جنازوں پر پھول تو سبھی نے دیکھے ہیں۔ چند گھنٹے پہلے ایک پھول کے جنازے سے لوٹا ہوں۔ اس پھول کا نام علینہ تھا۔ علینہ میرے بچپن میں ساتھ کھیلے خالہ زاد کاشف آفتاب کی انتہائی ہونہار اور پیاری بچی کا نام تھا۔ چند ماہ قبل ایک منحوس اور دہلا دینے والی خبر بھونچال بن کر آئی اور اس نے ان کے گھر کے سکون کو تہ و بالا کر ڈالا۔گویا نظر کھا گئی یا قسمت ہی ہار گئی۔ یہ خبر کچھ یوں تھی کہ پندرہ سالہ علینہ کو پھیپھڑوں کا کینسر ہے۔ تشخیص ہونے تک یہ جان لیوا موذی مرض اپنی تباہ کاریوں کی آخری حدود کو پہنچ چکا تھا۔ اس موذی سرطان کا ماں باپ کا چٹان جیسا حوصلہ بس چند ماہ ہی مقابلہ کر پایا۔ بچی کی کونسلنگ کرنے کے بعد کاشف اور اس کی بیوی نعمانہ کسی معجزے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ بڑے سے بڑے کنسلٹنٹ سے لے کر دَم درود تک سبھی کے در پہ در بدر ہوتے رہے‘ لیکن مسیحائی کا کوئی حربہ کارگر نہ ہو سکا۔
اس دوران مسیحائی کے درجے پر براجمان کئی کرداروں کی کوتاہی، غفلت اور ڈھٹائی سے لے کر سفاکی تک سبھی کچھ برداشت کرنے والی اس پھول سی معصوم بچی کے سارے قرض اُن چارہ گروں پر آج بھی واجب الادا ہیں۔ سماج سیوک کینسر ہسپتال میں علاج تو درکنار تسلی اور تشفی کے دو بول بھی نہ مل سکے۔ اسی طرح صبح سے لے کر رات تک اور رات سے لے کر اگلی صبح تک ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال اور دوسرے سے تیسرے ہسپتال بچی کو لے کر پھرنے والے ماں باپ آخری دم تک اسی موذی سرطان سے لڑتے مرتے رہے۔ بالآخر نہ کوئی دوا کارگر ہوئی‘ نہ ہی کوئی مُراد برآ سکی۔
معصوم علینہ لمحہ لمحہ اپنی موت کی آہٹ سنتی رہی اور قطرہ قطرہ محسوس کرتی رہی۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے سامنے درد اور تکلیف سے کراہنے کے بجائے اُسے چھپانے اور مسکرانے کی اداکاری کی وہ ماہر ہو چکی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی اذیت میں اضافے کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔ گویا انہیں تسلی دے رہی ہو۔ وہ اُن کی آس اور اُمید ٹوٹنے سے بچاتے بچاتے خود اندر سے کتنا ٹوٹ چکی تھی یہ وہی جانتی ہے یا اس کا رب جانتا ہے۔ موت کی بدصورتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ پورا خاندان اس کے قدموں کی چاپ پر کان لگائے بیٹھا ہو‘ اس کی ہر آہٹ پر، لمحہ لمحہ مرتا اور ریزہ ریزہ بکھرتا رہے اور اس پر ستم یہ کہ اپنی بے بسی کا ماتم بھی کھل کر نہ کر سکتا ہو۔ راتوں کو اس معصوم بچی کی نظروں سے بچ کر اﷲ سے گڑگڑا کر التجائیں کرتے اور رحم مانگتے ماں باپ بس یہی کہہ سکتے تھے: اے پروردگار! رحم... رحم... رحم... ہم تیری اس آزمائش کے قابل نہیں... لیکن حکم رَبیّ کے آگے سب تدبیریں اور ترکیبیں بے معنی ہوتی چلی گئیں۔
تیس سالہ صحافتی زندگی میں بم دھماکوں سے لے کر سیلاب تک اور زلزلوں سے لے کر دیگر قدرتی آفات تک‘ قتل و غارت سے لے کر حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی دردناک اموات تک کے بہت سے مناظر میرے مشاہدات اور یادداشت کا آج بھی حصہ ہیں‘ لیکن صرف دو چار ماہ کے قلیل عرصے میں سرطان کا آسیب کب اور کیسے اس گھر میں داخل ہوا اور کب اپنا شکار لے کر چلتا بنا... دیکھنے والے اور روکنے والے بس ہاتھ ہی ملتے رہ گئے۔ کاشف آفتاب جن ہاتھوں سے درد و تکلیف میں کراہتی علینہ کے آنسو پونچھتا تھا‘ آج انہیں ہاتھوں سے اس پھول سی بچی پر منوں مٹی ڈال آیا ہے۔
کوئی روکے کہیں دستِ اَجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
جنازے کے بعد دلاسے اور غمگساری کی غرض سے جب کاشف آفتاب کو گلے لگایا تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی دیوار سے چپک گیا ہوں۔ اپنی بچی کی جان لیوا بیماری سے موت تک لڑتے لڑتے وہ اتنا ٹوٹ گیا تھا کہ بالآخر پتھر کا بت بن گیا۔ کاشف سے گلے لگ کر علیحدہ ہوا تو یوں لگا کہ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہو کہ:
تمہارے غم کی نسبت سے
میرے نم کا تناسب کیا
نہیں میں رو نہیں سکتا
یقیں جس روز آئے گا
میں اس روز رو لوں گا
اور اتنا کھل کے روؤں گا
کہ دل کو صبر آ جائے
ابھی تو گر خیالوں میں
تمہاری قبر آ جائے تو سناٹا سسکتا ہے
نہیں میں رو نہیں سکتا
مجھے دنیا بھرے دن میں
کہاں تم یاد آؤ گی
میں خوابوں میں لپٹ کر
تم سے رو لوں گا
مگر میں خواب کیا دیکھوں
میں اپنی نیند کے پہلو میں جا کر
سو نہیں سکتا!
نہیں میں رو نہیں سکتا
ذرا سے آنکھ کے نم میں
تمہارا غم بہا ڈالوں
تو رونا بھی روا ہو گا
یہ رستے چشمِ چشمہ بن کے
پھوٹیں بھی تو کیا ہو
کہ عکس ماہ دریا کا
سمندر دھو نہیں سکتا
نہیں میں رو نہیں سکتا
پچھلے ہی ہفتے میٹرک کا رزلٹ آیا تو بسترِ مرگ پر لیٹی علینہ کے انتہائی شاندار نمبر آئے کہ لاہور کے بہترین کالجوں کے پراسپکٹس لائے گئے اور یہ معصوم ایک بار پھر جی اٹھی کہ وہ صحت یاب ہوکر کالج جائے گی۔ اپنی سہیلیوں اور ہمجولیوں کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر دوبارہ شروع کرے گی لیکن وہ تو کسی اور منزل کی مسافر تھی‘ اپنی ہمجولیوں اور سہیلیوں کے ساتھ کالج جانے کی بجائے انہیں روتا اور تڑپتا چھوڑ کر چلی گئی۔ سفرِ آخرت شروع ہونے سے قبل جب کاشف نے کفن میں لپٹی علینہ کے ماتھے کا بوسہ لیا تو یوں لگا گویا کہہ رہی ہو کہ بابا میرا سفر تیار ہے: ؎
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو
تتلیوں کے، جگنوؤں کے
دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاںآواز دیتی ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
ماں باپ جیسی عزیز از جان ہستیوں سمیت کیسی کیسی ناگزیر صورتیں خواب و خیال بن کہ رہ گئی ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں ساتھ چھوڑ جانے والے عدیل احمد سے لے کر چند سال قبل بچھڑنے والے اعجاز غوری تک، سید عباس اطہر سے لے کر منو بھائی تک، سید انور قدوائی سے لے کر شفیق مرزا تک، پرویز حمید سے لے کر عزیز مظہر تک، ریاض بٹالوی سے لے کر تنویر عباس نقوی تک، ثمر عباس زیدی سے لے کر رومان احسان تک، شیخ رؤف سے لے کر سہیل جاوید تک، معین احمد سے لے کر آصف علی پوتا تک، اکبر عادل سے لے کر شیخ ریاض بابر تک بے شمار ہستیاں چشم تصور میں شب و روز ساتھ ہی لیے پھرتا ہوں۔ والدین سمیت اکثر احباب سے تو گپ شپ بھی رہتی ہے۔ نیند کو آدھی موت کہا جاتا ہے اور رات کو جب بھی اس آدھی موت کے لیے بستر پر جاتا ہوں تو بچھڑنے والوں کی یادوں اور باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آدھی موت سے تادیر دور کیے رکھتا ہے۔ ماں باپ، اساتذہ، عزیز و اقارب، دوست احباب کو چشم تصور میں اپنے اردگرد محسوس کرنا اور ان سبھی کے لیے دعائے مغفرت روز کا معمول ہے؎
اُن کو جاتے بھی ہم نے دیکھا ہے
جن کے جانے سے جان جاتی تھی