دودھ میں ملاوٹ... خوراک میں ملاوٹ... ادویات میں ملاوٹ... سیمنٹ میں ملاوٹ... پٹرول میں ملاوٹ... موبل آئل میں ملاوٹ... کھاد میں ملاوٹ... میک اَپ کے سامان سے لے کر آلات و تعمیرات تک ملاوٹ ہی ملاوٹ... دھوکہ ہی دھوکہ... جھوٹ ہی جھوٹ... مکروفریب کی بنیاد پر قائم تمام کاروبار ''نان سٹاپ‘‘ جاری ہیں۔ معصوم بچوں کی بنیادی خوراک دودھ سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک سب کچھ انتہائی ڈھٹائی اور بے حیائی سے بیچنے والے سوداگران معاشرے میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ہر شعبے میں انسداد ملاوٹ کا مکمل اور باقاعدہ نظام موجود ہے... لیکن ''مک مکا‘‘ کی پالیسی نے اخلاقی قدروں کو ''دفنا‘‘ کر قانون اور ضابطوں کو گھر کی باندی بنا لیا ہے۔ سرکاری ادارے متعلقہ قوانین پر عملدرآمد کروانے کے بجائے سہولت کاری اور ''کنسلٹنسی‘‘ کو نصب العین بنا لیں تو ملاوٹ اس قوم کا مقدر کیسے نہ بنے؟
قارئین! یہ ملاوٹ اس وقت تک اس قوم کا نصیب اور مقدر بنی رہے گی جب تک حکمرانوں کے احکامات میں ملاوٹ باقی رہے گی۔ جی ہاں احکامات میں ملاوٹ... آن کیمرہ سرکاری میٹنگز اور عوامی اجتماعات میں ملاوٹ کے خلاف لمبے چوڑے بھاشن دینے والوں... انقلابی اقدامات اور ملاوٹ کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے، کے دعویداروں کے احکامات ہی خالص نہیں ہوتے۔ اگران کے احکامات خالص ہوتے اور وہ متعلقہ قوانین پر عملدرآمد کروانے میں سنجیدہ ہوتے تو آج صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ بخدا! اگر چند فیصد قوانین پر بھی عملدرآمد ہو جاتا تو آج ہماری زمین قہرزدہ نہ ہوتی... زہر نہ اگل رہی ہوتی... قحط زدہ ہونا کمیابی کا حوالہ ہے جس میں بہتری کا امکان بہرحال رہتا ہے... لیکن قہرزدہ زمین میں بہتری اور اضافے کا نہ کوئی امکان رہتا ہے اور نہ ہی کوئی اُمید... وہ زمین صرف قہر ہی اگلتی ہے... اس قہر زدہ زمین سے جو کچھ بھی پیدا ہوتا ہے وہ کوڑھ زدہ ہوتا ہے۔ وہ کوڑھ ہماری معیشت سے لے کر نیت تک سب کو کھا چکا ہے۔
دور دراز علاقوں کو چھوڑئیے صوبائی دارالحکومت کو ہی لے لیجئے... غضب خدا کا‘ پورے شہر کے طول وعرض میں کوئی ایک کونا دکھا دیجئے جہاں ملاوٹ اور مکروفریب کی بنیاد پر کاروبار نہ ہو رہا ہو۔ کوئی ایک فرد پورے یقین اور دعوے کے ساتھ کہہ سکے کہ اس کا مال ملاوٹ سے پاک ہے۔ ناممکن ہے... قطعی ناممکن۔
اصل مسئلہ ہے ملاوٹ، بناوٹ اور نیت کا۔ اگر حکمرانوں کے فیصلے اور اعلانات ملاوٹ اور بناوٹ سے پاک ہوںتو نیت اور ارادے کے سامنے کوئی رکاوٹ، عذر اور مصلحت زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتی... موجودہ حکومت کے روایتی بیانات اور دعووں کا جو حشرنشر اب تک سامنے آیا ہے وہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ اپنے ہی دعووں اور بڑھکوں کی پکڑ میں آئے حکمران نہ صرف اپنے لیے حالات مزید مشکل کرچکے بلکہ اس سے کہیں زیادہ گھیرا وار کٹھن صورت حال سے عوام کو دوچار کر چکے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکل صورت حال کی بڑی وجہ اکثر حکومتی ''چیمپئنز‘‘ کی لمبی زبان اور عقل کا فقدان ہے۔
بات ہو رہی تھی معیشت کی بحالی اور عوام کی خوشحالی کی جو تحریک انصاف کا انتخابی وعدہ تھا۔ حکومت کے ''اقتصادی چیمپئن‘‘ کے بارے میں برادر محترم حسن نثار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ''اسد عمر کے دعوے ان کے اپنے قد سے بھی بڑے ہیں‘‘ اور یہ دعوے کسی صورت دور دور تک پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے اور خود اسد عمر بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں جس کا ڈھول انتخابات سے قبل پیٹا گیا تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جس علمی قابلیت اور انتظامی مہارت کا ''ڈنکا‘‘ وہ بجایا کرتے تھے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سب بلند بانگ دعوے جھانسے تھے۔ سب جعلی گفتگو اور ملاوٹ وار بناوٹ پر مبنی اعلانات تھے جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکمرانوں کے فیصلوں اور اعلانات میں ملاوٹ ہوگی تو خالص نتائج کیسے برآمد ہوں گے؟
