"ANC" (space) message & send to 7575

عید اور تحریک۔۔۔۔۔

قارئین کو عید مبارک ! بالخصوص روزہ داروں کے لیے عید زیادہ خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ اکثر یہ دہا ئی دی جاتی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سیلاب کے سامنے متوسط اور غر یب طبقے کے لیے عید کی خوشیاں منانا مشکل ہو گیا ہے، لیکن ہرسال عیدکی شاپنگ زیادہ جوش و خروش سے ہو تی ہے۔ کہنے کو تو اپو زیشن اور ناقدین کے مطابق ملک کا دیوالیہ نکل چکا ہے، لوگوں کی خر یداری کی سکت ختم ہو چکی ہے اور مہنگا ئی کے اژدہے نے ان کے لیے جینا دو بھرکر دیا ہے، لیکن اس مرتبہ عید کے مو قع پر اتنی شاپنگ ہوئی کہ بینکوں کی اے ٹی ایم مشینیں غیر فعال ہوگئیں۔ شاید بینکوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ لوگ عیدکی ضروریات پوری کر نے کی خاطر رقوم نکلوانے کے لیے بینکوں پر ٹوٹ پڑ یںگے۔ لاہور کے شاپنگ مراکز خریداروں سے بھر ے پڑے ہیں۔ پہلے تو یہ خر یداری زیادہ تر خواتین اور بچوںکے کپڑوں تک محدود ہوتی تھی لیکن اب مرد حضرات بھی رنگا رنگ اور فیشن ایبل ملبوسات خریدنے کے لیے شا پنگ سنٹرز میں دیوانہ وار پھر رہے ہو تے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان ٹیکسٹائل صنعت کی مارکیٹنگ سٹریٹجی کو خرا ج تحسین پیش کرنا چا ہیے کہ بڑے بڑے ٹیکسٹائل ہاؤسز نے مختلف برانڈوں کے تحت فیشن ایبل سوٹ مارکیٹ کر نے شروع کر دیے ہیں اور اس مقصد کے لیے فیشن ڈیزائنرزکی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اور انگر یزی اخباروں کے سنڈے ودیگر فیشن میگزین میں اس حوالے سے کروڑوں روپے کی اشتہار بازی کی جاتی ہے۔ یہ حکمت عملی اس حد تک کامیاب ٹھہری ہے کہ خواتین لانچز اور سیلو ں پر اس طر ح ٹوٹ پڑتی ہیں جیسے اشیا مفت میں بٹ رہی ہوں۔ چند ماہ قبل ایک مشہور برانڈ کی سیل پر تو خریدار خواتین کے درمیان کشتی ہو گئی اور دھکم پیل ایسی کہ خدا پناہ! ہر خاتون چاہتی تھی کہ مال ختم ہونے سے پہلے اسے کچھ نہ کچھ مل جائے،نوبت خواتین کے درمیان ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ دوسر ی طر مرد حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت میں خو اتین اور مردوں کے لئے مخصوص پاکستانی دھاگے اور رنگ سے لباس بنانے والے میاں بیوی کو آج سے پندرہ برس قبل ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی طرف سے نیا بزنس شروع کرنے پر سال کے بہتر ین ایوارڈ اور خطیر رقم سے بھی نوازا گیا۔ انعام کا فیصلہ کرنے والے ججوں کے پینل میں، میں بھی شامل تھا۔ اب پندرہ سال بعد یہ ایک مشہور برانڈ بن چکا اور ان کے ملک بھر میں کئی بڑے بڑے شو روم ہیں۔
بات عید کی ہو رہی تھی۔ لیکن تصویرکا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں۔ ان تمام تر سہولیات اور پیسے کی ریل پیل کے باوجود بندہ مزدور کے اوقات تلخ ہی نہیں بلکہ تلخ ترین ہیں۔ اس کے لیے تو دو وقت کی رو ٹی ہی مشکل ہے، دھوم دھام سے عید منانا تو دورکی بات ہے۔ تاہم اس کے باوجود ہر شخص اس مبارک موقع پر خوشیاں بانٹنے کی جتنی صلاحیت رکھتا ہے انہیں بروئے کار لاتا اور اپنی استطاعت سے بڑھ کر خوشیاں بھی مناتا ہے۔
جہاں تک حکمرانوں کی عید کا تعلق ہے، یہ کبھی اقتدار کی ٹھنڈی چھاؤں تلے عید گزارتے ہیں تو کبھی اپو زیشن میں ،کبھی جیل میں اور کبھی جلاوطنی میں۔ میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے لیے بھی یہ عید ماضی کی تمام عیدوں سے ہٹ کر ہے۔ میاں صاحب نے جلا وطنی میں بھی عید گزاری، بطور وزیر اعظم بھی اور اپوزیشن میںبھی، لیکن انہیں جس انداز سے اس عید پر اپوزیشن کی یلغار کا سامنا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھا، اس پر مستزاد ان کی صحت کا معاملہ ہے۔ ڈاکٹروں نے میاں صاحب کوسفر کی اجازت نہیں دی، اس طرح ان کا عید رائیونڈ میں منانے کا پروگرام چوپٹ ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق بعض پیچیدگیوں کی بنا پر وہ سفر نہیں کر سکتے، لہٰذا انہیں وہیں پر آرام کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں مریم نواز شریف، حمزہ اور سلمان شہباز شریف میاں صاحب کے ساتھ عید منانے کے لئے لندن چلے گئے ہیں۔
میاں صاحب کو اس عید پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر یقیناً یہ سو چنے کا مو قع ملے گا کہ موجودہ صورت حال میں انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ایک طرف تو ان کی چار شریانوں کے بائی پاس کے بعد ان کی صحت کی بحالی کا مسئلہ ہے تو دوسر ی طرف یہ فکر بھی لاحق ہوگی کہ وہ قوم کو یہ پیغام کیسے دیں گے کہ اپوزیشن کے پرو پیگنڈے کے باوجود وہ پاکستان کے قانونی اور عملی طور پر وزیر اعظم ہیں اور اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے ایجنڈے میں واپسی پر سر فہرست کراچی کا دورہ تھا جہاں وہ امجد صابری کے خاندان کے ساتھ تعزیت اورعبد الستار ایدھی کی عیادت کرنے والے تھے۔کراچی کی وہ روشنیاں جو کسی حد تک بحال ہونے کے بعد امجد صابری کے قتل اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کے اغوا کے بعد کچھ گہنا سی گئی ہیں، اس حو الے سے اعلی ٰسطح کے اجلاس کی صدارت بھی کرنا تھی، ظاہر ہے یہ پروگرام بھی غیر معینہ مدت کے لئے موخر ہو گیا ہے۔
میاں صاحب کو بھی ایک عجیب مخمصے کا سامنا ہے جو کہ اپوزیشن اور بعض مخصوص حلقوں کا پیدا کردہ ہے۔ اگر وہ یہ تاثر دینے کی کو شش کرتے ہیں کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوگئے ہیں تو یہ پر اپیگنڈا کیا جا تا ہے کہ ان کا بائی پاس تو ہوا ہی نہیں اور اگرمیاں صاحب کی بیماری سنجیدہ نوعیت کی بتائی جائے تو کہا جاتا ہے کہ انہیں اب آ رام کرنا چاہیے کیونکہ ان کی صحت انہیں وزیرا عظم کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اجازت نہیںدیتی۔ ڈاکٹر مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر عطاء الحق قاسمی اور ڈاکٹر حامد میر جو حال ہی میں لندن میں وزیر اعظم سے ملاقات کر کے لوٹے ہیں اس بات کے گواہ ہیں کہ میاں صاحب کا یقیناً بائی پاس ہوا ہے اور انہیں مکمل ریکوری میں چند مہینے درکار ہو نگے۔ میاں صاحب کو اس عید پر اپنے من بھا تے کھابوں سے پر ہیز کرنا پڑ رہا ہو گا کیو نکہ ورزش نہ کرنے اور غذا کے معاملے میں مسلسل بدپرہیزی نے ان کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ قوم کا غم کھا کھا کر انہیں درد دل کی شکا یت ہو گئی ہے۔ ان کے لیے ایک بہت بڑا روگ 'پانامالیکس‘ کا ہے۔ ان کی ہونہار صاحبزادی مریم نواز اور ان کے دونوں بیٹے حسن اور حسین کمپنیوں کے مالک یا استفادہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ٹی اوآرز بنیں یا نہ بنیں، الیکشن کمیشن ان کے صادق و امین ہونے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرے، عدالتی کمیشن کی تشکیل ہو یا نہ ہو، اخلاقی طور پر میاں نواز شر یف کا کیس یقیناً کمزور ہوا ہے۔ 
'پاناما لیکس‘ کے بارے میں عمران خان اور بلاول بھٹوکوقائل کرنا تو ناممکن ہے اس لئے میاں صاحب کو عید کے ایام میں قوم کو قائل کر نے کا کو ئی نہ کوئی نسخہ سوچنا ہوگا کیو نکہ ایسی سیا ست کا کیا فائدہ جس کا اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ پیپلز پارٹی اور تحر یک انصاف میں تال میل میاں برادران کے لیے یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسی بنا پر میاں شہباز شریف نے جو اب تک چپ کا روزہ رکھے ہوئے تھے، زرداری صاحب اور بلاول کے خلاف اپنی توپوں کے دہانے کھول دیے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لگتا ہے کہ بلاول بھٹو اپنے ابا جان کی صلح جو ئی کی پالیسیوں پر چلنے کو قطعاً تیار نہیںاور وہ خان صاحب کے ساتھ مل کر تحریک چلانے پر کمر بستہ ہیں۔
داعش کی ترکی سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر عین عید سے دو دن قبل مسجد نبوی شریف تک پہنچ گئی ہے۔ اسلام کے لبادے میں مقدس مقامات پر حملے کرنا قابل مذمت اور افسوس کا مقام تو ہے لیکن عالم اسلام کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے، اس حوالے سے اسلام کا صحیح تشخص اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو داعش کو اپنا آئیڈیل سمجھ رہے ہیں اس واقعہ سے ان کی آنکھیں کھل جانی چاہیے کہ وہ کیا کھیل کھیل رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں