برادرِ محترم حسن نثار نے 21 برس پہلے اپنے ایک کالم میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں لکھا تھا کہ ''وہ دن دور نہیں جب بی بی اور بابو ایک ہی ٹرک پر سوار ہو کر جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے نظر آئیں گے‘‘۔ یہ کالم انہوں نے اس وقت لکھا تھا جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اپنی پارٹیوں سمیت ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار تھے اور ایک دوسرے کو سکیورٹی رِسک سے کم خطرہ قرار دینے کو تیار نہ تھے۔ سیاسی اختلافات اور تعصبات کا عالم یہ تھا کہ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کو جھوٹے سچے مقدمات کے گڑھے میں دھکیلنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب کالم میں دونوں کے گٹھ جوڑ کی پیش گوئی کی گئی تو بڑے بڑے دانشوروں، تجزیہ کاروں اور سیاسی پنڈتوں نے اسے ناممکن، اچنبھا اور اَنہونی قرار دیا تھا۔ بعض نے تو یہ بھی کہنے سے دریغ نہ کیا کہ کالم نگار کا دماغ چل گیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیں‘ جبکہ اُس دور میں دو پارٹی نظام چل رہا تھا۔ ایک پارٹی برسرِاقتدار آکر اَپوزیشن کو ''کرش‘‘ کرتی تو اَپوزیشن کی کوشش ہوتی کہ برسرِاقتدار پارٹی اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور موقع ملتے ہی ایک دوسرے پر برتری کے لیے ہر جائز، ناجائز حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا تھا‘ حتیٰ کہ دونوں پارٹیوں کے قائدین سمیت صف اوّل کے رہنماؤں کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
اس دور میں یہ بات لکھنا اور کہنا (معذرت کے ساتھ) دیوانگی یا بونگی سے کم نہ تھا‘ لیکن پھر چشم فلک نے دس سال بعد یہ بھی دیکھا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ہی ''جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘ کے مصداق جلا وطنی کے ''دورے‘‘ پر تھے اور اقتدار سے محرومی اور ہجر کے ایام گن گن کے گزار رہے تھے۔ اقتدار کی تڑپ اور طلب نے دونوں کو مجبور اور آمادہ کیا کہ ہماری باہمی لڑائی اور اختلافات تیسری پارٹی کیلئے غنیمت اور باعثِ راحت ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں ہی پارٹیوں کا ایک ایک دھڑا جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرکے اقتدار کے مزے لوٹ رہا تھا۔ دونوں سیاسی رہنماؤں کو یہ کیسے گوارا تھا کہ ان کی بی ٹیم پاکستان میں حکمران ہو اور خود وہ جلا وطنی پر مجبور ہوں۔ پھر وطن واپسی کیلئے حیلے بہانے... منتیں ترلے اور سمجھوتے... بالآخر میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جمہوریت کی بحالی اور ڈکٹیٹر سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ایک ہو گئے۔
جنرل پرویز مشرف سے معاملات طے کرکے 2007ء کے عام انتخابات سے قبل پہلے مرحلے میں بے نظیر بھٹو پاکستان آ گئیں اور انتہائی زوروشور سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ بے نظیر کی زندگی نے وفا نہ کی اور راولپنڈی میں ایک کامیاب انتخابی جلسے کے بعد واپسی کے سفر سے ہی ''سفر آخرت‘‘ پر روانہ کر دی گئیں۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد وطنِ عزیز میں جو پُرتشدد مزاحمت اور احتجاج ہوا اس نے برسرِ اقتدار مسلم لیگ(ق) کو ہلا کر رکھ دیا اور آصف علی زرداری نے مسلم لیگ(ق) کی قیادت کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور (ق) لیگ کو قاتل لیگ قرار دیا۔ مؤخر ہونے والے عام انتخابات کا انعقاد 2008ء میں کیا گیا‘ جس میں مسلم لیگ (ق) اور اس کے اتحادی نہ صرف بری طرح مسترد کر دئیے گئے بلکہ انہیں ضمانتوں کے بھی لالے پڑ گئے۔ اس طرح وفاق اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور پنجاب کی حکمرانی مسلم لیگ(ن) کے حصے میں آئی۔
آصف علی زرداری اور نواز شریف چھوٹے بھائی، بڑے بھائی بن گئے... ایک دوسرے پر واری واری جاتے رہے... پُرتکلف ضیافتوں پر ایک دوسرے کو پکوان پیش کرنے اور 'پہلے آپ... پہلے آپ‘ کا منظر دیکھ کر لگتا تھا اب حکمران اپنے باہمی اختلافات ختم کرکے وطن عزیز کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
جوں جوں آصف علی زرداری کی گرفت معاملات اور اقتدار پر بڑھتی گئی توں توں ان کے وعدے اور دعوے کمزور پڑتے گئے۔ بتدریج دونوں قائدین بھائی چارے سے نکل کر ایک بار پھر روایتی سیاسی حریف بن گئے اور پھر وہی ''مشقِ ستم‘‘ دوہرائی گئی جس کا نشانہ عوام ہر دور میں بنتے چلے آ رہے ہیں۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی اپنے متوقع قتل کے حوالے سے جن شخصیات پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا‘ ان میں سے ایک کو آصف علی زرداری نے گارڈ آف آنر دے کر ایوانِ صدر سے رخصت کیا اور خود آ گھسے... جبکہ (ق) لیگ کو قاتل لیگ قرار دینے کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنا کر نہ صرف مفاہمت کا قلعہ سر کر لیا بلکہ بے نظیر بھٹو کی لازوال قربانی کو بھی گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔
پانچ سال بلا شرکت غیرے اقتدار کے دوران آصف علی زرداری نے سیاسی رواداری اور مفاہمت کے نام پر ایک نیا کلچر متعارف کروایا۔ سر نگوں... سر بلند، مجرم... معتبر، لوٹ مار...حلال، تو بھی کھا... مجھے بھی کھلا، بلے بلے...چل سو چل، ''جھاکا اترے‘‘ حکمران کی مفاہمت کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے... لوٹو اور لوٹنے دو... اس کے بعد خود بھی بھاگو... اور مجھے بھی بھاگنے دو... بس یہی ایک مفاہمتی فارمولا ہے جو آصف علی زرداری صاحب نے نہ صرف خود پر لاگو کیا بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کو بھی اس کارِ بد میں شرکت کا بھرپور موقع دیا تاکہ بہتی گنگا سے سب یکساں سیراب ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری کو اپنے اس مفاہمتی فارمولے پر کافی زعم اور فخر ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔
2018ء اپنے اختتام پر ہے... یہ سال سیاسی، عدالتی، انتظامی اور دیگر کئی حوالوں سے ملکی تاریخ میں ہمیشہ منفرد اہمیت کا حامل رہے گا۔ آصف علی زرداری نے نواز شریف کی نااہلی اور سزا کے بعد ان کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا اور یہ شکوہ بھی کیا تھا کہ نواز شریف نے ان کے ساتھ نہ صرف بدعہدی کی‘ بلکہ جو نیب کا گڑھا انہوں نے میرے لیے کھودا تھا آج وہ خود اس میں گرے پڑے ہیں۔ جبکہ نواز شریف بھی اسی قسم کے شکوے اور تحفظات رکھتے ہیں۔
آصف علی زرداری نے بڑی احتیاط اور کمالِ مہارت سے خود کو نواز شریف کے خلاف ہونے والی احتسابی کارروائیوں سے لاتعلق رکھا... بلوچستان کی حکومت سازی ہو یا سینیٹ کا انتخاب... انہوں نے مفاہمت اور تعاون کی آخری حدوں تک جاکر دیکھا کہ ان خدمات اور سہولت کاری کے عوض شاید جان خلاصی ہو جائے اور ان کے خاندان اور قریبی ساتھیوں کے خلاف جاری تحقیقات میں کچھ رعایت اور سہولت مل جائے... لیکن ایسا ہو نہ سکا... مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی... سہولت کاری اور مفاہمت کے سارے فارمولے آزمانے کے باوجود جے آئی ٹی کی تہلکہ خیز رپورٹ خود ان کے اور قریبی ساتھیوں کے لیے کڑی آزمائش بن کر آن کھڑی ہے۔
ایک بار پھر ''ملکی مفاد‘‘ میں زرداری، نواز ملاقات کا اہتمام کیا جا رہا ہے... خدا خیر کرے... لیکن لگتا ہے اس بار انشااللہ‘ خدا خیر ہی کرے گا۔ ان کا مفاہمتی گٹھ جوڑ اور ملی بھگت احتساب اور قانون پر غلبہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ مقدمات بھی ایک دوسرے کے خلاف خود ہی بنائے اور ننگا بھی ایک دوسرے کو خود ہی کیا... زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے شہباز شریف آج قومی اسمبلی میں انہیں نواز شریف سے ملاقات پر راضی کرنے کیلئے منمنا رہے ہیں۔
اب تو سب کچھ ہی عیاں ہو چکا ہے۔ نواز شریف اور زرداری حکومت وقت اور احتساب کی پکڑ میں نہیں بلکہ اپنے اعمال اور اﷲ کی پکڑ میں آچکے ہیں۔ یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ چند روز بعد شروع ہونے والا نیا سال سزاؤں کا سال ہے چونکہ سزا اور جزا کا عمل، اعمال کے نتیجے میں ہی حرکت میں آتا ہے اور کیسے ممکن ہے کہ اعمال بد ہوں اور قانونِ فطرت خاموش رہے؟ نافرمانیاں اﷲ کی، کی جائیں خیانت اور ظلم و جبر کے کارِ بد میں ہاتھ رنگے ہوں تو کوئی بھی قانونِ الٰہی کی گرفت سے کیسے بچ سکتا ہے؟ چوروں کا... چوروں کو تحفظ دینے کا زمانہ بیت چکا۔