تعجب کی بات ہے آخر ایسا کونسا ''آسیب‘‘ہے‘ جو حکمرانوں کو اپنے ہی دورِ اقتدار میں اتنا بے بس اور بے اختیار کردیتا ہے کہ وہ ہر جگہ واویلا کرتے نظر آتے ہیں ۔ماضی قریب میں نواز شریف اپنے ہی دورِ اقتدار میں بے بسی کی تصویر بن گئے اور چشم ِفلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف نااہلی کے بعد سوکھے پتے کی مانند دکھائی دئیے‘ جو ہوا کے دوش پر ادھر سے ادھراور ادھرسے ادھر اڑتا پھرے۔ حکومت بھی اپنی اور سراپا احتجاج بھی خود ہی۔لوگوں سے پوچھتے پھرے کہ مجھے کیوں نکالا؟ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کے مصداق حالات پر گرفت دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئی۔ مٹھی سے ریت اس طرح سرکی کہ ہاتھ ملتے رہ گئے اور چند ماہ کے دوران عام انتخابات میں نا صرف ناکامی کا منہ دیکھا‘بلکہ بیٹی کے ہمراہ اسیری۔ بیوی کی بیماری کے بعد موت اور پھر اب دوبارہ جیل۔
دوسری طرف اب موجودہ حکمران شہباز کے پروڈکشن آرڈر‘ پروٹوکول اور پی اے سی کے چیئر مین بننے پرواویلا کرتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت کے انتہائی قریبی حلیف اور شریکِ اقتدار شیخ رشید بھی اپنی ہی حکومت سے سراپا احتجاج ہیں۔برملا کہتے نظر آرہے ہیں کہ لگتا ہے شہباز شریف کی حکومت سے گوٹی فٹ ہوگئی ہے۔وفاقی وزیر ریلوے شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر پہلے ہی تحفظات کا شکار تھے اور اب چیئرمین پی اے سی کے لیے شہباز شریف کے نام پر حکومتی رضامندی اور اتفاق رائے انہیں کسی طورچین نہیں لینے دے رہی۔ان کا کہنا ہے کہ ریمانڈ اور تفتیش کے دوران ان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہونے چاہئیں ۔ شہباز شریف بلحاظِ عہدہ وفاقی وزیر کا درجہ رکھتے ہیں اور جھنڈے والی گاڑی پر بیٹھ کر ان کا عدالتوں کے چکر لگانا انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔شیخ رشید کو شہباز شریف کا منسٹر کالونی میں قیام بھی ناقابل برداشت نظر آرہا ہے۔ وہ پہلے ٹی وی ٹاک شوز میں اور اب کھلے عام عوامی اجتماعات میں بھی اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری بھی کچھ اسی قسم کی کیفیت اور صورتحال کا شکار نظر آتے ہیں ۔ انہیں بھی شہباز شریف کا چیئر مین پی اے سی بننا اور اسمبلی میں ٹائی سوٹ پہن کر آناہضم نہیں ہورہا۔ حکومت اور قومی اسمبلی کا حصہ ہونے کے باوجود وہ خود سراپا احتجاج نظر آرہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان بھی دبے لفظوں میں اسی قسم کے خیالا ت کا اظہار کرچکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف کے نام پر اتفاقِ رائے اور رضا مندی کا اظہار خود پی ٹی آئی کی حکومت نے کیا ہے ۔اسمبلی میں اتفاقِ رائے کرنے والے ارکان کیا حکومتی بنچوں کا حصہ نہیں تھے؟ یا ایوان میں سو رہے تھے؟قوم مفاد ہو یا مصلحت ‘فیصلہ تو حکومت نے خود کیا ہے۔شہباز شریف کے نام پر اتفاق رائے کے بعد حکومتی وزرا کی طرف سے واویلا اور احتجاج کس کے لیے اور کس کے خلاف ہے؟شیخ رشید کا معاملہ تو کچھ اور ہے‘ وہ پی ٹی آئی کے حلیف اور اتحادی ہیں‘لیکن کوئے سیاست کا ریکارڈ گواہ ہے کہ تحفظات اور خدشات شکوؤں سے شروع ہوکر اختلافات اور الزام تراشیوں پر ختم ہوتے ہیںاور دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی حلیف بدترین حریف کے طور پر مد مقابل نظر آتے ہیں۔آج کے حلیف کل کے حریف اور کل کے حریف آج کے حلیف۔ایسا ہی کچھ سیاسی منظر نامہ اور طرزِ سیاست رہاہے‘ وطن عزیز کا۔جب تک توقعات پوری ہوتی رہیں اور امیدوں کے چراغ جلتے رہیںحلیف ‘ بھائی بھائی اورشیر و شکر۔ توقعات اور اہداف کے حصول میںجہاں خلل پڑا وہیں ''اصولی سیاست‘‘ اور قوم کے درد کا بخار چڑھ جاتا ہے اور اصولی سیاست کے نام پر بے اصولی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے جاتے ہیں۔ایسے بے شمار واقعات سے ہمارا سیاسی منظر نامہ بھرا پڑا ہے۔
بات ہورہی تھی اس'' آسیب ‘‘کی جوہر دورِ حکومت میں حکمرانوں کو مخصوص حالات میں بے بس کردیتا ہے۔نواز شریف اپنے ہی دور میں دربدر ہوئے۔اب وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء شہباز شریف کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔انہیں اب یہ کڑوی گولی نگل لینی چاہیے یا پھر یہ واویلا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی بے بسی اورمصلحتوں کے بے تکے جواز مزید جوابدہی کا باعث بن رہے ہیں۔حکمران سابق ہوں یا موجودہ دونوں ہی پوائنٹ آف نو ریٹرن سے ہی لوٹتے ہیں اور کیا خوب لوٹتے ہیں۔ایسی ایسی توجیہات ‘ وضاحتیں اور جواز پیش کئے جاتے ہیں کہ خود اپنے لیے جگ ہنسائی اور کمزوری کا موجب بنتے ہیں۔ برادر محترم حسن نثار کا یہ شعر اس آسیب اور صورتحال کی بھرپور عکاسی کرتا ہے:
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا
پوائنٹ آف نو ریٹرن سے لوٹناکوئی آسان مرحلہ نہیں ہوتا‘ بلکہ الٹا لٹکنے کے ہی مترادف ہوتا ہے اورہمارے ہاں جب جب حکمران الٹا لٹکے ہیں تو انہیں سیدھا دکھائی دینا شروع ہوجاتا ہے اور جب سیدھا دکھائی دینا شروع ہوجاتا ہے تو سر پیٹتے ہیں کہ اگر یہی'' مقام مقصود‘‘تھا تو پھر پوائنٹ آف نوریٹرن پر کیوں گئے؟ ایسے میںاپنے ان دونوں اقدامات کا جواز گھڑنا بھی ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے‘ جس کا سامنا موجودہ حکومت کررہی ہے؛ اگر الٹا لٹکے بغیر ہی زمینی حقائق اور آسیب کے ناگزیر کردار کا احساس کرلیا جائے تو حکمرانوں کو الٹا لٹک کر سیدھا دیکھنے کی ضرورت پیش نہ آئے‘یعنی نہ سو پیاز کھانے پڑیں اور نہ ہی جوتے۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے ڈیم فنڈ کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنے کی اپیل کی ہے‘ خصوصاً بیرون ملک پاکستانیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس کارخیر میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں ‘تاکہ وطن عزیز کو درپیش انرجی کے بدترین بحران سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔ اس سلسلے میں عوام نے کیا رسپانس دیا۔
یہ تو ڈیم فنڈ کے لیے قائم کیے گئے اکاؤنٹس ہی بتا سکتے ہیں کہ قوم وزیراعظم کی اس اپیل پر کتنا اعتماد کررہی ہے۔معاملہ صرف اعتماد کا ہی نہیں ساکھ کا بھی ہے‘ یہ قوم ماضی میں پہلے ہی بہت دھوکے کھا چکی ہے۔ کبھی بنام وطن کبھی بنام دین۔ماضی میں نواز شریف نے بھی قرض اتارو ملک سنوارو تحریک کے لیے عوام سے اپیل کی تھی کہ اس وقت ملک مشکلات سے دوچار ہے اور عوام سے مدد کا طلبگار ہے۔ وطن عزیز کی عوام نے ہمیشہ کی طرح مشکل کی اس گھڑی میں بھی لبیک کہا اور ملک و ملت کی بحالی کے لیے دل کھول کر پیسہ دیا‘ لیکن آج تک یہ معما حل نہ ہوسکا کہ وہ پیسہ کہاں گیا اور اس پیسے سے کس کس کو سنواراگیا۔اس پس منظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ہر تین ماہ بعد آگاہ کیا جائے کہ انرجی کا بحران دور کرنے کے لیے ڈیم کی تعمیر میں کیا پیش رفت ہوئی ہے اور کیا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے اور اس ڈیم کی تعمیر کے لیے عوام سے مزید کیا تعاون درکار ہے؟ تاکہ اس عظیم الشان کار خیر میں عوام کا اعتماد اور مورال بلند رہے اور حکومتی ساکھ بھی بچی رہے۔حکومتی ساکھ بچے گی اورعوام کا اعتماد بھی بڑھے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ تاریخی منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچے۔ایسے میں وزیراعظم کے ناگزیر دوست اور مشیر برائے سمندر پار پاکستانی سے بھی معلوم کرنا چاہیے کہ ڈیم فنڈ کے کارخیر کے حوالے سے ان کی کیا کارکردگی ہے؟ وہ تو اوورسیز پاکستانیوں کی انتہائی مقبول اور ہردل عزیز شخصیت بتائے جاتے ہیںاور وزیراعظم ان کی اسی خصوصیات اور مہارت کی وجہ سے ساتھ لگائے ہوئے ہیں۔انھوں نے اوور سیز پاکستانیوںکی خدمت اوران کے مسائل تو خیر کیا حل کرنے ہیں‘ کم از کم ڈیم فنڈ کے لیے کچھ کرکے دکھا دیں۔ شاید اسی صورت ہی کو ئی جواز بن پڑے ان کی تقرری اور وزیراعظم کے اعتماد کا۔یہ امتحان ہے ان کے اوورسیز چیمپئن ہونے کا۔زلفی بخاری کے لیے یہ ایک انتہائی نادر موقع ہے کہ وہ ناصرف ڈیم فنڈ کے ذریعے ملک و قوم کی مالی معاونت میں گراں قدر کردار ادا کرسکتے ہیں‘ بلکہ وزیراعظم کو بھی اپنی تقرری کا معقول جواز پیش کرکے انہیں مزید جوابدہی سے بچا سکتے ہیں۔