زیرِ تفتیش

ذرا سوچئے اگر خود کسی شاہی خاندان کو اس کی اپنی پولیس کرپشن کے الزامات کی چھان بین کے لئے کٹہرے میں لا کھڑا کرے تو کیا ہو گا؟ یا پھر مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور مشرقِ بعید میں جن مسلمان حکمرانوں کی حاکمیت قائم ہے‘ اگر ان کے اپنے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ہی سے پوچھ گچھ شروع کر دیں تو؟ سوال یہ ہے کہ ان آمروں کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرأت کون کر سکتا ہے؟ ان کی مالی بدعنوانیوں پہ انگلی اٹھانے کی ہمت کسے ہو سکتی ہے؟ ہاں، اگر کسی کو مرنے کی ایسی ہی خواہش ہو یا پھر فائرنگ سکواڈ کے روبرو ہونے یا اپنا سر قلم کروانے کی آرزو کسی نے پال رکھی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی اپنے پورے خاندان سمیت صفحہء ہستی سے مٹ جانا چاہتا ہو تو الگ بات ہے! ایک قابلِ غور نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے لیڈر اپنی مذہب پسندی کا بھی کس قدر پرچار کرتے ہیں، خود کو گویا یہ لوگ زمین پہ خدا کے نائبین سمجھتے ہیں اور خود کو بڑے ہی پاک صاف اور متقی و پرہیز گار ظاہر کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ ایسے ہیں بھی؟ اگر مالی بدعنوانیوں اور اخلاقی ابتری کی کوئی انسائیکلو پیڈیا مرتب کی گئی تو یہ یقینا افریقہ، شام، مصر ، ترکی، عراق، ایران، پاکستان، افغانستان ، وسط ایشیائی ریاستوں، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے کرپٹ مسلمان حکمرانوں کی داستانوں سے بھری ہوئی ہو گی۔ ان ملکوں میں حکمرانوں کو قانون سے بالاتر اور احتساب سے ماورا سمجھا جاتا ہے۔ انہیں مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے اور کسی کے آگے یہ لوگ جواب دہ بھی نہیں ہوتے۔ ان کے مقابل اسرائیل کو دیکھیں، جو یقینا باقی کسی بھی لحاظ سے کوئی اچھا نمونہ نہیں۔ یروشلم سمیت فلسطین کے کئی ایک علاقوں میں اس نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو بھی کسی طور قابلِ تعریف 
نہیں سمجھا جا سکتا؛ تاہم اگر قوانین کی بات کی جائے تو یقینا اس کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ فلسطینی علاقوں میں ناجائز اسرائیلی آبادیوں کا قیام کسی بھی طرح باجواز نہیں لیکن جو بات ٹھیک ہے اس کی تعریف بہرحال ہونی چاہئے۔ اس ملک کے نظام میں کم از کم اتنی جرأت ہے کہ کسی بھی انعام کے لالچ یا سزا کے خوف کی پروا کئے بغیر ملکی وزیر اعظم سے قانونی طور پر وہاں پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے۔ اسرائیل میں قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ کرپشن کے لئے ان کی حدِ برداشت صفر ہے۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف کافی ثبوت حاصل ہونے کے بعد اسرائیلی اٹارنی جنرل کی جانب سے تحقیقات کے آغاز کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہ الزام یہ ہے کہ انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے ہالی ووڈ کے ایک ارب پتی شخص سے لاکھو ں کروڑں مالیت کے سگار اور شمپین ناجائز طور پر تحفتاً قبول کئے۔ پولیس کو وزیر اعظم سے ان کی سرکاری رہائش گاہ پہ پوچھ گچھ کرنے کی ہدایت دی گئی۔ یہ پوچھ گچھ تین گھنٹوں تک جاری رہی۔ لیبر پارٹی کے ایک سابق لیڈر شیلے یاخیمووچ نے بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کا یار نواز قسم کے لوگوں سے دوستانہ ہے اور یہی کرپشن ہوتی ہے۔ پہلی پوچھ گچھ کے تین دن بعد اسرائیلی پولیس ایک بار پھر وزیر اعظم کے گھر تفتیش کے لئے پہنچی اور اس بار یہ پوچھ گچھ پانچ گھنٹوں پہ محیط تھی جو رات دیر تک جاری رہی۔ یہاں چند لمحے رک کر سوچئے کہ اگر ہم اپنے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے ان بیش قیمت تحائف کی گنتی شروع کریں جو یہ لوگ لیتے رہے ہیں تو ان میں کتنے ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے قابل ہوں گے اور پھر تا عمر ان کے کسی عوامی عہدے پہ فائز ہونے پہ بھی پابندی لگ سکتی ہے۔ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، پرویز مشرف اور نواز شریف سبھی پہ کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہ سب ہمارے ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پہ فائز رہے ہیں۔ یہ سب این آر او اور نہایت لچیلی ثابت ہونے والی عدلیہ کی مہربانی ہے۔ آصف علی زرداری صاحب پہ تو جیسے کسی بھی صورتحال کا کوئی بد اثر باقی رہتا ہی نہیں۔ عین ممکن ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد وہ وزارتِ عظمیٰ پہ متمکن ہو جائیں۔ نیتن یاہو بھی قوتِ بقا میں ان کے ہی جیسے ہیں۔ وہ بھی چار بار اسرائیلی وزیر اعظم بنے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اپنے اہلِ خانہ کی سیر و تفریح سے لے کر آئس کریم پہ کئے گئے بڑے بڑے خرچوں تک وہ کئی ایک سکینڈلوں میں گھرے رہے ہیں‘ اور اب ایک بار پھر انہیں جرمنی کے ساتھ تین نئی آبدوزوں کی خریداری کے لئے کئے گئے اربوں ڈالرز کے سودے کی بنیاد پہ چھان بین کا سامنا ہے۔ آبدوزوں کی خریداری میں ایک سکینڈل کا سامنا تو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو بھی کرنا پڑا تھا۔ یہ 
فرانسیسی بحریہ کی تیارکردہ تین اگسٹا 90 بی آبدوزوں کی خریداری کا معاملہ تھا۔ بات انیس سو ستانوے کی ہے۔ اسلام آباد کے دو دیگر صحافیوں سمیت ہمیں بھی نارمنڈی میں شیر برگ میں واقع فرانسیسی ڈاک یارڈ کے دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ فرانسیسی بحریہ اور وزارتِ دفاع کی جانب سے دی گئی تفصیلی بریفنگ کے دوران ہماری تمام تر توجہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی جانب سے فرانس سے وصول کی گئی کک بیکس پر مرکوز رہی؛ تاہم فرانسیسی اہلکاروں نے اس قسم کے کسی بھی قسم کے الزام کی تردید کی تھی۔ نتیجتاً ہم جب وطن واپس لوٹے تو ہمارے ہاتھ میں ان مبینہ کک بیکس کا کوئی ثبوت بھی نہیں تھا۔ پھر اس منظرنامے میں سویڈن کی آمد ہوئی اور وہ یوں کہ پاکستان جس قیمت پر فرانس سے تین آبدوزیں خرید رہا تھا، سویڈن اسی قیمت پہ پاکستان کو چار آبدوزیں دینے کے لئے تیار تھا۔ جب اس کی پیشکش رد کر دی گئی توکہتے ہیں کہ سویڈش حکومت نے اس وقت کے پاکستانی صدر فاروق احمد خان لغاری کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ فرانس نے وزیر اعظم اور ان کے شوہر کو دو سو ملین ڈالرز بطورِ کک بیک ادا کئے ہیں۔ نجانے سویڈش حکومت کو اس بات کی خبر کیسے ہو گئی تھی؟ پاکستانی پریس میں اس وقت کی کرپشن کی خبریں تواتر کے ساتھ چھپتی رہی تھیں‘ لیکن پھر یہ سکینڈل بھی ایسے ہی دیگر سکینڈلوں کی مانند وقت کی دھول میں اٹ کر ماند ہوتا ہو گیا۔ اسرائیل میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کے تحت ایک زیرِ تفتیش وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے برطر ف کیا جا سکے۔ ایسا صرف کوئی فردِ جرم عائد ہونے کی صورت میں ممکن ہے؛ تاہم اسرائیلی قوانین کوئی بھی غلط کاری اور بدعنوانی معاف کرتے ہیں نہ بُھلاتے ہیں۔ آج کل جبکہ بینجمن نیتن یاہو سے تفتیش کی جا رہی ہے تو ان پہ جس شخص نے الزام لگایا ہے، اور جس نے وہاں کی عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ جرمن کشتی ساز کمپنی کے سات وزیر اعظم کے مبینہ مشتبہ سودوں کی چھان بین ہونی چاہئے، اسے موت کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘ اسی لئے وہ پولیس کی حفاظت میںہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر عمران خان کے علاوہ پاکستان میں کوئی اور شخص حکمرانِ وقت کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کو ثبوت فراہم کرنے کی جرأت کرے تو اس کا کیا بنے گا؟ پچھلے سال فروری میں نیتن یاہو کے پیش رو ایہود اولمرٹ کو بھی جیل ہوئی اور یوں وہ جیل کی ہوا کھانے والے پہلے سابق اسرائیلی وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ یروشلم کے میئر کے طور پر وہ رشوت لیتے رہے تھے۔ انہیں انیس ماہ کی جیل ہوئی اور اس وقت بھی وہ جیل ہی میں ہیں۔ اپنی سزا کے آغاز سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے طور پر اس ملک کی سلامتی میرے سپرد کی گئی تھی اور اب مجھے ہی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا رہا ہے۔ ''آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ تبدیلی کس قدر عجیب اور تکلیف دہ ہے‘‘۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم اس وقت قیدی نمبر9032478 کے طور پر اپنی سزا بھگت رہے ہیں۔ سابق اسرائیلی صدر موشے کیٹساف پر بھی الزام لگا تھا کہ انہوں نے نوے کی دہائی میں کابینہ کے وزیر کی حیثیت میں ایک خاتون اہلکار کے ساتھ زیادتی کی تھی اور پھر بعد میں سن دو ہزار تا دو ہزار سات اپنی صدارتی میعاد کے دوران بھی خواتین اہلکاروں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کا ارتکاب کیا تھا۔ انہیں سات برس کی قید سنائی گئی تھی لیکن پچھلے ماہ پانچ سال قید گزارنے کے بعد وہ جیل سے چھوٹ گئے ہیں۔ سابق اسرائیلی وزیر انصاف حائم ریمون کو بھی مارچ سن دو ہزار سات میں ایک خاتون فوجی کے ساتھ بالجبر بوس و کنار کرنے پہ جیل بھیجا گیا تھا۔ یہ تمام واقعات ایسے ہیں جن سے خود ہمارے فقیہانِ وطن بھی کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں