الوداع، اوباما!

آج سے آٹھ سال قبل بیس جنوری سن دو ہزار نو میں جب بارک اوباما نے امریکہ کے چوالیسویں صدر کی حیثیت میں حلف اٹھایا تھا تو ان کی صدارتی میعاد کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے 1.8 ملین افراد جمع ہوئے تھے۔ یہ سبھی لوگ ان کے نام کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے اوباما نے مڑ کر ایک بار پھر یہ منظر دیکھنا چاہا تھا اور ساتھ یہ کہا بھی تھا کہ ''یہ نظارہ شاید مجھے پھر دیکھنے کو نہ ملے‘‘۔ امریکی تاریخ میں کبھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ ایک صدر کے خیر مقدم کے لئے جمع نہیں ہوئے تھے۔ بطورِ صدر بارک اوباما کی چال ڈھال، اطوار اور گفتار سبھی میں ایک وقار نظر آتا تھا، مگر اب وہ عنانِ حکومت ستر سال کے ایک ایسے ارب پتی کے حوالے کر گئے ہیں جسے تہذیب سے کوئی مَس ہی نہیں، اور جس نے ہر اس نقش کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے کا تہیہ کر رکھا ہے جو اوباما اپنے پیچھے چھوڑ ے جا رہے ہیں۔ صدر اوباما اچھی طرح جانتے تھے کہ اقتدار اور طاقت ایک عارضی اور بے ثبات چیز ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ آٹھ برس کی مدت گزارنے کے بعد وہ امریکی عوام کو الوداع کہتے ہوئے گوشہء گمنامی میں اتر جائیں گے۔ آٹھ برس قبل جب انہوں نے کیپٹل ہل میں قدم رکھا تو وہ ایک جوان اور وجیہہ مرد تھے۔ وہاں لوگوں کے اس وسیع ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ''آج ہم یہاں جمع ہوئے کیونکہ ہم نے خوف کے مقابل امید کا انتخاب کیا ہے، اختلاف اور نفاق پہ وحدتِ مقصد کو ترجیح دی ہے۔ آج ہم یہاں ان بے معنی اختلافات، جھوٹے وعدوں، الزام تراشیوں اور فرسودہ افکار کا خاتمہ کرنے جمع ہوئے ہیں جو ایک عرصے سے ہماری سیاست کو گھیرے ہوئے تھے‘‘۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ بارک اوباما کے یہی الفاظ ان کے جانشین کے چنائو میں ایک اہم کردار ادا کر گئے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے سیاسی کیریئر کی بنیاد ہی دروغ گوئیوں اور اختلافی سیاست پر ہے جس کی بہتیری مثالیں ان کے ٹویٹر اکائونٹ پہ ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھ کر انسان کو شیکسپیئر کے ڈرامے The Tempest کے وہ طنزیہ مکالمے یاد آ جاتے ہیں کہ 
"O, wonder!/How many goodly creatures are there here!/How beauteous mankind is!/ O brave new world,/That has such people in't!" 
اس شخص نے امریکیوں کو یقین دلایا کہ اب امریکہ تباہی کے دہانے پہ ہے، سب کچھ یہاں بگڑ چکا ہے اور صرف وہی ایک مائی کا لعل بچا ہے جو سب کچھ ٹھیک کر سکتا ہے۔ اس نے امریکیوں کو ان کے وطن کی عظمتِ رفتہ واپس دلوانے کے خواب دکھائے۔ امریکیوں نے اس شخص کا یقین بھی کیا، بالکل اسی طرح جیسے آٹھ برس پہلے بارک اوباما کا کیا تھا جب انہوں نے "Audacity of hope" یعنی جرأتِ امید اور "Yes we can! کے نعرے بلند کئے تھے۔ ان دونوں کے پیغامات گو ایک دوسرے سے بعدالمشرقین کے حامل سہی لیکن مختلف سماجی و فکری طبقات کے امریکیوں پہ اثر ان کا یکساں رہا ہے۔ یہی تو امریکہ کا حسن ہے۔ یہاں مختلف مذاہب اور مختلف رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں جو اپنی مہارتیں اور استعدادیں اس ملک کو طاقت ور اور عظیم تر بنانے کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں۔ ایک سیاہ فام صدر امریکی قصرِ صدارت سے رخصت ہوا اور ایک سفید فام صدر کی وہاں تازہ تازہ آمد ہوئی ہے۔ ایک کی مقبولیت بلند ترین سطح پہ تھی اور دوسرے کی عدم مقبولیت بلند ترین سطح پہ ہے۔ فاکس نیوز کے سوا سارے امریکی میڈیا کو گئے دنوں کی یادیں ستا رہی ہیں۔ ہم لوگ امریکی فرسٹ کپل کے انٹرویوز اور پروفائلز دیکھ چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی قصرِِ صدارت میں بطورِ صدر آمدکے ساتھ ہی گویا ایک بھیانک خواب کا آغاز ہو گیا ہے جو اگلے چار سال تک جاری رہے گا۔ کئی لوگوں کے حواس جواب دے رہے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ اپنے دوستوں سے ایک بار ہم نے پوچھا تھا کہ کیا مرد روتے ہیں؟ سبھی نے بیک آواز جواب اثبات میں دیا تھا۔ نومبر سن دو ہزار آٹھ میں بارک اوباما کو اپنی جیت سے چند گھنٹے قبل ہی اپنی نانی کی وفات کی خبر موصول ہوئی تھی۔ اس وقت وہ ایک جلسے میں تھے۔ انہوں نے وہاں سرطان کے ہاتھوں اپنی نانی کی موت کا تذکرہ بھی کیا اور دیکھنے والوں نے ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو بھی دیکھے۔ ان کے لہجے، ان کی آواز، ان کے چہرے اور تاثرات پہ ایک باوقار اداسی چھائی ہوئی تھی۔ بارک اوباما کو ان کی نانی نے ہی پالا پوسا تھا اور اپنے عزیز نواسے کے صدر منتخب ہونے سے چند ہی گھنٹے قبل وہ انتقال کر گئیں۔ ان کا نام میڈلین ڈین ہم تھا۔ بارک اوباما نے ان کی زندگی کی داستان لوگوں کو سنائی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی نانی ایک بڑی ہی منکسرالمزاج اور سادہ زبان بولنے والی خاتون تھی۔ ان کا شمار اُن ان گنت خاموش اور گمنام ہیروز میں ہوتا ہے جو امریکہ بھر میں جا بہ جا موجود ہیں۔ یہ لوگ مشہور نہیں ہیں، اخباروں میں ان کے تذکرے نہیں ہوتے لیکن محنتی یہ انتہا درجے کے ہیں۔ یہ لوگ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ انہیں شہرت کی خواہش نہیں ہوتی۔ یہ لوگ صرف اپنا کام کرنے کی دھن رکھتے ہیں۔ اپنے سامنے کھڑے ہجوم کے بارے میں بھی بارک اوباما کا یہی کہنا تھا کہ ایسے ہی ان گنت خاموش ہیروز آج یہاں بھی موجود ہیں جنہوں نے ساری زندگی محنت کی ہے اور قربانیاں دی ہیں۔ یہی اصل امریکہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے قارئین میں سے بھی بعض بارک اوباما کی نانی کی یہ کہانی پچھلے وقتوں کی کسی اکتا دینے والی داستان کے طور پر رد کر دیں؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی گئے زمانے کی اکتا دینے والی کہانی بالکل نہیں۔ اس بات سے کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ انسان کا کردار اسی ماحول سے تشکیل پاتا ہے جس میں اس نے اپنا بچپن گزارا ہوتا ہے؟ ذرا سوچئے کہ وہ کون سے عوامل تھے جو اس ''دو رنگے سیاہ فام‘‘ کو وہ شخص بنا گئے جس نے آٹھ برس تک امریکی قیادت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اوباما کی نانی سفید فام تھیں، وہ تمام اقدار جو ہمیں بارک اوباما کے قیادتی کردار میں نمایاں نظر آتی ہیں وہ انہوں نے انہی سے پائی تھیں۔ اپنی، اور اپنی بیٹی کی دونوں اولادوں (جنہیں وہ چھوڑ گئی تھی) کی زندگیاں سنوارنے کے لئے اوباما کی نانی نے بڑی محنت کی تھی۔ Half and Half -Writers on Growing Up Biracial and Bicultural نامی کتاب پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دو رنگی نسل کا ہونے کی بدولت اوباما کو کس کس طر ح ذلتوں کا سامنا کرنا پڑا ہوا ہوگا۔ ہر بار جب کسی نے "mulatto" یعنی دو رنگا کہہ کر کم سنی میں ہی اوباما کی دل شکنی کی ہو گی تو کس طرح ان کی نانی انہیں تسلی دینے کو گود میں لیتی ہوں گی۔ ہوائی کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہوئے ان کی نانی کو پڑوسیوں کی کس قدر بے حسی سہنا پڑی ہو گی۔ سفید فام لوگ سیاہ فاموں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے۔ میڈیلین اور ان کے شوہر دونوں ہی سفید فام تھے لیکن ان کا نواسا سیاہ فام تھا۔ اس کے باوجود دونوں ہی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ ذرا سوچئے کہ اس زمانے میں ہارورڈ لاء سکول میں سکالرشپ پانے کے لئے اوباما کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے۔ بارک اوباما کے بچپن اور لڑکپن کے اس تنہا سفر کے بارے میں کوئی بھی کچھ زیادہ نہیں جانتا۔
الوداع ، اوباما!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں