دعوت نامہ بالمعاوضہ

ایک بات واضح ہو جانی چاہئے کہ مفت کوئی بھی چیز نہیں ہوتی! نہ کوئی لنچ مفت ہوتا ہے اور نہ کوئی ڈنر! واشنگٹن میں قائم امریکہ کی قدیم ترین اور سب سے بڑی تحقیقاتی نیوز ایجنسی 'Center for Public Integrity نے ایک بروشر حاصل کیا ہے‘ جس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کی تقریب اور اس سے قبل کے عشائیے کے ٹکٹ ایک ملین ڈالر کے عوض ''ڈونرز‘‘ کو فروخت کئے۔ دوسری طرف ہماری پاکستان پیپلز پارٹی کی جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں سابق صدر آصف علی زرداری کا فرمانا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں بطورِ مہمان شریک ہونا ان کے لئے باعثِ عزت و افتخار تھا۔ پھر ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس تقریب میں رحمان ملک اور شیری رحمان بھی ''مدعو‘‘ تھے۔ یہ بات کہ انہیں ''مدعو‘‘ کیا گیا تھا‘ اس لئے بھی کچھ ناقابلِ یقین ہی لگتی ہے کہ خود ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا تھا کہ تقریبِ حلف برداری میں ہر ایک کے لئے جگہ بنانا ایک چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ قارئین سینٹر فار پبلک انٹیگرٹی کی ویب سائٹ پہ جا کر اس خبر تفصیلات خود ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کاروباری ذہنیت کے حامل انسان ہیں اور مفت چیزیں بانٹنے کے لئے قطعی نہیں جانے جاتے۔ سو یہ بات تو ہمارے حلق سے اتر ہی نہیں رہی کہ انہوں نے ایک ایسی تقریب کے دعوت نامے پیپلز پارٹی والوں کو مفت بانٹے ہوں گے‘ جس میں وہ خود اور ان کے نائب صدر‘ دونوں اپنی اپنی اہلیہ کے ہمراہ موجود تھے۔ ہمارا خیال تو یہی ہے کہ زرداری صاحب نے یہ دعوت نامہ پانے کے لئے ڈونر بن کر ایک ملین ڈالر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ تھمائے ہوں گے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ زرداری صاحب خود بھی کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ سودا انہیں دُہرا فائدہ دے گا۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کو بتا سکیں گے کہ اکیلے انہیں ہی یہ دعوت نامہ ملا ہے‘ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ سمیت سبھی کو ان کے ساتھ تمیز کے دائرے میں رہنا چاہئے۔ دوسرے وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو یہ تکلیف دے سکیں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ کچھ عرصہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ ان کی‘ اور ان کے ہم وطنوں کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے، بلکہ یہ پیش کش تک کر رہے تھے کہ وہ پاکستان کے اہم مسائل کی تحلیل کے لئے ہر وہ کردار ادا کرنے کو تیار ہوں گے جو نواز شریف چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد میاں صاحب نے طارق فاطمی کو اپنے خصوصی ایلچی کے طور پر واشنگٹن بھیجا تھا تاکہ وہ نئے صدر کی حلف برداری کی تقریبات کے دعوت نامے ساتھ لے کر واپس آئیں۔ کہتے ہیں کہ نیویارک میں ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم نے جنابِ فاطمی کی استدعائیں رد کرتے ہوئے انہیں خالی ہاتھ گھر لوٹا دیا تھا۔ یہی وہ موقع تھا جب زرداری صاحب نے میاں صاحب کو ''چیک میٹ‘‘ کرنے کی ٹھانی اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک ملین ڈالر کے عوض یہ بیش قیمت دعوت نامہ حاصل کرکے رہیں گے۔ لفظ ''چیک میٹ‘‘ کی تاریخ بھی بڑی دل چسپ ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق فارسی میں شطرنج کے کھیل کی یہ اصطلاح شہ مات کہلاتی ہے‘ جس کا مطلب ہے شاہ اب بے بس ہو چکا ہے۔ یورپ میں شطرنج کا کھیل اسلامی دنیا سے پہنچا تھا، جہاں یہ اصطلاح کھیل میں بادشاہ کی ہلاکت کے اعلان کے طور پر اپنائی گئی؛ تاہم، پشتو زبان میں لفظ مات ''تباہ شدہ‘‘ اور ''ٹوٹے پھوٹے‘‘ کے معانی میں اب بھی رائج ہے۔ خیر، بات ہو رہی تھی زرداری صاحب کی! تاثر یہ ہے کہ ماضی میں بھی انہوں نے ری پبلکن رہنمائوں کی خوشامدیں کی تھیں۔ ستمبر سن دو ہزار آٹھ میں جب زرداری صاحب کو صدر منتخب ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا تو وہ اس وقت امریکہ میں نائب صدارت کے لئے ری پبلکن پارٹی کی امیدوار سارہ پالین سے ملنے نیویارک میں ان کے ہوٹل کے کمر ے میں جا پہنچے تھے۔ وہاں انہوں نے موصوفہ کو جس قسم کے توصیفی الفاظ سے نوازا تو ان کا سہرہ بھی دراصل اس وقت کی ہماری وزیر اطلاعات کو ہی جاتا ہے۔ زرداری صاحب کے اس کمرے میں داخل ہونے سے پہلے شیری رحمان بھی سارہ پالین کے حسن کو سراہ رہی تھیں کہ ''اس قدر مصروفیت میں بھی اس قدر خوبصورت دکھائی دیتے رہنا ان کے لئے کیسے ممکن ہوتا ہے؟‘‘ اس پہ کمرے میں موجود سبھی لوگ ہنس پڑے تھے اور تبھی کمرے میں زرداری صاحب کا ورود ہوا‘ جنہوں نے داخل ہوتے ہی وہ الفاظ کہے جن پہ تقریباً سبھی نے انگلیاں دانتوں میں داب لی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ '' آپ تو بڑی حسین ہیں‘ اب مجھے پتہ چلا کہ سارا امریکہ کیوں آپ کا دیوانہ ہے‘‘۔ یہ ساری بات کہتے ہوئے ہمارے صدر صاحب نے مسلسل سارہ پالین کا ہاتھ تھامے رکھا تھا اور پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے انہیں گلے لگا لینا چاہئے، جس پہ سارا پالین مزید شرمسار ہو گئیں۔ اب جنوری سن دو ہزار سترہ میں ایک بار پھر زرداری صاحب شیری رحمان ہی کے ہمراہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب سے قبل کے رسمی عشائیے میں شریک ہوئے۔ نجانے اس بار اپنے لیڈر کے لئے راہیں ہموار کرنے کی غرض سے شیری رحمان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پُرکشش شخصیت، نارنجی بالوں اور دلکش مسکراہٹ کی تعریف کی ہو گی یا نہیں، یا پھر اس بار خود زرداری صاحب نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے وہی جوش دکھایا ہو گا یا نہیں جو انہوں نے سارہ پالین کے لئے دکھایا تھا۔
امریکہ میں آج کل ''متبادل حقائق‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ یہ اصطلاح کیلی این کونوے کی تخلیق کردہ ہے۔ دیہی علاقوں کے امریکیوں کو بڑی چالاکی سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے پہ آمادہ کرنے کا سہرہ موصوفہ ہی کے سر جاتا ہے۔ گزشتہ اتوار کو جب میڈیا والے اوباما اور ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں شامل افراد کی تعداد کا تقابلی جائزہ پیش کر رہے تھے اور یہ دکھا رہے تھے کہ اوباما کی تقریب حلف برداری میں کہیں زیادہ لوگ شریک ہوئے تھے، جبکہ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ ان کی حلف برداری کی تقریب میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی تو امریکی صدر کے بیانات کو کیلی این کونوے نے ''متبادل حقائق‘‘ ٹھہراتے ہوئے روایتی میڈیا کے دعوے فی الفور رد کر دیے۔ نئے امریکی صدر اور ان کے ہم نوائوں کے لئے سچ صرف وہی ہوتا ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ٹویٹر اکائونٹ پہ ایک سو چالیس کریکٹرز میں بیان کرتے ہیں۔ جارج اورویل کی کتاب ''1984ء‘‘ بھی آج کل امریکہ میں پھر سے بڑی بِک رہی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1949ء میں چھپی تھی۔ یہ ایک بد حال معاشرے کی کہانی ہے‘ جہاں صداقت چکنی چپڑی سیاسی دروغ گوئیوں کی بھینٹ چڑھتی رہتی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ کتاب ایمزون پہ بیسٹ سیلرز کی فہرست میں پہلے نمبر پر پہنچ چکی ہے۔ پی پی پی والے دعوت نامے کے حوالے سے جس کہانی کا پرچار کر رہے ہیں، اس بارے ہم بھی ایک ''متبادل حقیقت‘‘ پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہیں گے۔ زرداری صاحب نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی کا زمانہ مین ہیٹن کے ٹرمپ ٹاور میں گزارا تھا۔ اس وقت ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹو اپنے بچوں سمیت دبئی میں رہائش پذیر تھیں۔ عین ممکن ہے کہ زردار ی صاحب اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اسی زمانے میں دوستی استوار ہو گئی ہو۔ ہو سکتا ہے‘ ان کی دوستی بڑی گہری بھی ہو گئی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو ملنے والا دعوت نامہ اسی لازوال دوستی کا نتیجہ ہو؛ تاہم ایک بات جو سب اچھی طرح جانتے ہیں یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مفت کوئی چیز نہیں دیتے، بیوپار ان کے خون میں ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں