نیک ارادوں کا رستہ بناتی ناکامیاں

ایک بار پھر ہم لوگ سالِ نو کے لئے اپنے عزائم کا اعلان کر رہے ہیں۔ امید تو ہمیشہ برقرار رہتی ہے؛ چنانچہ ہم لوگ خود کو قائل کرتے رہتے ہیں کہ اس سال تو ہم اپنے عزائم پہ عمل کرکے دکھائیں گے۔ خود سے ہمارے کئے گئے ایسے وعدوں میں سے اکثر تو بنتے ہی ٹوٹنے کے لئے ہیں۔ جو چیز ہم خود میں بدلنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں ہمارا دل پہلے سے ہی جانتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جو ہم بدل نہیں سکتے۔ سن دو ہزار دو کے ایک مطالعے کے مطابق ہم میں سے پچھتر فی صد لوگ سالِ نو کے لئے کئے گئے ایسے عزائم نئے سال کے پہلے ہی ہفتے میں توڑ دیتے ہیں، اور باقی پچیس فی صد لوگوں کے عزائم کا بھی سال بھر رفتہ رفتہ یہی انجام ہوتا ہے، اور پھر زیادہ تر لوگ وہی عزائم اگلے نئے سال کے لئے پھر سے باندھ لیتے ہیں۔ یعنی اگر آپ بھی ایسا ہی کرتے ہیں تو ایسا کرنے والے آپ اکیلے نہیں! نئے سال کے لئے ایک عام ترین عزم کھانے پینے کی صحت مندانہ عادات کے بارے میں ہوتا ہے۔ کھانے پینے کے ساتھ ہم سب کا تعلق بنیادی اور فطری نوعیت کا ہے؛ تاہم ہم لوگ اکثر محض اپنی بقا کے لئے نہیں بلکہ لطف اٹھانے کے لئے کھاتے ہیں۔ جی کو لُبھانے والی چیزیں چاروں اطراف موجود ہوتی ہیں لہٰذا صحت مندانہ عادات اپنانے کے حوالے سے ہمارے عزائم کو ٹوٹنے میں دیر بالکل بھی نہیں لگتی۔ سیب کا مزا چکھنے سے تو آدم و حوّا بھی رُک نہیں پائے تھے۔ پاکستان میں تو خاص طور پر لوگ کھانے کی چیزیں زبردستی آپ کے منہ میں ٹھونسنا چاہتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انہیں لگتا ہے کہ وہ ایک اچھے میزبان ہونے کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا جال ہے جس سے آپ بچ نہیں سکتے چاہے آپ پوری طاقت کے ساتھ کوشش کر کے دیکھ لیں۔ یہ جال بچھایا ہی آپ کی ناکامی کے لئے جاتا ہے۔ کھانے کی خوشبو، کھانے کی شکل، جس طریقے سے اسے پیش کیا گیا ہوتا ہے، بیچارا ایک کمزور سا انسان ان سب کے سامنے مزاحمت کیسے کر سکتا ہے؟ سالِ نو کے لئے باندھے گئے عزائم کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ زیادہ تر ہماری اپنی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ عزائم باندھتے ہوئے ہماری توجہ صرف اپنی ذات پہ مرکوز ہوتی ہے۔ ہم میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہوں گے جو دوسروں کی مدد یا فائدے کے حوالے سے کوئی عزم کرتے ہوں گے۔ بنیادی طور پر یہ عزائم ہماری اپنی ضروریات اور خواہشات کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ اکثر لوگوں میں چونکہ خود احترامی کی کمی ہوتی ہے اس لئے وہ عموماً سالِ نو کے عزائم کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ بقو ل ان کے وہ لوگ جو واقعی کچھ کر سکتے ہیں وہ سا ل میں کسی بھی وقت کچھ بھی کر لیتے ہیں اور اس کے بارے میں کچھ زیادہ شور بھی نہیں مچاتے۔ چونکہ ایسے لوگ ارادے کی مضبوطی کے حامل ہوتے ہیں اس لئے عزم کو عمل میں بدلنا ان کے لئے سہل ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے اور پھر ان پہ کاربند رہنے کے حوالے سے اراد ے تو نیک ہی رکھتے ہیں لیکن بالآخر ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کے بارے میں ایسے عذر پیش کرنے لگتے ہیں جن کی معقولیت صرف ہمیں ہی سمجھ آتی ہے۔ وارن بف اِٹ کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ بھی نئے سال کے آغاز پہ اپنے ساتھ کچھ وعدے کرتے ہوں گے؟ ان کے اپنے ساتھ کئے گئے وعدے کیسے ہوتے ہوں گے؟ مزید پیسہ تو شاید وہ نہ چاہتے ہوں لیکن اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مزید وقت گزارنے کی خواہش انہیں ضرور ہوتی ہو گی۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر نئے سال کے لئے یہی ان کا عزم ہو تو اپنے اس عزم کو عملی جامہ پہنانے میں وہ بھی ناکام ہی رہیں گے۔ وارن بف اٹ چاہے کتنے ہی امیر اور طاقت ور ہوں لیکن ہیں تو وہ بھی عادتوں کے اسیر ایک انسان ہی! عادتیں چاہے جو بھی ہوں، چاہے کھانے یا پینے کی عادت ہوں یا حد سے زیادہ کام کرنے اور غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی کی، جب بھی ہم انہیں چھوڑنا چاہیں، یہ ہم سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوتی ہیں۔ ہمارے رویو ں کی باگ ڈور چونکہ ہمارے دماغ کے ہاتھ ہوتی ہے سو ہو سکتا ہے کہ تبدیلی کے لئے ہماری قوتِ ارادی ہی مطلوبہ حد تک مضبوط نہ ہو؛ تاہم، ہمیں اس قدر جلدی مایوس بھی نہیں ہو جانا چاہئے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے وعدوں سے ابتدا کرنی چاہئے اور آہستہ آہستہ انہیں بڑھانا چاہئے۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پہ خوشی منانی چاہئے اور پھر سارا سال اسی طرح چھوٹے چھوٹے وعدوں اور چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کا یہ چکر قائم رکھنا چاہئے۔ سال دو ہزار سترہ کا آغاز نئی امیدوں، نئے خوابوں اور خوشگوار سوچوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔ کھائیں، پیئیں اور عیش کریں کیونکہ کل کس نے دیکھا ہے؟ زندگی میں ایسی کیا چیز ہے جو ہمیں اپنی ذات سے بالاتر کرکے ایک بہتر اور عقل مند انسان بناتی ہے؟ سالوں کا تجربہ؟ بھرپور طریقے سے گزاری گئی زندگی؟ سفر؟ دوست احباب؟ اہلِ خانہ؟ زندگی کی کامیابیاں اور ناکامیاں؟ تجربات سے سبق حاصل کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ عمر کے ساتھ ساتھ چاہئے تو یہی کہ ہم زیادہ جانتے ہوں اور اس لئے زیادہ عقل مند ہوں لیکن کیا واقعی ایسا ہوتا بھی ہے؟ عمر کے ساتھ ساتھ ہم میں تحمل بھی آسکتا ہے اور چڑچڑا پن بھی، ہماری دولت بڑھ بھی سکتی ہے اور گھٹ بھی سکتی ہے، ہماری صحت میں بہتری اور ابتری بھی ممکن ہے، ہم وسعتِ نظری کے بھی حامل ہو سکتے ہیں اور تنگ نظری کے بھی۔ یہ سب کچھ خود ہم پہ منحصر ہوتا ہے کہ ہم اپنے والدین کی عمر کے قریب پہنچنے کے بعد زندگی کے بارے میں کیا رویہ اپناتے ہیں؟ زندگی یہی ہوتی ہے کہ انسان ماضی کو قبول کرنا سیکھ لے اور اسے ایک ایسی چیز سمجھ لے جو ہو چکی ہے اور گزر چکی ہے۔ ماضی ہمارے پیچھے رہ چکا ہے۔ ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمارا ماضی ہمیں اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتا؛ تاہم اگر ہم ماضی کو اپنی گرفت میں باندھے رکھیں اور ماضی کے عفریتوں سے چھٹکارا نہ پائیں، یہی سوچنے اور بولنے میں وقت گزاریں کہ ہم کیا کر سکتے تھے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا تو ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور حقیقتاً خوش رہنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ خوشی ایک مربوط چیز ہوتی ہے اور مختلف لوگوں کے لئے اس کے معانی مختلف ہوتے ہیں۔ ماضی کی تمام تلخیاں اور منفیت بھلا کر ہمیں مستقبل کی سمت اس امید کے ساتھ نظر رکھنی چاہئے کہ ہم کچھ نہ کچھ بہتر کر سکیں گے۔ ہم بہتر کیسے بن سکتے ہیں؟ لوگوں کے ساتھ مربوط ہونا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اپنے گھر والوں، دوستوں، عزیزوں اور عمومی طور پر پورے معاشرے کے لئے ہم مددگار کس طرح ثابت ہو سکتے ہیں؟ اندرونی طور پر خود اپنے ساتھ اور دوسرے کے ساتھ بھی ایک ربط کا احساس ہم میں ہونا چاہئے۔ ہم اپنے مستقبل کے مالک خود ہیں، اپنی خوشی کے مالک ہم خود ہیں۔ لوگوں کو معاف کرکے ہم ان کا نہیں بلکہ خود اپنا بھلا کرتے ہیں۔ جب ہم معاف کرتے ہیں تو خود کو بہتر اور بلند تر انسان بنا لیتے ہیں۔ ہمیں خود اپنے آپ کو بھی معاف کرنا سیکھنا چاہئے۔ اگر ماضی کی غلطیوں پہ ہم سارا وقت خود کو کوستے رہیں گے تو خود کو، اپنے اہلِ خاندان کو اور ارد گرد کی ہر اچھائی سے حقیقتاً اور ایمانداری سے پیار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ کم عمری میں خواب ہم سبھی دیکھتے ہیں، بعض ان میں سے پورے ہو جاتے ہیں اور بعض پورے نہیں ہو پاتے۔ زندگی نشیب و فراز سے بھری ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی ہر ناکامی تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہئے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان ناکامیوں سے چمٹ کر نہ بیٹھ جائیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں ناکامیوں سے سیکھنا نہیں چاہئے۔ ناکامیاں تو ہمیں وہ سبق سکھاتی ہیں جو کوئی کامیابی نہیں سکھا سکتی۔ ماضی کی ناکامیوں پہ غصہ اور ندامت کسی بوتل میں بند کرکے کسی سمندر میں پھینک دینے کے لائق ہوتے ہیں۔ عمر چاہے کوئی بھی ہو، ایک نئی ابتدا کسی بھی وقت ممکن ہوتی ہے۔ ایک وقتِ خوش ترین کی آمد ابھی ہونا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں