ملک بھر میں حالیہ بجٹ کے خلاف ہڑتال کے دوران تاجر کہیں بٹ گئے تو کہیں ڈٹے رہے... اکثر شہروں میں مکمل شٹرڈاؤن رہا تو کئی شہروں میں جزوی طور پر کاروباری ادارے کھلے بھی رہے۔ اس ہڑتال کا اصل مقصد حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اضافی ٹیکسوں کے خلاف مزاحمت اور طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ شٹرپاور کا استعمال ہماری سیاسی روایت اور تاریخ کا حصہ ہے۔ ہر دور میں تاجروں کو ڈھال بنا کر اقتصادی پالیسیوں اور ٹیکسوں پر سیاست ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ رہا ہے۔ پچاس ہزار‘ لاکھ روپے کا تنخواہ دار تو ٹیکس دے سکتا ہے‘ لیکن کاروبار کرنے والا تاجر ٹیکس دینے سے کیوں خائف ہے؟
حکومت معیشت کو دستاویزی کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے جبکہ تاجر برادری حکومتی پالیسیوں‘ اقتصادی صورتحال اور معاشی تقاضوں کو سمجھنے سے انکاری نظر آتی ہے۔ آئیے شٹرپاور کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی گئی تحریک میں شٹرپاور کا بھی اپنا کردار تھا۔ اُن دنوں لاہور شہر میں گنتی کی چند بڑی مارکیٹیں ہوا کرتی تھیں۔ نیلا گنبد سے شروع ہونے والی اس تحریک میں تاجروں نے شٹرڈاؤن کرکے اُس وقت بھی حکومت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ اُن دنوں انارکلی بازار کے صدر خواجہ صادق ہوا کرتے تھے‘ اُن کی دکان کا نام شملہ کلاتھ ہاؤس تھا اور وہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحب کے والد تھے۔ یہ چیف جسٹس بطور ''پریکٹسنگ لائر‘‘ شریف خاندان کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تو نیشنلائزیشن کے متاثرہ طبقے کے نمائندہ کی حیثیت سے نواز شریف جنرل غلام جیلانی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے نتیجے میں انہیں پنجاب کا وزیر خزانہ اور وزیر ایکسائز بنایا گیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جب نواز شریف وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اس تاثر کو بخوبی اجاگر کیا کہ پہلی بار تاجر برادری کا نمائندہ اس منصب پر پہنچا ہے۔ اسی دور میں وزیر اعظم محمدخان جونیجو کی کابینہ کے وزیر خزانہ یاسین وٹو نے جب بجٹ پیش کیا تو پنجاب خصوصاً لاہور کے تاجروں کی طرف سے پہلی بار مزاحمت کا مظاہرہ کیا گیا۔
1988ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو انہیں بھی شٹرپاور کی اسی مزاحمت کا سامنا رہا‘ جس کے نتیجے میں بے نظیر نے ایک دکان اور ایک مکان کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا۔ 1990ء میں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے اور انہوں نے سیلز ٹیکس لگایا تو یہی تاجر اور نواز شریف کی شٹرپاور ‘احتجاج پر اُتر آئی۔ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گئے۔ اس مزاحمت پر ڈٹ جانے والے تاجروں کو مقدمات اور ریاستی جبر کا بھی سامنا کرنا پڑا جبکہ مجموعی طو رپر اُس وقت کے تاجر رہنماؤں نے حکومت کی بھرپور سہولت کاری کے ساتھ ساتھ احتجاج پر آمادہ تاجر برادری کی حوصلہ شکنی میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔
1993ء میں بے نظیر کی حکومت دوبارہ آئی اور وہ وزیراعظم بنیں تو نواز شریف نے حکومت کے خلاف محاذ بنائے رکھا اور 1994ء حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلائی‘ جسے تحریکِ نجات کا نام دیا۔ اس بار بھی شٹرپاور کا بھرپور استعمال کیا گیا اور بے نظیر بھٹو کو اس حوالے سے سخت مزاحمت کا سامنا رہا۔ 1996ء میں فاروق لغاری نے بطورِ صدر بے نظیر حکومت برطرف کر دی اور 1997ء میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے۔ 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف نے فارن کرنسی اکاؤنٹس اور بینکوں کے لاکرز سربمہر کر کے قرض اُتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگایا اور عوام سے اپیل کی کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے اور ہم کشکول توڑ کر خو دانحصاری کی پالیسی اپنانے جا رہے ہیں‘ جس کے لیے عوام دِل کھول کر چندہ دیں تاکہ ملکی قرضہ اتارا جا سکے۔ قرض اُتارو ملک سنوارو تحریک میں بھی شامت تاجروں کی آئی اور شٹرپاور نے بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں مالی حصہ ڈالا۔ قرض اتارنے کیلئے کتنی دولت اکٹھی ہوئی‘ اس کا آج تک نہ کوئی حساب سامنے آیا اور نہ ہی کوئی سراغ لگ سکا۔ حکمرانوں نے قرض تو خیر کیا اُتارنا تھا ''سنوارنے والے... خود کو سنوار گئے‘‘اور ایسا سنورے کہ پھر سنورنے کے ساتھ ساتھ نکھرتے ہی چلے گئے۔ اس کے بعد نواز شریف نے جی ایس ٹی لگایا تو ٹیکس چوری‘ منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری کے عادی تاجر اس وقت نواز شریف کے سامنے سراپا احتجاج بن گئے۔ نواز شریف نے بالآخر جیسے تیسے انہیں راضی کر ہی لیا۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو چلتا کیا‘ اور خود برسرِ اقتدار آئے تو یہ شٹرپاور جی ایس ٹی کے معاملے پر حکومت کے سامنے ڈٹ گئی۔ مزاحمت اور ہڑتا ل کی روایت کو جاری رکھا گیا بالآخر ریاستی مشینری حرکت میں آئی اور شٹرپاور کے متوازی قومی تاجر اتحاد تشکیل دیا گیا۔ اس اتحاد کو کامیاب کرنے کیلئے کھلی چھٹی دی گئی‘ جس کے نتیجے میں قومی تاجر اتحاد کے جھنڈے تلے غیر قانونی تعمیرات‘ سرکاری اراضی پر مارکیٹیں‘ پلازے‘ جائز ناجائز پارکنگ سٹینڈ‘ تجاوزات کی آمدنی‘ دھونس اور دھاندلی سمیت سبھی کچھ انتہائی دیدہ دلیری سے چلتا رہا۔ 2002ء میں (ق)لیگ کی حکومت بنی تو پرویز الٰہی نے بھی اپنا مینڈیٹ اور اعتماد قومی تاجر اتحا دکے پلڑے میں ڈال دیا۔ اسکے بعد یہ تاجر رہنما شجرِ ممنوعہ بنتے چلے گئے اور ان کی رسائی اعلیٰ حکام اور حکمرانوں تک جا پہنچی۔
2008ء میں مشرف کی رخصتی ہوئی اور وفاق میں پیپلز پارٹی جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت بنی تو انہی تاجر رہنماؤں کی غیر معمولی اور ہوشربا ترقی گلے کی ہڈی بن گئی اور ان سب کو گھٹنے ٹیک کر اپنی شٹرپاور سمیت حکومتِ وقت کی اطاعت کرنا پڑی۔ انہی مختلف ادوار میں کوئی تاجر رہنما شٹرپاور کے زور پر ارکانِ اسمبلی‘ مشیر‘ وزیر بنتے رہے جبکہ اکثر نے ارکانِ اسمبلی‘ وزرا اور حکمرانوں کے قریبی لوگوں کو قابو کیے رکھا۔ سیلاب زدگان کی بحالی ہو یا زلزلہ کی آفت‘ قرض اُتارو ملک سنوارو تحریک ہو یا نااہلی کے بعد نواز شریف کی بذریعہ جی ٹی روڈ آمد کے انتظامات اور استقبال... ان سبھی مواقع پر یہی تاجر ووٹ کے ساتھ ساتھ نوٹ بھی دیتے رہے۔
اکثر قابلِ ذکر ارکانِ اسمبلی اور وزرا نے تاجر رہنماؤں کو بطور انجن ساتھ لگائے رکھا۔ وہ ان سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ضروریات‘ ذوق و شوق اور تام جھام کا خیال رکھتے ہیں جس کے عوض یہ رہنما شٹرپاور کے اَن داتا بن کر سرکاری مراعات پر ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ من مانیوں کا بھی ریکارڈ توڑتے دِکھائی دیتے ہیں۔ مال روڈ سے ملحقہ بڑی مارکیٹ میں غیر قانونی تعمیرات‘ سرکاری اراضی پر پلازے جبکہ والڈ سٹی کے اندر تنگ و تاریک گلیوں پر دکانیں اور مختصر ترین جگہ پر جان لیوا تہہ خانوں اور کثیر منزلہ پلازوں کی بھرمار اسی سہولت کاری کا نتیجہ ہے۔ اعظم کلاتھ مارکیٹ اور اس سے ملحقہ دیگر تمام اہم مارکیٹوں میں کوئی ایک ایسا پلازہ نہیں جو قواعد و ضوابط کے عین مطابق بنایا گیا ہو۔ پلازوں‘ عمارتوں اور اندرون شہر تہہ خانہ بنانے کی پابندی کے باوجود کثیر منزلہ تیار شدہ پلازوں میں تہہ خانے بنائے گئے اور ان تہہ خانوں کی تعمیر کے دوران درجنوں مزدور‘ محنت کش اور راہ گیر ہوسِ زَرّ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ کچھ مارکیٹوںکو ناجائز تعمیرات اور قبضوں نے بھول بھلیاں بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ شیر خوار بچوں کے دودھ سے لے کر سربمہر مشروبات‘ بسکٹ ‘ چاکلیٹ سمیت دیگر زائد المیعاد اشیائے خورونوش پر نئی تاریخ پرنٹ کر کے انتہائی سفاکی اور ڈھٹائی سے انسانی جانوں سے کھیلنا ان کا ذریعۂ معاش ہے۔ اسی طرح ادویات کی پیکنگ‘ پرنٹنگ اور تیاری سے لے کر خریدوفروخت تک سبھی کچھ جاری و ساری ہے۔ (جاری)