کالم کے باقاعدہ آغاز سے قبل برادرِ محترم حسن نثار کے حالیہ کالم اور ٹی وی پروگرامز کے نتیجے میں تحریک انصاف کے ''چیمپیئنز‘‘ کی بدحواسیوں اور بھاگ دوڑ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ان کی حالت ایسی ہے جیسے خوابِ خرگوش کے مزے لیتے ہوئے کسی پر چھت آن گری ہو یا بھونچال آگیا ہو۔ تحریک انصاف کا نام تجویز کرنے سے لے کر ایوانِ اقتدار تک طویل عرصہ پروموٹ کرنے والے حسن نثار کو پوری پی ٹی آئی میں عمران خان سے بہتر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ پھر ناجانے کیوں... ''فار گرانٹڈ‘‘ لے گئے۔ جب لوگوں نے ان کا راستہ روک کر دہائی دی تو عوام اور قارئین سے پینتالیس سالہ رفاقت سوالیہ نشان بن گئی اور ان کے ''ویڈیو کلپس‘‘ سوشل میڈیا پر ایسے وائرل کیے جا رہے ہیں گویا صدقہ جاریہ ہو۔
تحریک انصاف کا ایک وعدہ اور نعرہ ''پولیس ریفارمز‘‘ بھی تھا اور توقع کی جاری تھی کہ سیاست اور مداخلت سے پاک پولیس فورس خدمت اور فرض شناسی کا ایسا شاہکار ہوگی۔ مگر یہ ہو نا سکا اور اب یہ عالم ہے کہ پولیس کا قبلہ درست کرنا تو درکنار تحریک انصاف کی حکومت اپنی ہی سمت کا تعین نہیں کر پارہی۔ گورننس کے نام پر ''ٹامک ٹوئیاں‘‘ جاری ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کی تشویش ناک صورتحال پر نہ کسی کو کوئی پشیمانی ہے اور نہ ہی ندامت۔
صوبائی دارالحکومت کو ہی لے لیجئے... ایک ہفتے میں تیسرا بچہ اغوا ہو گیا ہے۔ورثا غم سے نڈھال ہیں اور بے قابو سٹریٹ کرائم پولیس کی کارکردگی اور گورننس پر مستقل سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ تحریک انصاف پولیس میں سیاسی مداخلت پر تنقید کرتی تھی اور اُسے ''شہباز فورس‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ آج پنجاب پولیس میں ''سیاست‘‘ عروج پر ہے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ''کون کہاں جھوم رہا ہے‘‘۔ یعنی گروپنگ اور لابنگ کے آگے آئی جی پنجاب ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ حالیہ کالم میں ذکر کر چکا ہوں کہ آئی جی نے پنجاب پولیس کی کمان سنبھالنے کے فوری بعد جس عزم اور مورال کے ساتھ افسران وجوانوں سے پولیس لائنز میں خطاب کیا تھا اس کا دس فیصد بھی عملی مظاہرہ کہیں نظر نہیں آتا۔ لابنگ اور گروپنگ کے نتیجے میں ''چین آف کمانڈ‘‘ بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلہ کیس میں ''ایکسپوز‘‘ ہونے والے احسن جمیل گجر کی ''نیٹ ورکنگ‘‘ کی وجہ سے کئی اعلیٰ پولیس افسران چین آف کمان سے باہر ہو چکے ہیں۔
آئی جی پنجاب کے احکامات اور چین آف کمان کا عالم یہ ہے کہ پندرہ روز قبل انہوں نے صوبائی دارالحکومت میں لا اینڈ آرڈر کی تشویشناک صورتحال پر سی سی پی او لاہور کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے ماتحت افسران کے ساتھ پولیس ناکوں پر ایک گھنٹہ روزانہ خود کھڑے ہوں گے۔ آئی جی کے احکامات پر ناکوں پر کھڑا ہونا تو درکنار آئی جی کو ''ناکوں چنے‘‘ ضرور چبوا ڈالے۔
صوبائی دالحکومت میں لا اینڈ آرڈر مصلحتوں اور تعلق داریوں کی نذر ہو چکا ہے۔ جب تقرری اور تعیناتیوں کا معیار ہی تعلق اور لابی کے گرد گھومتا ہو تو پھر کیسی گورنس اور کیسا امن و امان۔ کون کس کو پیارا ہے‘ کون کس لابی اور گروپ سے تعلق رکھتا ہے؟ بس یہی کچھ چل رہا ہے اس نئے پاکستان کی ''غیر سیاسی‘‘ پولیس میں‘ اور شور ہے پولیس ریفارمز کا۔ ارے بھئی بچوں کا اغوا ہو یا دن دیہاڑے ڈکیتی‘ کسی کی گاڑی چھین کی گئی ہویا کسی خاتون سے راستہ روک کر زیور اُتروا لیے جائیں یہ سب تو معمول بن چکا ہے۔ پولیس ریفارمز کے حوالے سے منو بھائی کی دور اندیشی پر مبنی ایک کالم اور اس سے متعلق پرانا واقعہ یاد آگیا‘ تقریباً پچیس سال قبل آئی جی پنجاب چوہدری سردار محمد ڈی آئی جی کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے اور کئی پولیس افسران پولیس کے حوالے سے منو بھائی کے ایک کالم بعنوان ''ایس ایس پی منہ سنگھاؤ‘‘ پر سخت برہم اور انہیں سبق سیکھانے کے لیے بے تاب تھے۔ چند ایک پولیس افسران تو اس پر بھی بضد تھے کہ منو بھائی کو نشان ِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو پولیس کے خلاف لکھنے کی جرأت نہ ہو‘ جبکہ پنجاب پولیس کے ترجمان گلزار مشہدی ان افسران کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایسا کچھ بھی کرنا مناسب نہیں ہوگا‘ ہمیں ان کے کالم پر اپنا مؤقف اور وضاحت دینا چاہیے۔ آئی جی چوہدری سردار محمد اپنے افسران کے آگے بے بس دکھائی دیتے تھے‘ جبکہ وہ ذاتی طو رپر اس جارحانہ ردِعمل کے بالکل حق میں نہ تھے۔ ایسے میں ایک ڈی آئی جی نے نہ جانے کیسے منوبھائی کو خبر کرا دی کہ آپ کے بارے میں پولیس کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں۔ منو بھائی نے اطلاع پاکر اوپر بات کی تو چیف سیکرٹری کا دورانِ کانفرنس آئی جی سردار محمد کو فون آگیا اور آئی جی کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اگر کسی افسر نے منو بھائی کے حوالے سے کوئی غیر قانونی ہتھکنڈا استعمال کیا تو وہ سیدھا گھر جائے گا اور حکومت کے لیے ایسی حرکت قطعی قابلِ برداشت نہ ہوگی۔
قارئین مجھے یہ واقعہ محض اس لیے یاد آیا کہ ان دنوں لاہور میں ''فیلڈ فورس‘‘ کی کمان چار ڈویژنل ایس پی اور ایک ایس پی سی آئی اے کے ہاتھ میں ہوتی تھی‘ جبکہ چار ہی ایس پی حضرات انتظامی ذمہ داریوں پر مامور ہوتے تھے۔ اسی طرح سینٹرل پولیس آفس میں بھی ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی عہدے کے چند افسران ہی تعینات ہوتے تھے۔ وقت گزرتا گیا شہر بڑھتا گیا‘لا اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے اور گورننس کو مزید بہتر بنانے کے لیے ذمہ داری سے مشروط آسامیوں کی تعداد میں پانچ سے دس گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ آج لاہور میں پچیس ایس پی حضرات اور تقریباً بارہ ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی عہدہ کے افسران سینٹر پولیس آفس میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ باقی اضلاع میں بھی اسی شرح سے نئی آسامیاں پیدا کی جاچکی ہیں۔
منو بھائی کا مذکورہ کالم آج بھی حسبِ حال ہے۔ منو بھائی کے ویژن اور اختراع کو سلام... اس زمانے میں پولیس ناکوں پر شہریوں کے ''منہ سونگھنے‘‘ پر لگی ہوتی تھی جبکہ سٹریٹ کرائم سے شہریوں کی زندگی اجیرن تھی۔ اس تناظر میں منو بھائی نے لکھا تھا کہ پولیس کو امن و امان کے قیام کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنے چاہئیں نہ کہ ساری توانائیاں پولیس ناکوں پر شہریوں کا منہ سونگھنے پر خرچ کر دی جائیں۔ اگر پولیس اس عمل کو ناگزیر سمجھتی ہے تو اس کام کے لیے علیحدہ آسامی پید اکر لی جائے جو ایس ایس پی ''منہ سنگھاؤ‘‘ ہو سکتی ہے اور یہی افسر انسدادِ ''بوس و کنار‘‘ کے لیے بھی کام کر سکتا ہے۔ آجکل پولیس ریفارمز کی باتیں اور اجلاس ہو رہے ہیں جبکہ امن و امان الامان الامان کا منظر پیش کر رہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ پولیس ریفارمز کے آتے ہی تھانوں اور اعلیٰ افسران کے دفاتر سے فیض کے چشمے پھوٹ پڑیں گے اور عوام دوست پولیس لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
پولیس ریفارمز میں کئی نئی آسامیاں‘ سہولیات اور گورننس کے حوالے سے پالیسیاں وضع کی جاسکتی ہیں مگر امن و امان کی موجودہ صورتحال کو کنٹرول کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ ڈکیتیوں‘ اغوا‘ راہزنی اور دیگر جرائم کی وارداتوں میں پولیس کی کارکردگی یہ ہے تو ریفارمز کے بعد کیا گارنٹی ہے کہ صورتحال تسلی بخش ہو سکتی ہے؟ جو ''گیدڑ سنگھی‘‘ ریفارمز کے بعد نکالنی ہے وہ اب کیوں نہیں نکالی جاسکتی؟ اس تناظر میں تو بس یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ چند مزید افسران کو نئی آسامیوں پر تعینات کیا جائے گا جو کچھ یوں ہوسکتی ہیں مثلاً: ایس پی ٹریفک برائے ہیوی وہیکلز‘ ایس پی ٹریفک برائے موٹر کار ‘ایس پی ٹریفک برائے موٹر سائیکل و رکشہ ‘ایس پی برائے انسداد وَن ویلنگ‘ ایس پی برائے بینک کھلواؤ اور بینک بند کرواؤ‘ ایس پی برائے انسدادِ شیشہ کیفے وغیرہ وغیرہ۔
اس قسم کی نئی آسامیاں تو پیدا کی جاسکتی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کا اصل کام تو لا اینڈ آرڈر ہے اور ساری مراعات اور پروٹوکول بھی اسی سے مشروط ہے۔ آخر میں آئی جی پنجاب سے عرض ہے کہ منو بھائی کو تو کسی بھلے مانس نے اطلاع کر دی تھی اور بروقت ہدایات آنے سے وہ پولیس کے عتاب سے بچ گئے۔ عین ممکن ہے مجھے اطلاع دینے والا شاید کوئی نہ ہو اور نہ ہی آپ کو اوپر سے بروقت ہدایات آئیں۔ ایسے میں میری ساری ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے‘ کیونکہ عوام کے جان ومال کے محافظ آپ اور آپ کی فورس ہی ہیں۔