سال 2014ء اپنے دامن میں کئی تلخ یا دیں سمیٹتے ہوئے رخصت ہو رہا ہے۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی، کے مصداق 2014ء کو عوام کی محرومیوں،بنیادی مسائل ،امن وامان ،عدل وانصاف، داخلی و خارجی معاملات کے حوالے سے کٹھن ترین سال کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ بلو چستان میں ایران سے آنے والے زائرین کے قتل عام ،جناح ٹر مینل کراچی پر دہشت گردوں کے حملے،کو ئٹہ ایئر بیس پر حملے ،نیوی کے فریگیٹ پی این ایس ذوالفقار پرحملے‘ واہگہ بارڈرپر خود کش حملے اورسانحہ پشاور کے حوالے سے 2014ء دہشت گردی کی خون آشامی کے علاوہ سیاسی عدم استحکام کا سا ل بھی ثابت ہوا ۔16دسمبر کو جب قوم سقوط ڈھاکہ کا غم منا رہی تھی، پشاور میںدہشت گردوں کے ہاتھوں علم کی روشنی سے اپنے سینوں کو منور کرنے والے 132بچوں اور دیگر کے قتل عام نے پوری قوم کو مزید افسردہ کر دیا ۔یہ سانحہ اندرونی سیاست اورسکیورٹی پالیسی کے حوالے سے ''گیم چینجر‘‘ ثابت ہو رہا ہے۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ سیاست دان بھی بالآخردہشت گردی کے حوالے سے ملک اور قوم کو درپیش خطرات سے نبٹنے کے لیے خواب خرگوش سے بیدار ہو رہے ہیں ۔وزیراعظم میاں نواز شریف نے سانحہ پشاور کے اگلے روز ہی پارلیمانی رہنماؤں کی آ ل پارٹیز کا نفرنس بلا ئی جس میں دہشت گردی کے خلاف دوررس اقدامات کا اعلان کیا گیا ۔اس حوالے سے بعدازاں طے کئے گئے 20نکات پر عمل درآمد کے لیے کمیٹیاں در کمیٹیاں بن رہی ہیں ۔عمومی طورپر تو کمیٹیاں اس وقت بنائی جاتی ہیں جب معاملے کو طاقِ نسیاں میں رکھنا ہو ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایسی کمیٹیاں کیا کر پا ئیں گی۔ ان میں اکثر شخصیات تو وہی ہیں جن کی تساہل پسندانہ اور خود غرضا نہ حکمت عملی کی وجہ سے ہی ہم اس حال تک پہنچے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے مسلسل دھواں دھار اعلانات تو کرتے رہے لیکن عملدرآمد صفر رہا... حتیٰ کہ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی اور نیکٹا کا قیام محض کاغذی کارروائی بن کر رہ گیا ۔جہاں تک وزیر دفاع خواجہ آصف کا تعلق ہے تو عسکری ادارے ان سے ویسے ہی الرجک ہیں اور وہ عسکری اداروںسے ۔ وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ احسن اقبال جنہوںنے اپنے نام کے ساتھ اب ''پروفیسر‘‘ کا سابقہ بھی لگا لیا ہے ،پہلے2010ء‘ پھر2015ء اور اب 2025ء کا ویثرن دے رہے ہیں ۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کے حوالے سے قومی وسائل دیکھیں تو ''ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا‘‘۔
حکومت نے دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام اور سزا ئے موت کے فیصلوںپر عمل درآمد جیسے فیصلے کیے ہیں ۔فوجی عدالتوں کے قیام پر ملک کی جمہوری قوتیں بعض تحفظات کا شکار ہیں کہ ان کے غلط استعمال سے شہری آزادیاں اورعدلیہ کی آزادی سلب ہو سکتی ہے۔سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے بھی نوڈیرو میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے مو قع پر اپنے خطاب کے دوران اس بارے میں بعض خدشات کا اظہا ر کیا ہے‘ لیکن چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی مو جودگی میں گیا رہ گھنٹے کے اجلاس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز کو من وعن تسلیم کر لیا ۔دوسری طرف انسانی حقوق کی چیمپئن محترمہ عاصمہ جہانگیر ان خصوصی عدالتوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے قیام سے آئین کا بنیادی جمہوری ڈھانچہ ہی مسخ ہو جائے گا لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کے طفیل آزاد عدلیہ بھی بحال ہو گئی اور جمہو ریت بھی آ گئی لیکن عدلیہ کی آزادی ججوں کی آزادی سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔سابق چیف جسٹس نے بڑے دھڑلے سے چیف جسٹسی کی ۔اس دوران انھوں نے اپنے سوموٹو اختیارات سے تجاوز کرتے ہو ئے سیا ستدانوں اور بیورو کریٹس کے تو خوب لتے لئے لیکن سستے، بروقت اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی کے لیے کچھ نہ کیا ۔اس تناظر میںدوسال کی مد ت کے لیے فو جی عدالتوں کے سوا کیا چارہ کا ر تھا۔
عمران خان کے دھرنوں ،جلسوں اور شٹ ڈاؤن نے میاں برادران کے علاوہ پو ری قوم کے ناک میں دم کر رکھا تھا ۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا،پشاور کے افسوسناک واقعہ کی وجہ سے انھیں اپنی کنٹینرسرگرمیاں منسوخ کرنا پڑگئیں جس سے نواز شریف کی بھی جان میں جان آ ئی اور خان صاحب کو بھی واپسی کا باعزت راستہ مل گیا لیکن خان صاحب نے اپنی احتجاجی سیاست کے ذریعے نواز شریف کی سیاسی اور ذاتی ساکھ کو ناقابل تلا فی نقصان پہنچایا ۔پنجاب سے پیپلز پارٹی کی مسلسل پسپائی کی وجہ سے تحریک انصاف دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آ ئی ہے اور یہ خان صاحب کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کامعاملہ تا حال کھٹا ئی میں پڑا ہوا ہے لیکن اس کا جو بھی نتیجہ برآمد ہو،اگلے انتخابات ، جوا ب لگتا ہے کہ اپنے وقت پر ہی ہوں گے، میں عمران خان میاں نواز شریف کو ٹف ٹا ئم دیں گے۔ اس لحا ظ سے دیکھا جا ئے تو 2014ء میںملکی سیاست کی جہت ہی بدل گئی لیکن میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں کا حال یہ ہے کہ ''دل ہے کہ مانتا نہیں‘‘۔ انھوں نے اپنے طور طریقوں کو نہیں بدلا ،ذاتی تر جیحا ت اور ایک مخصوص ٹولے کے ذریعے حکومت کرنے کی روش میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی۔
اس سال کے اواخر کا ایک اہم واقعہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کا با لآخر انخلاہے جونا ئن الیون کے بعد تیرہ برس سے وہاں متعین تھیں ۔کہا جاتا ہے کہ نیٹو کا مشن مکمل ہو گیا ہے،اب افغانستان کے نومنتخب صدر جانیں اور ان کا کام ۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے جارہی ہیں ۔اس سے پہلے1989ء میں سابق سوویت یو نین کو افغانستان سے نکالنے کے بعد وہاں سے امریکی فوجیں بھی چلی گئی تھیں ۔تب اور اب میں فرق یہ ہے کہ محدود پیمانے پر امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی جووہاں سکیورٹی معاملات میں افغان فوج کی مدد کر تی رہے گی ۔ اس کے علاوہ یو رپی ممالک بھی افغانستان کی اقتصادی طور پر مدد کرتے رہیں گے ۔نیٹو فورسز نے طالبان کے ممکنہ حملے کے خوف سے خفیہ مقامات پر اپنیـ ''کامیابی کا جشن‘‘ منایا ۔ایساف کے کمانڈز جنرل جان ایف کیمبل پچاس سے زائد ملکوں کے فوجیوں سے خطاب کرتے ہو ئے یہ شیخی بھگاررہے تھے کہ ہم افغانستان کے عوام کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشن مستقبل کی امید دے کر جارہے ہیں اور نیٹو کی قربانیوں کے باعث افغانستان اب مضبوط اورمحفوظ ملک بن گیا ہے ۔ادھرطالبان کے ترجمان نے ایساف کمانڈر کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہو ئے جو کہا ہے وہ زیا دہ حقیقت پسند ا نہ ہے کہ نیٹو فورسز کے خفیہ مقام پر ''جشن‘‘ سے ہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ امریکہ اور اتحا دی افغانستان میں ناکام ہو چکے ہیں اور خوفزدہ ہو کربھاگ رہے ہیں ۔ 29ستمبرکو اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد پاکستان اور افغا نستان کے درمیان تال میل بہت بہتر ہو گیا ہے ۔افغانستان میں موجوددہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے افغان صدر نے میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کو بھرپور اقدامات کایقین دلایا ہے اور پاکستان کو بھی یہی کرنا ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو نے دے۔
امریکہ تو اب کہتا ہے کہ مبینہ طور پر طالبان کی کو ئٹہ شوریٰ کے سربراہ ملا عمر اسے مطلوب نہیں رہے لیکن کیا اب پاکستان افغان طالبان کو یہ اجازت دیدے گا کہ وہ افغانستان کے خلاف کارروائیاں کریں ؟۔اس حوالے سے پاک فوج کو اپنے سکیورٹی پیراڈائم میں ردوبدل کرنا ہو گا۔سال 2015ء پاکستان کے لیے خا رجہ اور سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے زیا دہ اہم اور حقیقت پسندانہ ہو گا ۔میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی پلیٹ پر بہت کچھ ہے ۔دیکھنا ہے کہ وہ نئے سال کے دوران جمہوریت کو سہارا دیتے ہیں یا اپنی پالیسیوں کے طفیل کندھا دیتے ہیں ۔ نئے سال میں خا رجہ اور سکیورٹی پالیسیوں نیز طرز حکمرانی کو بہتر کئے بغیر معاملات نہیں سد ھر سکتے ،اب گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکل سکتا ۔