بم برآمدگی کے بعد عدالتی کٹہرے میں کھڑے اُستاد دامن کو جب اپنی صفائی میں بولنے کا موقع دیا گیا تو وہ صرف اتنا ہی کہہ پائے کہ ''جس نے مجھے یہاں لا کھڑا کیا ہے کل وہ اسی جگہ خود کھڑا ہو گا‘‘۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اُستاد دامن کے زبان و بیان سے کس قدر تنگ اور نالاں رہتے تھے۔ اپنی گرفتاری کے بعد اُستاد دامن نے صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے ایک خوبصورت شعر کہا تھاجس کا مفہوم یہ ہے کہ استاد دامن کے گھر سے بم برآمد کرایا گیا ہے۔
سیاسی مخالفین کو انتقام اور عناد کی بھٹی میں جلانے کے لیے متنازعہ قوانین اور طاقت کے استعمال کا رواج ہر دور میں عام رہا ہے۔ ایوبی دور میں ''ایبڈو‘‘ (Elected Bodies Disqualification Ordinance) کے تحت درجنوں سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر ان کی سیاست پر تاحیات پابندی لگائی جاتی رہی ہے۔ انہیں متاثرہ سیاستدانوں میں عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین بھی شامل تھے‘ جبکہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایوب کھوڑو بھی اسی قانون کا نشانہ بن کر نااہل قرار پائے‘ جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو موافق حالات اور صاف میدان میسر آ سکا۔ اسی طرح چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ بھی وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا اور تاحال ناقابلِ فہم نمونہ ہے۔
''ایبڈو‘‘ قوانین کی زد میں آنے والے سیاستدانوں پر الزام کچھ اسی طرح کے تھے۔ ان میں ملکی سالمیت اور استحکام سے متصادم سرگرمیاں، انتشار اور انارکی پھیلانا‘ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا وغیرہ وغیرہ‘ قابلِ ذکر ہیں۔ حکومتِ وقت کے خلاف بولنا یا اس کے طرزِ حکومت میں تنقید کرنا مذکورہ الزامات کو دعوت دینے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔ ادھر کسی نے لب کشائی کی اُدھر اس پر ''ایبڈو‘‘ قانون لگا کر نااہل اور قابلِ گرفت قرار دے دیا جاتا تھا۔ اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نہ ''ایبڈو‘‘ کا قانون رہا اور نہ ہی یہ قانون بنانے والے۔
اسی طرح ضیاء الحق کا دور کیا آیا ملک پر افتاد آن پڑی... نظامِ مصطفی کے نام پر اقتدار کو طول اور استحکام دینے کے لیے جو جھانسے اور حربے آزمائے گئے‘ وہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ کیا سیاست، کیا صحافت، سبھی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ سیاسی کارکنوں پر کوڑے برسانا اور قلعہ بند کر دینا اس دور میں حکمرانوں کا محبوب مشغلہ رہا۔ صحافت پر سنسر کی کڑی پابندیاں تو تھیں ہی صحافیوں کی کثیر تعداد کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ سید عباس اطہر، حسین نقی، خالد چوہدری اور خاور نعیم ہاشمی سمیت کئی صحافیوں کو شاہی قلعہ میں زیرِ عتاب رکھا گیا۔ کراچی سے خیبر تک منہاج برنا، احفاظ الرحمن، عبدالحمید چھاپڑا اور نثار عثمانی سمیت کارکن صحافیوں کی طویل فہرست ریکارڈ کا حصہ ہے‘ جنہوں نے آمریت کے آہنی شکنجے میں زندگی کا مشکل ترین اور اذیت ناک وقت گزارا‘ جبکہ برادرِ محترم حسن نثار کو انہی حالات کے پیشِ نظر جلا وطنی اختیار کرکے طویل عرصے کے لیے وطن سے دور جانا پڑا۔
میاں نواز شریف نے سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھنے کی پالیسی کو ہمیشہ ہی اپنائے رکھا۔ انسدادِ دہشت گردی کا قانون ہو یا احتساب بیورو، سبھی ادارے سیاسی مخالفین کی تاک میں لگائے رکھے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ لاہور کے علاقے مزنگ چونگی کے قریب واقع کچھ ممنوعہ ادویات کے حوالے سے مشہور میڈیکل سٹور کس کا تھا اور یہ میڈیکل سٹور آئے روز سربمہر کیوں کر دیا جاتا تھا؟ قارئین کے علم میں اضافے کے لیے عرض کرتا چلوں کہ یہ میڈیکل سٹور نواز شریف کے انتہائی قریبی اور احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمن کے والدِ گرامی کا ہوا کرتا تھا۔ انہی سیف الرحمن نے نواز شریف کے حریفوں کو برباد کرنے کے لیے کون سا حربہ اور ہتھ کنڈا نہیں آزمایا؟
نواز شریف اپنے مخالفین کو ہر صورت سرنگوں اور معتوب دیکھنا پسند کرتے تھے۔ اس منتقم مزاجی میں تکبر کی جھلک بھی نظر آیا کرتی تھی۔ آصف علی زرداری اور انگریزی اخبار ''فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کے مالک و ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی پر بنائے گئے منشیات کے کیسوں کا پسِ منظر اور قانونی حیثیت کون نہیں جانتا؟ اسی طرح زرداری کے خلاف 35 من کپاس کی چوری کا الزام بھی نواز شریف اینڈ کمپنی کا ہی کریڈٹ ہے۔ بے نظیر دور میں بے باک اور بازاری زبان استعمال کرنے پر شیخ رشید کو طویل عرصہ پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ شریف برادران کے خلاف مقدمات اور انتقامی کارروائیاں بھی برابر جاری رہیں۔ کردار کشی سے لے کر ایک دوسرے کو غدار تک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ یہ تو نمونے کے چند قابلِ ذکر کیسز بتا رہا ہوں‘ اگر ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کے انتقامی جذبے کے تحت کیے گئے اقدامات کی تفصیل میں جاؤ تو ایسے کئی کالم بھی کم پڑ جائیں گے۔
نواز شریف اور شہباز شریف تو عناد میں اس حد تک بڑھ جایا کرتے تھے کہ اکثر سرکاری افسر ان کے انتقامی جذبے کی آگ میں جھلس کر رہ گئے۔ اکثر افسران کا انہوں نے کیریئر برباد کرنے سے بھی گزیز نہیں کیا۔ سیاسی حریف کے دورِ اقتدار میں جن افسران نے کارِ سرکار انجام دئیے‘ ان سبھی کے نام شریف برادران نے بلیک لسٹ میں ڈالے رکھے اور جب جب برسرِ اقتدار آئے ان تمام سرکاری افسران کو عتاب اور عناد کا نشانہ بنائے رکھا۔ مشرف دور میں اہداف کے حصول کے لیے طریقہ کار تھوڑا تبدیل کیا گیا۔ مخالفت اور مزاحمت کرنے والوں کو تائب کرنے پر زیادہ زور دیا گیا۔ کیسز، فائلیںکھول کر اور کمزوریوں سے ڈرا دھمکا کر اکثریت کو ساتھ ملا لیا گیا اور انکار کرنے والوں کو کئی طریقوں سے خوار کیا گیا۔ اس خواری میں مقدمات اور قیدوبند کی صعوبتیں بھی شامل تھیں۔
اس طرزِ حکمرانی اور انتقامی سیاست کے خلاف آصف علی زرداری نے پہلا بند باندھا اور یہ کریڈٹ بھی انہیں کو جاتا ہے کہ اِن کے دورِ حکومت میں کسی کو سیاسی انتقام یا عتاب کا نشانہ نہیں بنایا گیا، کسی پر جھوٹا مقدمہ نہیں قائم کیا گیا اور یہی کوشش کی گئی کہ معاملات کا پہیہ کسی نہ کسی طرح رواں دواں ہی رہے۔ کسی موڑ یا مقام پر اس پر جمود طاری نہ ہونے پائے۔ زرداری کی اسی حکمتِ عملی اور طرزِ حکمرانی کی وجہ سے انہیں مفاہمت کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔
اَب چلتے ہیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رُکن قومی اسمبلی رانا ثناء اﷲ کی طرف جن کی گاڑی سے اینٹی نارکوٹکس فورس نے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کی ہے۔ رانا ثناء اﷲ کے بدترین مخالف اور جانی دشمن اُن پر سنگین سے سنگین الزام لگاتے رہے ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر دم رانا ثناء اﷲ کی تاک میں رہنے والے سیاسی حریف اور جانی دشمن اُن کے اتنے بڑے راز سے بے خبر ہی رہے اور یہ راز اینٹی نارکوٹکس فورس نے پا لیا اور انہیں سرعام دھر بھی لیا۔ اتنا بڑا منشیات کا سمگلر پکڑا گیا اور ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ... تعجب ہے؟ رانا ثناء اﷲ پر بنائے گئے منشیات کے اس کیس کا اونٹ آگے چل کر کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ یہ سبھی دیکھ لیں گے‘ لیکن ایک بات رانا ثناء اﷲ کے حق میں ضرور جاتی ہے کہ اُن کے بدترین مخالفین اور حریفوں کی طرف سے لگائے گئے قتل اور دیگر سنگین الزامات دھندلا کر رہ گئے ہیں اور ان الزامات کی صداقت مشکوک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ گویا مذکورہ الزامات رانا ثناء اﷲ کی گرفتاری کے لیے ناکافی تھے۔ یہ اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہوتا چلا رہا ہے کہ حکومتی چیمپئنز رانا ثناء اﷲ کے خلاف ہیں یا اُن کے حق میں کام کر رہے ہیں۔
یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے 4 مارچ کو جھوٹی گواہی کے خاتمے کا دن قرار دے کر کہا تھا کہ آج سے سچ کا سفر شروع ہو گا‘ جھوٹی گواہی پر سزا ملے گی‘ اب جھوٹ نہیں چلے گا‘ انصاف چاہیے تو سچ بولنا پڑے گا‘ ہم نے پہلے ہی 72 سال ضائع کر دئیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جھوٹے گواہوں نے نظامِ عدل تباہ کرکے رکھ دیا ہے‘ جھوٹی گواہی یا جھوٹا استغاثہ‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر ہی رہتا ہے۔ ماضی میں سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے جھوٹے مقدمات کا حشرنشر اور نتائج مقدمات بنانے والوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ماضی کے ان تمام مقدمات کا پورا سچ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ آج کے مقدمات کا سچ کل ضرور سامنے آ کر رہے گا ؎
جیسی کرنی ویسی بھرنی
نہ مانے تو کر کے دیکھ