قارئین کالم کے باقاعدہ آغاز سے قبل گزشتہ رات پیش آنے والے ایک ایسے واقعہ کے بارے میں شیئر کرتا چلوں جو میرے دِل و دماغ میں اَٹک کر رہ گیا۔ میں نے لاہور پولیس کے ''شیر جوانوں‘‘ کو امن و امان یقینی بنانے اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے کھلے آسمان تلے فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے چند نہتے افراد پر انتہائی بے دردی سے ڈنڈے برساتے دیکھا۔ دِن بھر کے تھکے ہارے‘ بے سروسامان اور بے خبر سوئے ہوئے مسافروں یا مزدوروں پر اچانک ڈنڈے برسائے جائیں تو ان کے لیے یہ صورتحال یقینا ''آفتِ ناگہانی‘‘ ہی ہوتی ہے۔ اور ڈنڈے برسانے والے باوردی بے دریغ گالی گلوچ کر رہے ہوں تو یہ سماں اُن کے لیے کسی ''ڈرون حملے‘‘ سے کم نہیں ہوتا۔ اُن کی چیخ و پکار درد و کرب کی آوازیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ رُک کر معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ سڑک کنارے سونے والے نشئی ہیں اور اس شہر کو نشئیوں سے پاک کرنے کے لیے لاہور پولیس رات گئے بھی سرگرمِ عمل ہے۔
نشہ بیچنے والوں اور خریدنے والوں کی بجائے رات گئے فٹ پاتھ پر سونے والے مسافروں اور مزدوروں پر ڈنڈے برسا کر لاہور پولیس ناجانے انسدادِ منشیات کی کونسی ''چیمپئن شپ‘‘ جیتنا چاہتی ہے۔ فرض کریں اگر وہ واقعی نشئی بھی تھے تو منشیات کی خریدوفروخت کے وقت یہ ''شیر جوان‘‘ کہاں سوئے پڑے ہوتے ہیں۔ قانون کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ نشہ کرنے والوں پر رات کو سونے کی پابندی ہے اور ایسا کرنے والا نشئی قابل دست اندازیٔ پولیس ہے۔ پورا شہر نشئیوں اور منشیات فروشوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ دِن دیہاڑے، کھلے عام انتہائی دیدہ دلیری سے یہ دھندہ سارا دن جاری رہتا ہے۔ جو پولیس کی معاونت یا آشیرباد کے بغیر قطعی ممکن نہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ پولیس پٹرولنگ پر مامور تھانیدار صاحب سرکاری گاڑی میں بیٹھے اپنے شیر جوانوں کی اس کارروائی کو ایسے دیکھ رہے تھے گویا امن و امان کے حوالے سے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا جا رہا ہو۔
اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف... وطن عزیز میں بسنے والے بھی عجیب لوگ ہیں... زندہ یا مردہ تو دُور کی بات ان میں قوم والی کوئی بات نظر بھی نہیں آتی۔ ہر دور میں ''جوتے اور پیاز‘‘ برابر اور تواتر سے کھانے کے باوجود اپنے اپنے لیڈروں کے کارناموں اور کرتوتوں پر نازاں اور شاداں ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا مائی کا لعل لیڈر نہیں‘ جس کا دائو لگا ہو اور اس نے ہاتھ صاف نہ کیا ہو۔ پورا ملک لُٹ گیا۔ اس کے وسائل اور دولت کو بے دردی سے بھنبھوڑا گیا۔ قانون اور ضابطے کو گھر کی باندی بنائے رکھا گیا۔ اقربا پروری اور بندر بانٹ کو بے تحاشا فروغ دیا گیا۔ بیرونی قرضوں پر سیر سپاٹے اور موج مستی کو استحقاق سمجھا گیا۔ حلف اور آئین سے انحراف نصب العین بنایا گیا۔ ان تمام وارداتوں کے ذمہ داران ہیں کہ کچھ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر خود کو معصوم بے گناہ اور دودھ کا دھلا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے لیکن چوروں اور لٹیروں سے ریکوری تو درکنار معاملہ تاحال استغاثوں، گواہوں، پیشیوں اور انکوائریوں سے آگے نہیں جا سکا ہے۔
نیب بنانے والے ہی اسی احتسابی ادارے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ گویا چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ یہ ادارہ ہم نے اپنے لیے نہیں بلکہ مخالفین اور حریفوں کو زیرِ عتاب رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ نواز شریف تو کئی بار اس پچھتاوے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ کاش وہ آرٹیکل 62/63 ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد نہ کرتے۔ کھال اور گردن بچانے کے لیے اب یہ ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے سرگرم اور گٹھ جوڑ پر آمادہ ہیں۔ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک‘ مشرف سے لے کر آصف زرداری تک ہر دور میں مفادات کے ماروں نے ملک و قوم کی دولت اور وسائل کے بٹوارے سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک‘ ایک دوسرے کی بڑی سے بڑی واردات سے چشم پوشی کی روایت کو دوام بخشا۔ البتہ ''فیس سیونگ‘‘ اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، لٹیرا کہنے پر کوئی ممانعت نہیں... بلکہ یہی ''اَنڈر سٹینڈنگ‘‘ ہے۔
ایک دوسرے کو چور کہنے‘ سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے اور بڑھکیں مارنے والے سب کچھ برباد کرکے آج پھر اپنی اپنی کھال و گردن بچانے کے لیے ایک دوسرے کے دست و بازو بننے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں۔ زرداری اور شریف برادران ایک دوسرے پر اس قدر سنگین الزام لگا چکے ہیں کہ اب خفت مٹانے کی غرض سے زرداری خود پس پردہ رہ کر اور بلاول کو آگے لگا کر عوام کو گمراہ کرنے اور بیوقوف بنانے کا نیا جال لے کر آئے ہیں۔ افطار ڈنر میں شرکت کرکے مریم نواز اپنے والد کی نمائندگی کا آغاز کر چکی ہیں جبکہ آصف علی زرداری ہوں یا بلاول اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میثاق جمہوریت کے نام پر اکٹھے ہونے والے ہی جمہوریت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے رہے ہیں۔ جمہوریت کا درد لیے واویلا کرنے والے صرف ''کڑے وقت‘‘ کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو روزِ حساب بن کر ان کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔
اب تو سب کچھ عیاں ہو چکا ہے۔ نواز شریف اور زرداری حکومت وقت اور احتساب کی پکڑ میں نہیں بلکہ اپنے اعمال اور اﷲ کی پکڑ میں آ چکے ہیں۔ یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ سزا اور جزا کا عمل، اعمال کے نتیجے میں ہی حرکت میں آتا ہے‘ اور کیسے ممکن ہیں کہ اعمال بد ہوں اور قانونِ فطرت خاموش رہے؟ نافرمانیاں اﷲ کی ہوں... خیانت اور ظلم و جبر کے کارِ بد میں ہاتھ رنگے ہوں... تو کوئی بھی قانونِ الٰہی کی گرفت سے کیسے بچ سکتا ہے؟ کیا چوروں کا‘ چوروں کو تحفظ دینے کا زمانہ بیت گیا؟ یہ سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
اگر یہ اب بھی بچ گئے تو پھر اس ملک میں کچھ نہیں بچے گا۔ نہ یہ نظام رہے گا اور نہ ہی نظام چلانے والے کیونکہ جس معاشرے میں سب کچھ ہی چلتا ہے‘ پھر وہاں کچھ بھی نہیں چلتا۔ روٹی کپڑا اور مکان سے لے کر‘ قرض اُتارو ملک سنوارو تک کا مزہ تو عوام ''چکھ‘‘ چکے ہیں؛ البتہ ڈیم فنڈ کا نتیجہ آنا ابھی باقی ہے۔
قصور کی زینب سے لے کر اسلام آباد کی فرشتہ تک ''ہر حادثے کے بعد مجھے یہ گماں ہوا... شاید کہ اس کے بعد کوئی حادثہ نہ ہو‘‘ لیکن حادثہ کیسے نہ ہوتا؟ حادثے کے کسی ذمہ دار کو آج تک نشانِ عبرت بنایا ہی نہیں گیا۔ اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو پھر شاید ایسا حادثہ کبھی نہ ہوتا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ لاہور سے اغوا ہونے والے تین سالہ بچی ''حبا‘‘ کو اغوا کار خود ہی چھوڑ گیا اور لاہور پولیس کی جان میں جان آئی جبکہ انتہائی مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ اغوا کار پولیس کے خوف سے بچی کو واپس چھوڑ گیا ہے۔
اب چلتے ہیں وزیر صنعت اسلم اقبال کے احتجاج اور اُس شکوے کی طرف جو انہوں نے رمضان بازاروں کے حوالے سے میرے حالیہ کالم پر مجھ سے کیا۔ یہ من و عن پیشِ خدمت ہے۔ وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ پنجاب بھر میں 309 رمضان بازار عوام کو سستی اور معیاری اشیا فراہم کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ آپ کسی بھی رمضان بازار میں میرے ساتھ اچانک چلے چلیں اور مجھے کوئی ایک ایسی چیز دِکھا دیں جو بازار کے مقابلے میں سستی نہ ہو۔ سبزیوں سے لے کر چینی، چاول، گھی، آئل اور آٹا سبھی کچھ بازار کے مقابلے میں سستا دستیاب ہے۔ البتہ بے تحاشا اور ایک حد سے زیادہ خریداری پر ضرور پابندی لگائی گئی ہے تاکہ دکاندار حضرات اس رمضان بازار کو اپنی خریداری کا مرکز نہ بنا لیں اور روزہ دار غریب عوام اس سہولت سے محروم نہ ہو جائیں۔ رمضان بازاروں میں شور مچانے والے وہی لوگ ہیں جنہیں ایک حد سے زیادہ خریداری پر انکار کیا جا رہا ہے جبکہ غریب اور محنت کش طبقے کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے کیونکہ وہ ہفتے دس دن کا اکٹھا راشن خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتا ہے۔ اکٹھا خریدنے والے غیر مستحق یا دکاندار حضرات ہی ہو سکتے ہیں۔ ہم نے رمضان بازاروں کے انتظامات پر غیر ضروری اخراجات کرنے کے بجائے وہی رقم عوام کو اضافی ریلیف کی صورت میں لوٹا دی ہے۔