چاہیں گے۔ اگر میاں صاحب ان کے ساتھ واقعی کوئی سودا طے کرنا چاہتے ہیں تو حلف برداری کی تقریب کے اگلے دن جو افتتاحی تقریب ہونی ہے اس کے لئے انہیں لاکھوں ڈالرز کا چندہ دینا ہو گا تاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کا شرف انہیں حاصل ہو سکے۔ اس ملاقات میں مریم، حسن اور حسین نواز بھی اپنے والد کے ساتھ شرکت کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں