تحریک انصاف کے انتخابی وعدوں میں سے ایک شہرِ قائد کی رونقیں بحال کرنا بھی تھا۔ وزیراعظم نے 162ارب کے ترقیاتی منصوبوں پر مشتمل کراچی پیکج کا اعلان کر کے اس وعدے کی تکمیل کے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ماضی کا عروس البلاد کئی دہائیوں سے قتل وغارت‘ دہشت و بربریت‘ تباہی و بربادی اور لاقانونیت کی علامت بن کر رہ گیا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں‘ غلاظت اور کوڑے کے ڈھیر اور شہری سہولیات سے محروم... شہر قائد کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کے تحت چلایا جاتا رہا۔ تحریک انصاف ایک نئی سیاسی قوت بن کر اس شہر کی نمائندگی میں شریک ہوئی ہے۔ اس کے لیے یہ انتہائی نادر موقع ہے کہ سندھ خصوصاًکراچی کی ترقی و خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کر کے اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کے علاوہ کراچی کی روٹھی ہوئی خوشیاں اور رونقیں لوٹا سکتی ہے۔ شہر قائد کی بحالی کے لیے یہ پیکج سرکاری وسائل اورپبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے تیار کیا گیا ہے‘ اس میں اٹھارہ منصوبے شامل ہیں جو ٹرانسپورٹ‘ واٹر سیوریج‘ گرین لائن بس‘ شمسی توانائی‘ صاف پانی کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ اور لیاری ایکسپریس وے کو ہیوی ٹریفک کے لیے کھولنے کے علاوہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے دوبارہ ''جائیکا‘‘ سے مدد لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے کراچی کی ترقی کو پورے ملک کی ترقی سے مشروط کرتے ہوئے نئے ماسٹر پلان کی تیاری کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے حیدر آباد میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا‘ جو ایک طویل عرصے سے صوبے کے دوسرے بڑے شہر کی ناگزیر ضرورت ہے۔ تاہم ضرورت اس کی بھی ہے کہ یہ ترقیاتی منصوبے مقررہ مدت میں پورے کیے جائیں‘ ان کی مانیٹرنگ کے لیے مناسب انتظام بھی کیا جائے اور یہ احتیاط بھی کی جائے کہ ان منصوبوں پر ان لوگوں کا سایہ بھی نہ پڑے جو ماضی میں کاغذی منصوبے بنا کر ان کی بھاری رقوم سے اپنی جیبیں اور تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس بحالی پیکج کا کاروباری برادری نے گرمجوشی سے خیر مقدم کیا ہے جبکہ کراچی کی بربادی اور تباہی میں بالواسطہ اور بلاواسطہ شریکِ جرم سیاسی قوتیں بھی اسے خوش آئند قرار دینے پر مجبور دکھائی دیتی ہیں ؎
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
آئیے قارئین! شہر ِقائد کے دردناک ماضی اور اُن زخموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو آج بھی ذرا سی ٹھیس لگنے پر ''رسنے‘‘ لگتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے سانحات اور زخم کبھی نہیں بھلاتیں... زخم بھلا دینے والی قوموں کے عزم بھی کہیں بھٹک جایا کرتے ہیں۔ اس زخم کو ساتھ لے کر ہی ترقی اور بحالی کی شاہراہ پر گامزن رہنا ہو گا... انہیں یاد رکھ کر ہی ہم تکلیفوں‘ اذیتوں اور سانحوں سے اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو محفوظ کر سکتے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے شہر ِقائد بھگت رہا ہے۔ کراچی کے عوام کو سلام ہے کہ جنہوں نے کئی دہائیوں تک اس عذابِ مسلسل کو جھیلا ہے... سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک‘ ہر حکمران نے اس ناسور کو گلے سے لگایا اور جو ظلم کمایا آج سب کے سامنے ہے۔ ماضی کے سارے حکمران اُس ایم کیوایم کے شریک جرم ہیں جس کا ایک ایک نوالہ کراچی کے معصوم عوام کے خون کے چھینٹوں سے تر ہے... کتنا خون بہایا گیا؟ کتنی ماؤں کی گود اُجاڑی گئی؟ کتنے سہاگ دن دیہاڑے خون میں نہلائے گئے؟ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے؟ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا؟ نواز شریف ہوں یا بے نظیر... پرویز مشرف ہوں یا آصف علی زرداری‘ سب کے ہاتھ کراچی کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ کراچی کی بربادی اور تباہی کے سبھی ذمہ دارہیں۔
جنرل آصف نواز جنجوعہ نے جب کراچی میں آپریشن شروع کیا تو سب سے پہلے ''حاکمِ وقت‘‘ نواز شریف کو اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے تھے... عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں جب منظرِ عام پر آئیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا لرز کر رہ گیا... نہیں لرزے تو مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے سیاستدان نہیں لرزے... کیسا کیسا انمول ہیرا ایم کیوایم کے غضب کا نشانہ نہیں بنا۔ کیسی کیسی قدآور شخصیات کی آواز ہمیشہ کے لیے بند نہیں کر دی گئی اور پھر ''جعلی بیمار‘‘ اور وطن دشمن کو کس طرح ملک سے فرار کروایا گیا... اس دردناک ماضی کو کون بھلا سکتا ہے۔
مملکت خداداد کے طول و عرض میں کوئی ایسا قابلِ ذکر سیاستدان نہیں جو اپنی سیاسی مجبوریوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس وطن دشمن کے در پر نہ گیا۔ بڑے بڑے جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے غم میں مرے جانے والے سیاستدان اپنے وسیع تر مفاد میں مفاہمت اور تعاون کی بھیک کے لیے سوالی بن کر اس کے در پر حاضری دیتے رہے ہیں اور اس تعاون کے عوض شہر قائد میں چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نے آنکھ اٹھائی وہ پھر سر اٹھا کر چل نہ سکا... سیاسی مفاہمت اور تعاون کے نتیجے میں ہونے والے یہ گٹھ جوڑ کراچی کے عوام کے لیے عذاب مسلسل ہی بے رہے۔ حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے لیے ہر دور میں حکمرانوں نے اس تنظیم کو سیاسی تعاون کے عوض ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دئیے رکھا۔ یعنی شہرِ قائد کے عوام وطن دشمنوں کے رحم و کرم پر ہی رہے۔
زرداری اینڈ کمپنی کے بعد ''خدمتِ خلق فاؤنڈیشن‘‘ کا پول بھی کھل چکا ہے۔ چندوں‘ بھتوں‘ لوٹ مار‘ داداگیری‘ قتل وغارت اور دیگر ذرائع سے سمیٹے ہوئے مال سے ''دیوتا سمّان‘‘ وطن دشمن قائد کو پالنے والے ایم کیو ایم کے پچاس سے زائد سرکردہ رہنما اس ریڈار پر ہیں۔ ایم کیو ایم چونکہ وفاق میں حکومتی حلیف اور شریک اقتدار ہے؛ چنانچہ مملکتِ خداداد کے وفاقی وزیرِ قانون کا نام بھی اسی ریڈار پر ہے۔ وہ بھی اپنے قائد کی اطاعت گزاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے بھی اس کام میں خوب حصہ ڈالا۔ کئی اہم شخصیات اپنے قائد کو لوٹ کے مال سے پالتی رہیں اور آج مکافاتِ عمل کی تصویرنظر آرہی ہیں۔ آج نہیں تو کل وہ اپنے اعمال کی کھیتی ضرور کاٹتے نظر آئیں گے۔
جب قانونِ فطرت حرکت میں آتا ہے تو ساری احتیاطیں‘ پیش بندیاں‘ حکمت عملیاں‘ چالاکیاں اور ہوشیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ ریاست کے قانون کوگھر کی باندی سمجھ کر انگلیوں پر نچوانے والوں کے لیے وہی قانون گلے کا پھندہ بن جاتا ہے‘ پھر وکالتیں اور عدالتیں بھی پناہ دینے سے انکاری ہوتی ہیں کیونکہ ''آسمانی فیصلوںکے آگے ... وکالتیں نہیں چلتیں‘‘۔ خدا اِن سے پوچھے جنہوں نے جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں لگائے گئے اس زہریلے اور جان لیوا پودے کو بھر بھر مشکیں ڈال کر پروان چڑھایا... ایم کیوایم کو پروان چڑھانے والے آج کس حال میں ہیں؟ مکافاتِ عمل کا سلسلہ جاری ہے اور سارے کردار اپنا انجام اپنی آنکھوں سے ہی دیکھ رہے ہیں... اگر کمی ہے تو عبرت پکڑنے والوں کی۔
متضاد اطلاعات کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری کے ایک انتہائی قریبی ساتھی انٹرپول کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں‘ جو وسیع پیمانے پر منی لانڈرنگ‘ سرکاری اراضی کی فروخت سمیت درجنوں جائز‘ ناجائز وارداتوں میں ملوث سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی گرفتاری آصف علی زرداری کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک اور اہم خبر یہ کہ تحریک انصاف میں دھڑے بندی اور شدید اندرونی اختلاف کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کسی طور حکومتی امو رمیں جہانگیر ترین کی مداخلت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پینتیس سال سیاست کی ہے‘ گھاس نہیں کاٹی... کابینہ اور دیگر اہم اجلاسوں میں جہانگیر ترین کی شرکت تنقید اور اختلاف کا باعث بن رہی ہے جبکہ جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ وہ صرف عمران خان کو ہی جوابدہ ہیں۔ پنجاب میں گورننس اور وزیراعلیٰ سمیت صوبائی کابینہ کی کارکردگی پہلے ہی وزیراعظم کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ ان حالا ت میں پارٹی کا اندرونی انتشار پنجاب میں تحریک انصاف کی گرفت اور حکمرانی کے لیے اچھا شگون نہیں ہوگا۔ ویسے بھی وفاقی وزیر ریلوے اور حکومتی حلیف شیخ رشید کافی عرصے سے شور مچا رہے ہیں کہ شہباز شریف کی گوٹی کہیں فٹ ہوچکی ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کے لیے دیگر شرکائے اقتدار اور حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنا مزید مشکل ہو سکتا ہے۔