سیدھی سے بات ہے، جیسی نیت ویسا پھل... جیسی کرنی ویسی بھرنی... چارہ بوکر کپاس یا گندم کیسے کاٹ سکتے ہیں؟ اب نتیجہ یہ کہ عوام اس مینڈیٹ کی سزا بھگت رہے ہیں جو حالیہ انتخابات میں انہوں نے تحریک انصاف کو دیا۔ عوام کے لیے نتیجہ کوئی نیا نہیں وہ ماضی میں بھی سابق حکمرانوں سے ایسے جھانسے اور دھوکے کئی بار کھا چکے ہیں۔ تبدیلی کا خمار اب بخار بن کر عوام کو جھلسارہا ہے۔ انہیں سر پر بٹھانے والے عوام اب سر پیٹنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے سے ہی مشکلات میں گھرے عوام ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد ڈالر کی اونچی اُڑان اور روپے کی بے قدری سے مزید نڈھال ہو چکے ہیں۔ اس پر ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ کوئی وزیر ہو یا مشیر کسی کو کچھ نہیں پتا کہ حالات کیا ہے؟ بولنا کیا ہے؟ سوال کیا ہے؟ اس کا جواب کیا دینا ہے؟ عوام کے ہر مسئلے اور پریشانی سے بے نیاز اربابِ اختیار اپنی اپنی نالائقی اور نااہلی پر نازاں پھرے چلے جارہے ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ایک بندگلی کے مسافر بنتے چلے جارہے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ ہے نہ ہی کوئی ''یوٹرن‘‘... واپس پلٹنا تو درکنار اکثر مڑ کر دیکھنے کی اجازت بھی نہیں ملتی۔
معاشی انقلاب اور عوام کی خوشحالی کا منظر دیکھنا ہو تو سٹاک سے بھری لیکن گاہک کی راہ تکتی دکانوں کو دیکھیں... صورتحال یہ ہے، گویا گاہک روٹھ ہی گئے ہوں۔ ان بازاروں کی ویرانیاں دیکھیں جہاں تِل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی۔ لگتا ہے بازاروں میں کوئی جن پھر گیا ہو، قوتِ خرید سے باہر اشیائے ضروریہ عوام کو بے بس اور لاچار کیے ہوئے ہیں۔ ثبوت اور تجربے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کسی بھی بازار یا سڑک پر چند منٹ کھڑے ہوکر دکاندار یا گاہک سے احوال تو دریافت کریں، وہ پھٹ نہ پڑے تو پھر کہنا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی خوش خبریاں سنانے والے حکمران بھی بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں صنعت لگانا تو درکنار کوئی گنے کا بیلنا بھی لگانے کو تیار نہیں۔
مزے کی بات یہ کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی وزیر خزانہ حقیقت تسلیم کرنے اور اپنے احکامات اور اعلانات میں ملاوٹ سے توبہ کرنے کے بجائے مسلسل راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اپنی نجی محفلوں اور قریبی حلقوں میں وہ یہ کہتے بھی پائے گئے کہ حالات اگر بہت جلد بھی ٹھیک ہوئے تو کم از کم تین چار سال مزید لگیں گے۔ گویا ان پانچ سالوں میں تو کچھ ہونے والا نہیں... آئندہ انتخابات 2023ء کے بعد اگلے پانچ برسوں میں شاید وہ کچھ کر سکیں۔ خدا جانے وہ کس خوش گمانی یا خوش فہمی کا شکار ہوکر انتخابات 2023ء کے نتائج کے بعد خود کو ایک بار پھر وزیر خزانہ دیکھ رہے ہیں۔
انتہائی افسوس اور تشویش کا مقام ہے کہ حکمرانوں نے عوام سے جھوٹ بولنا وتیرہ تو کیا اپنا استحقاق ہی بنا لیا ہے۔ عوام کا کیا ہے جو چاہے جھوٹ بول دو... جو چاہے جھانسہ اور دھوکہ دے دو۔ ماضی سے لے کر دورِ حاضر تک کسی حکمران کو یہ احساس نہیں ہوا کہ اگر عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے تو کم از کم انہیں لارے اور جھانسے بھی نہ دیں۔ یہ قوم ''ڈکیتی زدہ‘‘ قوم ہے۔ جو ہر دور میں لوٹی گئی ہے۔ یہ قوم اب جھانسے میں آنے والی نہیں۔ حکمرانوں کو اب اعتراف کرنا ہوگا اور سچ بولنا ہوگا۔ قوم کو یہ بتانا ہوگا کہ دلفریب وعدے، خوش کن اور گمراہ کن اعداد و شمار پر مبنی الفاظ کا گورکھ دھندہ محض جھانسے اور لارے تھے۔ قوم سے مزید مہلت لینے کے لیے انہیں سچ بلکہ پورا سچ بتانا ہوگا۔ یہ بھی بتانا ہوگا کہ حکومت اپنے دعوے اور وعدے فی الحال پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ قوم سے تعاون طلب کرنے کے لیے اسے اعتماد میں لینا ہوگا۔ یہ قوم بہت فراخدل ہے۔ کسی تعاون تو کیا بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ کوئی سچ بولنے کی ہمت اور جرأت تو کرے۔ ملاوٹ اور بناوٹ سے پاک فیصلے تو کرے۔ یہ جاننے ماننے اور تسلیم کیے بغیر اب کام نہیں چلے گا کہ جب حکمرانوں کے فیصلوں میں ملاوٹ ہوگی تو دودھ، ادویات، کھاد، پٹرول، سیمنٹ اور خوراک سمیت ہر چیز میں ملاوٹ ضرور ہوگی اور ہوتی رہے گی۔ اس ملاوٹ کے سدِّباب کے لیے نیت اور فیصلوں سے ملاوٹ ختم کرنا ہوگی۔ مطلوبہ نتائج اور خالص مصنوعات کے لیے خالص فیصلے بھی کرنا ہوں گے۔ تب کہیں جاکر ملاوٹ کا بیج مرے گا۔