"AAC" (space) message & send to 7575

معاشی جھانسے اور پورا سچ

بد قسمتی سے ہماری معیشت خوش کن اعداد و شمار، جھانسوں اور خود فریبی کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ ہر دور حکومت میں عوام کو گمراہ کن اعداد و شمار اور دلفریب وعدوں سے خوشحالی کی نوید دے حکمران اپنی اپنی باری لگا کر آتے جاتے رہے۔ اقتدار میں آنے والی حکومت سابقہ حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہراتی رہی اور عوام کو دلاسوں، جھوٹے وعدوں اور تسلیوں سے بہلا کر معاشی انقلاب کی خوشخبری سناتی رہی۔ خوش کن اعداد و شمار اور زبانی جمع خرچ کا یہ گورکھ دھندہ چلتا رہا اور عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف جھانسہ ہی جھانسہ نظر آتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی قطعی بے جا نہ ہو گا کہ ہر حکومت معیشت کی ہانڈی میں آلو مٹر ڈال کر ابالے پہ ابالا دیتی رہی اور عوام کو یہی بتایا جاتا رہا کہ قورمہ اور بریانی تیار ہو رہی ہے۔ بریانی اور قورمہ تو خیر کیا تیار ہوتا‘ آلو مٹر کے ساتھ ساتھ ''معاشی کچن‘‘ میں موجود خام مال سمیت اور جو کچھ تھا خود ہی چٹ کر گئے۔ یعنی دھوکا اور جھانسہ ہی ماضی کی ہر حکومت کا نصب العین رہا۔
وطن عزیز کی معیشت کو اس خاندان سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس کا گھر اور گاڑی بینک لیز پر ہو اور جو سارا مہینہ کریڈٹ کارڈ سے ضروریات زندگی پوری کر کے کریڈٹ کارڈ کے بل کا کم از کم ادا کرکے اپنی خوشحالی اور آسودگی پر نازاں پھرتا ہے۔ اس خاندان کا سربراہ خود فریبی کی اس زندگی پر نہ صرف خود مطمئن اور شاداں رہتا ہے بلکہ اپنے بچوں کو بھی اسی جھانسے میں رکھتا ہے۔ سربراہ کی موت یا کسی اور وجہ سے جب بینک کی ادائیگیوں میں خلل پڑتا ہے تو وہ (بینک) بھی چڑھ دوڑتا ہے اور خود فریبی اور جھانسے کی خوشحالی کا نہ صرف پول کھل جاتا ہے بلکہ پورا خاندان دربدر اور ذلیل و خوار بھی ہوتا ہے۔ بینک کی ادائیگیاں بھی خاندان کے ان افراد کو ہی کرنا پڑتی ہیں جن سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا... اور نہ ہی ان پر واجب ہوتی ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وطن عزیز پر حکمرانی کے نام پر تین تین باریاں لے چکی ہیں اور اپنے اللے تللوں کے لیے جو غیر معمولی قرضے وطن عزیز پر چڑھائے گئے آج وہی قرضے ملک و قوم کے لیے وبال بنے ہوئے ہیں۔ قرضے لینے والے تو خیر کچھ پس زنداں ہیں اور کچھ اپنے انجام کی جانب عازم سفر ہیں‘ لیکن ان قرضوں کا بوجھ تو اس قوم پر جوں کا توں ہی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو ملک کی معاشی صورتحال پر تنقید سے پہلے سوچنا چاہیے کہ ان کی والدہ محترمہ کے دور اقتدار میں لیا جانے والا قرضہ اس وقت لیا گیا جب انھیں پاکٹ منی ملا کرتی تھی۔ گمان غالب ہے کہ ان کی پاکٹ منی بھی ان قرضوں کی بینی فیشری ہی ہو۔ مسلم لیگ ن کے رہنمائوںکو بھی بخوبی یاد ہو گا کہ وہ سونے کا کشکول لیے سوٹ بوٹ پہن کر غول کے غول چاٹرڈ طیاروں میں بیرون ممالک کے دورے کرتے تھے۔ اور واپس آ کر قوم کو خوشحالی‘ معیشت کے غیر معمولی استحکام اور معاشی انقلاب کے دلفریب اور جھوٹے وعدوں سے بہلاتے تھے۔
موجودہ حکومت کے بیشتر اقدامات اور طرز حکمرانی سے اختلاف کے باوجود یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس ملک کی معاشی بد حالی کے ذمہ دار وہ سابقہ حکمران ہیں‘ جو یکے بعد دیگرے اس ملک پر اپنی حکمرانی کا سکہ چلا چکے ہیں۔ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے مشترکہ دور حکومت اور مصنوعی خوشحالی اور جھانسے کی معیشت کی داستان بھی مملکتِ خداداد کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں شامل اکثر اتحادی مشرف، زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں بھی حلیف اور شریک اقتدار رہ چکے ہیں‘ اور انتہائی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے معاشی بحران کا سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر ''پاکیٔ داماں‘‘ کا مجسم بنے پھر رہے ہیں‘ جیسے سابقہ حکومتوں میں وہ شریک اقتدار ہی نہ رہے ہوں۔ اور آج وہ ''اصولی سیاست‘‘ کے نام پر سابقہ حکمرانوں پر تنقید کے تیر برسا رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت میں اگر کہیں کمی ہے تو تجربے، ویژن اور طریقہ کار کی ہے۔ بعض اوقات تو یہ گماں ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس دوائی موجود ہے لیکن ان کی ٹیم ترکیب استعمال سے نابلد ہے۔ یہ لگانے والی دوائی کھا رہے ہیں اور کھانے والی دوا مستقل لگائے چلے جا رہے ہیں۔ فرخ سلیم کا معاملہ ہی لے لیجئے جو جلد بازی اور بے احتیاطی کا تازہ ترین نمونہ ہے۔ حکومت کو ان کی تقرری سے قبل ہی باہمی صلاح مشورہ کر لینا چاہیے تھا جبکہ فرخ سلیم بھی جلد بازی اور بے احتیاطی کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ بھی زبانی کلامی اعلان پر خود کو وزارت خزانہ کا ترجمان سمجھ بیٹھے اور ٹاک شوز میں اپنی ماہرانہ رائے کے ساتھ جا بجا نظر آنا شروع ہو گئے۔ بعض اوقات تو حکومتی پالیسیوں کی نفی کر کے خود کو مدبر اور منجھا ہوا ماہر معاشیات ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ حکومت نے بھی ان کی ''آنیوں جانیوں‘‘ کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ ابھی تو آپ کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ آپ کس حیثیت سے حکومتی کی ترجمانی کرتے پھر رہے ہیں؟ جبکہ میڈیا بھی انہیں حکومتی ترجمان کی حیثیت سے ہی ٹاک شوز میں مدعو کرتا رہا۔ اسی احتیاط کا مظاہرہ میڈیا کو بھی کرنا چاہیے تھا۔ فرخ سلیم تھوڑا تحمل اور صبر کا مظاہرہ کر لیتے تو شاید عزت سادات بچ جاتی۔ ان کی بے تابی اور بے صبری نے انھیں آج یہ دن دکھایا ہے۔ حکومت کو ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ فرخ سلیم چیک ہو گئے اور ان کی پرفارمنس بھی سامنے آ گئی۔ حکومت نوٹیفکیشن جاری کر کے واپس لینے کی سبکی سے بچ گئی۔
دوسری طرف ملک کی معاشی صورتحال اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر وزیر خزانہ اسد عمر بھی راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انہیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ان کے تمام مشاہدے، اندازے اور دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ وہ جن امور پر کمال مہارت اور قابلیت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے‘ ان میں اپنی مہارت کو مناسب مظاہرہ وہ اب تک کر نہیں سکے ہیں۔ انہیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ معاشی بد حالی کی وجوہات اور حکومتی اہداف کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور انھیں یہ بتانا ہو گا کہ عوام کو کب تک اس صورتحال کا شکار رہنا ہو گا اور کب تک حالات حکومتی کنٹرول میں آ سکیں گے۔
ظاہر ہے سرکاری خزانوں پر ڈاکے پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ مال مفت دل بے رحم کے مصداق ملکی دولت اور وسائل کو بے دردی اور انتہائی سفاکی سے لوٹا گیا۔ کسی دکان یا گھر پر ڈاکہ پڑ جائے تو متاثرین کو کئی سال ہوش نہیں آتی... یہاں تو پورے کا پورا ملک ہی لوٹ لیا گیا ہے۔ ریسکیو میں وقت کا لگنا یقینا فطری امر ہے۔ عوا م کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا اور اعتماد میں لینا حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے اور عوام سے یہ اپیل کرنا بھی بنتی ہے کہ حکومت فی الحال انہیں ان کی توقعات کے عین مطابق معاشی ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے عوام کو تعاون کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت قیمت ادا کرنا ہو گی۔ ماضی میں عوام کو خوش کن اعداد و شمار اور دلفریب وعدوں بہلایا جاتا رہا ہے۔ ماضی کی اس گمراہ کن روایت کو اب ترک کر کے عوام کو آگاہ کرنا ہو گا کہ ہم ''ڈکیتی زدہ‘‘ قوم ہیں۔ ہم ملزمان تک پہنچ چکے ہیں اور ریکوری تک عوام کا تعاون درکار ہے۔ یہ پاکستانی قوم ہے یہ تعاون تو کیا بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ کوئی حکومت سچ بولنے کی جرأت اور ہمت کا مظاہرہ بھی تو کرے۔ یہ قوم پورا سچ سننا چاہتی ہے۔ اسے ادھورے سچ اور خوش کن اور گمراہ کن اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے نہ بہلایا جائے۔ یقین جانیے اگر حکومت پورے سچ کے ساتھ اپنا اعتماد بحال کرنے پر قائل کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ قوم نہ صرف اس کا مان نہ رکھے بلکہ مشکل سے مشکل حالات اور کڑی سے کڑی آزمائش میں حکومت کے لیے دفاعی لائن نہ بن جائے‘ بس! پورا سچ بولیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں