"AAC" (space) message & send to 7575

کب راج کرے گی خلقِ خدا

قارئین! سب سے پہلے اپنے ایک حالیہ کالم کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت آپ سے شیئر کرتا چلوں... سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن کے ایم ڈی اور وزیر اطلاعات و نشریات کے مابین اختلافات ''پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر پہنچ چکے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے واضح کر دیا ہے کہ اگر پی ٹی وی کا ایم ڈی تبدیل نہ کیا گیا تو وہ اپنی وزارت سے مستعفی ہو سکتے ہیں۔ وہ پی ٹی وی کے اکاؤنٹ سے تقریباً نصف کروڑ روپے کی مبینہ غیر قانونی اور خلاف ضابطہ منتقلی کو فوجداری جرم قرار دے کر ایم ڈی کے خلاف تحقیقات کے لیے آئی جی اسلام آباد کو خط بھی لکھ چکے ہیں؛ تاہم ایم ڈی اور بورڈ کے ڈائریکٹر‘ وزیر اعظم اور ان کے چند رفقا سے خصوصی مراسم کے زعم میں بدستور مبتلا ہیں۔ یہ صورتحال تحریکِ انصاف کے گڈ گورننس کے نعرے اور دعووں پر ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات اپنی ہی وزارت کے اس ذیلی ادارے کے کارکنان کے ایک احتجاجی پروگرام میں شرکت فرما کر واضح پیغام دے چکے ہیں کہ یا وہ رہیں گے‘ یا اس ادارے کے ایم ڈی صاحب۔ یہ صورتحال اس امر کی بھی غماز ہے کہ حکومت کی اداروں اور معاملات پر گرفت کتنی مضبوط اور گہری ہے۔ اس اندیشے کو بھی طاق پر نہیں رکھا جا سکتا کہ اس تنازع نے اگر شدت اختیار کی اور یہ طول پکڑتا گیا تو حکومت کی ایک اور جگ ہنسائی کا باعث بنے گا اور یہ تاثر بھی گہرا ہو جائے گا کہ جو حکومت اتنے چھوٹے چھوٹے معاملات نہیں نمٹا سکتی‘ وہ بڑے ایشوز اور مسائل کو کیسے حل کرے گی۔ اس لیے اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
قارئین! تحریک انصاف جتنی محنت سابقہ حکمرانوں کی مخالفت اور ان کے طرز حکومت پر تنقید پر کر رہی ہے اگر اتنی ہی توجہ اور محنت اپنے وعدوں اور دعووں کو پورا کرنے پر کرے تو یقینا صورتحال مثبت اور بہتر ہو سکتی ہے۔ اکثر وزیر تو حیلے بہانوں سے سابقہ حکمرانوں کا ذکر کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے... اچھی خاصی محکمانہ میٹنگ یا بریفنگ کو سیاسی جلسہ بنا کر رکھ دیتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ ساری توانائیاں اور توجہ اصل مقصد اور ہدف سے ہٹ کر سیاست کی نذر ہو جاتی ہے۔ 
وفاقی وزیر ریلوے جناب شیخ رشید کو ہی لے لیجئے... معاملہ ریلوے سے متعلق ہوتا ہے اور ''لتّے‘‘ شریف برادران کے لیے جا رہے ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی محکمانہ بریفنگ اور کوئی میٹنگ ایسی نہیں جس میں انہوں نے سابق حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ اسی طرح صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی ''دھکّے‘‘ سے ان کا ذکر لے ہی آتے ہیں۔ اگر یہی توانائیاں وہ اپنی کارکردگی اور گورننس پر ''فوکس‘‘ کرنے میں صرف کریں تو کارکردگی کے حوالے سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ 
قارئین! جن شعبوں میں تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل بلند بانگ دعوے کیے تھے‘ بد قسمتی سے ان تمام شعبوں میں حکومتی کارکردگی تاحال ''نامعلوم‘‘ ہے۔ امن و امان اور پولیس ریفارمز کے دعوے دار اقتدار میں آ کر اس رنگ میں ایسے رنگے کہ کچھ نہ پوچھئے۔
صوبائی دارالحکومت کو ہی لے لیجئے... چوہنگ کے علاقے میں چند روز قبل 9 سالہ معصوم بچے سے تفتیش کے نام پر جو دہشت گردی کی گئی کسی مہذب معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا... قتل و غارت‘ ڈاکے‘ اغوا‘ راہزنی کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔ خصوصاً بچوں کے اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتیں پولیس کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ لا اینڈ آرڈر کے ذمہ داران بھی ان وارداتوں کو معمول کے واقعات سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔ تحریک انصاف پولیس میں سیاسی مداخلت پر تنقید کرتی تھی اور اُسے ''شہباز فورس‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ آج پنجاب پولیس میں ''سیاست‘‘ عروج پر ہے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ''کون کہاں جھوم رہا ہے‘‘۔ یعنی گروپنگ اور لابنگ کے آگے آئی جی پنجاب ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ آئی جی نے پنجاب پولیس کی کمان سنبھالنے کے فوری بعد جس عزم اور مورال کے ساتھ افسران و جوانوں سے پولیس لائنز میں جو خطاب کیا تھا‘ اس کا دس فیصد عملی مظاہرہ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ لابنگ اور گروپنگ کے نتیجے میں ''چین آف کمانڈ‘‘ بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ 
تحریک انصاف کا ایک انتخابی وعدہ اور نعرہ ''پولیس ریفارمز‘‘ بھی تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ نئے پاکستان میں سیاست اور مداخلت سے پاک پولیس فورس خدمت اور فرض شناسی کا شاہکار ہو گی۔ مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ پولیس کا قبلہ درست کرنا تو درکنار تحریک انصاف کی حکومت اپنی ہی سمت کا تعین نہیں کر پا رہی۔ گورننس کے نام پر ''ٹامک ٹوئیاں‘‘ جاری ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کی تشویش ناک صورتحال پر نہ کسی کو کوئی پشیمانی ہے... اور نہ ہی ندامت... یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ تحریک انصاف برسر اقتدار آکر پنجاب پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کر کے خود مختار اور عوام دوست فورس بنائے گی‘ جس کا سربراہ میرٹ پر آزادانہ کام کر سکے گا۔ پولیس ریفارمز ہوں گی اور عوام کو تھانوں میں ذلت اور دھکے نہیں ملیں گے۔ آئی جی کو طاقتور کیا جائے گا‘ وہ سیاسی مداخلت اور مصلحت سے بالاتر ہو کر فیصلے کر سکے گا۔ آپریشنل اٹانومی کے تحت پولیس فورس کام کرے گی۔ حکومت کسی افسر کی تقرری اور تبادلے کے لیے آئی جی پر دباؤ نہیں ڈالے گی۔
ان بلند بانگ دعووں کے بعد جب تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو عمران خان صاحب کی پہلی تقریر کو ہی غیرمعمولی مقبولیت نصیب ہوئی... اور عوام بھی نہال ہوئے کہ اب ایک ایسا مسیحا آ گیا ہے‘ جو ریاست میں سیاست برداشت نہیں کرے گا اور نہ ہی ریاست کو سیاسی مصلحتوں اور مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا... اور اب راج کرے گی خلق خدا... لیکن کب راج کرے گی خلق خدا؟ حکومتی دعووں اور وعدوں کا کیا حشر نشر ہوا‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ 
نئے پاکستان کے پہلے آئی جی پنجاب محمد طاہر ابھی ٹھیک طریقے سے بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چلتا کر دیا گیا... اور امجد جاوید سلیمی کو آئی جی پنجاب کی ذمہ داری دے دی گئی۔ انھوں نے چارج سنبھالنے کے بعد پولیس لائنز میں افسران و جوانوں سے آن کیمرا خطاب کیا تو لگتا تھا کہ ''آ گیا وہ شاہکار... جس کا تھا انتظار‘‘ امید اور یقین کی ایسی فضا پیدا ہو گئی کہ پولیس فورس کا مورال بلندیوں پر جا پہنچا اور یہ گمان غالب آ گیا کہ اب پولیس ریفارمز ہوں یا نہ ہوں لیکن پولیسنگ اور سروسز میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ یہ صورتحال بھی گمان سے آگے نہ جا سکی... جوانوں اور افسران میں نئی روح پھونکنے والے اور کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر آنے والے امجد جاوید سلیمی آج انہی چیمپئنز کا شکار ہو چکے ہیں جو ''پولیس ریفارمز‘‘ اور تحریک انصاف کے ویژن کے برعکس کام کر رہے ہیں اور جن کی وجہ سے پنجاب پولیس عملاً دھڑے بندی کا شکار اور اپنے اہداف سے دور ہو چکی ہے۔ جرائم کی شرح میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے لیکن پولیس پر کمال اطمینان اور ایک طرح کا جمود طاری ہے۔ 
چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد جھوٹے مقدمات اور جھوٹے مدعیوں کی حوصلہ شکنی کی بات کی تھی۔ ایسے مقدمات عدالتوں کا وقت ضائع کرنے کے علاوہ ظلم اور حق تلفی کی علامت بھی ہیں۔ جھوٹے مدعیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی باتیں ہو رہی ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ جھوٹے مدعی اور جھوٹے مقدمے کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ اس کی سرپرستی کون کرتا ہے؟ انہیں کس کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے؟ جھوٹے مقدمات باآسانی کیسے درج ہو جاتے ہیں؟ پولیس کے اعلیٰ افسران کس طرح ان مقدمات کو درج کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں؟ کیا جھوٹے مدعیوں کے خلاف کارروائی ہو سکے گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ جھوٹے مقدمات درج کرنے والوں کے خلاف کارروائی کب اور کون کرے گا؟ ماضی میں اگر کسی ایک کے خلاف بھی ایسی کارروائی عمل میں لائی گئی ہوتی تو عدالتوں پر جھوٹے مقدمات کا بوجھ بھی نہ ہوتا اور ان کی توانائیاں صرف اور صرف انصاف کی فراہمی پر ہی صرف ہوتیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں