قارئین! آج کے کالم کا پہلا حصہ گزشتہ سے پیوستہ ہے... بات مفادِ عامہ کی ہو‘ بھلے کتنی ہی بار کیوں نہ کرنا پڑے‘ بات کرنا تو بنتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ''چڑھا ہوا ریٹ اور بڑھا ہوا پیٹ اپنی جگہ واپس نہیں آتا‘‘۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق دوا ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتیں کم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ حکومت ادویات کی پرانی قیمتیں بحال کرنے میں کم ہی سنجیدہ نظر آتی ہے‘ لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور نکل آیا ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ادویات کی قیمتیں عوام کی قوتِ خرید کے اندر رکھی جائیں جبکہ دوسری جانب دوا ساز کمپنیوں نے 395 ادویات کی قیمتوں میں کمی سے صاف انکار کر دیا ہے۔ سرکار کو انکار... تعجب ہے!! گویا مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کے جس ''جن‘‘ کو گٹھ جوڑ اور ملی بھگت سے سسٹم کی بوتل سے نکالا تھا وہ ''جن‘‘ اب واپس بوتل میں جانے سے انکاری ہے۔
سرکار کو ایک بڑا کارآمد مشورہ پہلے بھی دے چکا ہوں کہ ایک مرتبہ SRO 1610 واپس لے کر تو دیکھیں‘ ایک لمحے میں دوا ساز کمپنیاں اور ادویات کی قیمتیں اپنی اپنی جگہ واپس آ جائیں گی‘ لیکن صاف ظاہر ہے کہ سرکار ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ بلکہ کسی حد تک بے بس دِکھائی دیتی ہے۔ سب سے پہلے تو مطلوبہ اور متعلقہ ریکارڈ ادارے کے ''چیمپئنز‘‘ نے کمالِ مہارت سے اِدھر اُدھر کر دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ''جو پیسے دے کر بین بجوائے وہی راگ کی لے بتلائے‘‘ کے مصداق ادویات کی قیمتوں میں از خود من چاہا اضافہ دوا ساز کمپنیاں صرف اسی صورت میں کر سکتی ہیں جب اتھارٹی کو اس کی فرض شناسی کی پوری پوری قیمت ادا کر دی گئی ہو۔ ورنہ کسی کی کیا مجال کہ وہ سرکار کو سرکار سمجھنے سے انکاری ہو۔ اکثر ایسے کیسز میں اعلیٰ حکام اور اتھارٹیز ساہوکاروں، سرمایہ کاروں اور منافع خوروں کو معقول معاوضے کے عوض از خود اپنی ہی نفی کا اجازت نامہ جاری کر دیتی ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ڈریپ میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔
ادویات کی قیمتوں میں من چاہے اور ہوش ربا اضافے کے دونوں ہی مرکزی کردار بظاہر اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کابینہ سے فارغ ہو چکے ہیں جبکہ دوسرے کردار کے بارے میں ایک نیا اور عجیب انکشاف ہوا ہے‘ جس سے معاملات پر اُن کا شکنجہ اور گرفت تا حال صاف نظر آرہی ہے۔ وہ چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈریپ کے عہدے سے فارغ ہونے کے باوجود تا حال ڈریپ کے کھاتے میں ہی پڑے ہوئے ہیں اور تا حال اُس کا باقاعدہ حصہ ہیں جبکہ قانون اور ضابطے کے مطابق کوئی شخص جب کسی اتھارٹی کا سربراہ منتخب اور مقرر ہوتا ہے تو اسے اپنے سابقہ عہدے سے استعفیٰ دینا پڑتا ہے لیکن نا جانے کیوں شیخ صاحب سے سابقہ عہدے کا استعفیٰ لیے بغیر چیف ایگزیکٹو ڈریپ کا چارج دے دیا گیا ہے؟
واضح رہے کہ چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈریپ کی تقرری کے لیے باقاعدہ اشتہار دیا گیا تھا۔ دیگر امیدواروں کی طرح سابقہ چیف ایگزیکٹو آفیسر شیخ صاحب بھی درخواست گزار تھے اور جس طرح وہ اس عہدے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے وہ کہانی زبان زدِ عام ہے لیکن تعجب ہے کہ اُن سے استعفیٰ طلب کیے بغیر ایک انتہائی اہم ادارے کا سربراہ کیسے بنا دیا گیا۔ ملی بھگت اور گٹھ جوڑ کے اس رواج نے نہ صرف اس ادارے کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ حکومت کی بدنامی کے ساتھ ساتھ عوام کا جو حشر نشر ہوا ہے‘ وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ معیاری اور معقول نرخوں پر ادویات کی فراہمی کے ذمہ دار اس ادارے کو بد قسمتی سے ''سونے کی کان اور مال بنانے کی دکان‘‘ بنا دیا گیا ہے۔
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے۔ جو شخص احتساب سے بچنے کے لیے کئی سال خود کو مردہ ظاہر کر کے سزا سے بچ نکلا ہو اور تا حال بچتا ہی چلا جا رہا ہو اس سے کیا بعید... وہ کچھ بھی کر سکتا ہے‘ اور کچھ بھی کروا سکتا ہے۔ ڈریپ کے معاملات پر وزیر اعظم کی طرف سے سخت نوٹس کے باوجود یہ ادارہ سرکار کے لیے ٹیسٹ کیس ہی بنتا چلا جا رہا ہے۔ اس کا کوئی ''اَنت‘‘ نہیں۔ 'اِدھر ٹانکا اُدھر اُدھڑا... اُدھر ٹانکا اِدھر اُدھڑا‘ کے مصداق گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کے ''چیمپئنز‘‘ کوئی سرا ہاتھ آنے ہی نہیں دے رہے۔ اگر وفاقی وزیر برطرف ہو سکتا ہے تو اس کا شریک اور براہِ راست ذمہ دار کس طرح کسی ادارے کا حصہ رہ سکتا ہے۔ ضابطے کے مطابق چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈریپ کا چارج سنبھالتے ہی وہ اپنے سابقہ عہدے اور پوزیشن سے دستبردار ہو چکے تھے۔ اس تناظر میں یہ معمہ حل ہونا چاہیے کہ اِن سے استعفیٰ کیوں طلب نہ کیا گیا اور وہ تا حال ڈریپ کا حصہ کیسے بنے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت اس ادارے کی ساکھ بحال کرنے میں سنجیدہ اور نیک نیت ہے تو اس گٹھ جوڑ میں ملوث ذمہ داران کا تعین ہونا چاہیے اور ان صاحب کو ''پکا پکا‘‘ گھر بھجوا کر دوا ساز کمپنیوں کو ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دینے کے علاوہ عرصہ دراز سے زیر التوا نیب کے کیس کی تحقیقات بھی ہونی چاہئے۔ جس کیس میں ان کے شریک جرم اپنے اپنے حصے کی سزا کاٹ چکے ہیں‘ یہ صاحب سزا اور جزا کے دائرے سے تا حال باہر ہی گھوم پھر رہے ہیں۔ اسی صورت میں ڈریپ کا وہ کنواں پاک ہو سکے گا جس سے چند بوکے نکال کر اسے پاک کرنے کا ''ڈھنڈورا‘‘ پیٹا جا رہا ہے۔
اب چلتے ہیں اس ٹیکنالوجی کی طرف جو حکومت پنجاب دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے استعمال کرنے جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مجرموں تک پہنچنے کے لیے ڈی این اے بینک بنایا جا رہا ہے۔ یہ بینک ڈیٹا بیس ہو گا۔ اس سسٹم کے تحت رشتہ داروں کے ڈی این اے سے مجرموں تک رسائی بہ آسانی ہو سکے گی۔ جبکہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کے پاس پہلے ہی ڈی این اے کے سترہ ہزار نمونے موجود ہیں۔ یہ ڈیٹا بینک جرائم کی بیخ کنی اور اہداف تک رسائی کے لیے یقینا معاون اور مددگار ثابت ہو گا۔
کاش! کوئی ایسی لیبارٹری بھی بنائی جا سکتی جو حکمرانوں سے لے کر اعلیٰ سرکاری حکام تک سبھی کے بارے میں بتا سکتی کہ ملک و قوم کے لیے موافق ہیں یا غیر موافق۔ اِن کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا سکتا کہ وہ برسرِ اقتدار آ کر کیا گُل کھلائیں گے۔ اگر ایسا ہو جائے تو نسل در نسل دھوکہ کھائے وطن عزیز کے عوام مزید دھوکوں، جھانسوں سے بچ سکیں گے۔ انہیں پتہ ہو گا کہ فلاں اَفسر کا ڈی این اے مفاد عامہ کے مطابق ہے یا متصادم۔ اسی طرح حکمران بھی الیکشن کے بجائے بذریعہ ڈی این اے منتخب کیے جائیں۔ اُن کا ڈی این اے نمونہ لیبارٹری میں موجود ہو اور ماہرین تجزیہ کر کے بتائیں کہ ان کا ڈی این اے ملک و قوم وقار اور مفاد کے عین مطابق ہے بھی یا نہیں۔
کوئی ایسی بھی رپورٹ ہو جو یہ بتا سکے کہ یہ برسر اقتدار آ کر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کو نصب العین بنائیں گے، اور بینکوں سے قرضے لے کر ذاتی کاروبار کو ''ضربیں‘‘ نہیں لگائیں گے۔ سرکاری عہدوں اور اداروں میں بندر بانٹ کا نظام رائج نہیں کریں گے۔ ذاتی مفادات پر مبنی پالیسیاں نہیں بنائیں گے۔ عوام کی جان و مال اور عزت کی ذمہ دار سرکار ہو گی۔ لوگوں کی زندگیاں آسان بنائی جائیں گی۔ ملک و قوم کا وقار ان کی اوّلین ترجیح ہو گی یا پھر وہی کچھ کریں گے جو ماضی کے تمام ادوار میں انیس بیس کے فرق سے ہوتا چلا آیا ہے۔ جو بھی آیا ''لٹّو اور پُھٹّو‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہی پایا۔ بینکوں کو لوٹا گیا۔ سرکاری عہدے عزیز و اقارب میں بانٹے گئے۔ عوام دشمن پالیسیاں بنائی گئیں۔ اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ آزمایا گیا۔ مخالفین اور حریفوں کو زیر عتاب رکھا گیا۔ سرکاری وسائل کو بے دردی سے بھنبھوڑا گیا۔ غرض کہ جو جس سے بن پڑا اس نے کم نہ کیا۔
حکومت پنجاب نے دہشتگردوں اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں تک رسائی کے لیے تو لیبارٹری بنا لی ہے لیکن عوام دشمن اور غیر موافق پالیسیاں بنا کر ملک و قوم کے پیسے پر موجیں اور حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں کی نشاندہی کے لیے بھی کاش! کوئی ایسی لیبارٹری بنائی جا سکتی جو اس قوم کے حکمرانوں کے اَصل اور نسل کا پتہ دے سکتی۔