چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی اور پسپائی کے بعد اپوزیشن تلملائی اور بوکھلائی بوکھلائی پھر رہی ہے۔ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے خلاف ووٹ دینے والے اپنے ہی سینیٹرز کو میر صادق‘ میر جعفر‘ ضمیر فروش اور نہ جانے کیا کیا قرار دے چکی ہے۔ سارے اتحادی اپنی اپنی پارٹی میں میر صادق اور میر جعفر تلاش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے یہ اہم ترین ٹاسک اپنے سینیٹر رانا مقبول احمد کو سونپا ہے۔ وہ تفتیش کریں گے کہ سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کے خلاف ووٹ ڈالنے والے کون کون ہیں۔ رانا مقبول احمد جانے مانے اعلیٰ پولیس افسر رہے ہیں۔ وہ بہترین تفتیش کار کے طور پر بھی معروف ہیں۔ شاید اسی وجہ سے انہیں یہ ٹاسک سونپا گیا ہے۔ شریف برادران تو ان کی تفتیشی مہارت‘ وفاداری اور جاں نثاری کے عرصے سے قائل ہیں۔ آئیے میر صادق اور ضمیر فروشوں کو ڈھونڈ نکالنے کا بیڑا اٹھانے والے ان صاحب کے پس منظر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
واقفانِ حال کو بخوبی یاد ہو گا کہ 1991ء میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کے معروف علاقہ اسلام پورہ میں سیٹھ اسماعیل کے خاندان کے تیرہ افراد کو پراسرار طور پر قتل کردیا گیا تھا۔ اٹھائیس برس قبل ہونے والی اس لرزہ خیز واردات نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ماہرین کا خیال تھا کہ یقینا کوئی ایسا گینگ ہے جو شہر میں دہشت پھیلا رہا ہے‘ کیونکہ انہی دنوں سڑکوں‘ پارکوں اور گرین بیلٹوں پر کھلے آسمان تلے سونے والے محنت کشوں کو سر کچل کر مارنے کے واقعات بھی تواتر سے رونما ہو رہے تھے۔ ان دنوں لاہور پولیس کے سربراہ (ایس ایس پی) اپنے یہی رانا مقبول احمد تھے۔ ظاہر ہے انہوں نے معاملات کو کنٹرول کرنے کی مناسب کوشش کی ہو گی۔ بہرحال رانا صاحب بعد ازاں ترقی کرکے ڈی آئی جی لاہور رینج کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو رانا مقبول احمد کو خصوصی ٹاسک دے کر آئی جی سندھ بنایا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری پر دوران اسیری مبینہ تشدد کا واقعہ بھی انہی سے منسوب ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف کی گرفتاری کے حکم نامے کی تعمیل کے لیے بحیثیت آئی جی سندھ وہ انتہائی پھرتی سے نکل کھڑے ہوئے تھے‘ اور نتیجتاً اپنے قائدین سمیت پکڑے بھی گئے تھے۔ شریف برادران سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر ہی مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر آج وہ سینیٹر ہیں اور انہیں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہونے کا سبب بننے والے سینیٹرز کا پتہ چلانے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔ پارٹی پالیسی سے غداری اور بغاوت کرنے والے سینیٹرز کو بے نقاب کرنے کا ٹاسک قبول کرنے والے رانا مقبول صاحب اگر آج بھی پولیس کے محکمہ میں ہوتے تو شاید چودہ کے بجائے اٹھائیس نام منظر عام پر لا کر اپنے قائدین سے شاباش لیتے‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ اب سینیٹر ہیں‘ وہ بھی حالات کی ماری اپوزیشن کے۔ ایسے میں وہ کیا کر پائیں گے اور کیا نہیں کر پائیں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے قائدین کو کس طرح مطمئن کرتے ہیں۔ اپوزیشن کی صفوں میں ضمیر فروش‘ میر صادق اور میر جعفر تلاش کرنا ایسا ہی ہے‘ جیسے بھوسے میں سے سوئی تلاش کرنا‘ خاص طور پر اس وقت جب معاملہ یہ ہو کہ ''چور بھی کہے چور چور‘‘۔
اپنے والد کی سہولت کاری کے نتیجے میں چیئرمین سینیٹ بننے والے صادق سنجرانی صاحب کو کل تک مٹھائی کھلانے والے آج تحریک عدم اعتماد کی ناکامی پر کیوں اتنا تلملا رہے ہیں؟ میر صادق اور میر جعفر تلاش کرنے والے اپوزیشن کے رہنمائوں کو کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ عوام سے ووٹ لینے کے لیے دعووں اور وعدوں سے لے کر اور ملک و قوم سے وفاداری کے حلف سے لے کر آئین کی پاسداری کے عہد تک ان سب نے کون سا قول نبھایا‘ کون سا وعدہ پورا کیا؟ ماسوائے جھانسوں اور اور نام نہاد دلاسوں کے عوام کو دیا ہی کیا ہے؟ کئی دہائیوں سے عوام کو دھوکے پہ دھوکہ دینے والے آج اپنے ہی سینیٹرز سے دھوکہ کھا کر کیوں چکرا گئے ہیں؟ ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا ہے جو یہ ہمیشہ سے عوام کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں‘ اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ نہ مانے تو کر کے دیکھ۔
کراچی کے عوام بارشوں کے بعد محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ درجنوں لوگ کرنٹ لگنے سے ناحق مارے گئے‘ جبکہ کروڑ ہا روپے کا مالی نقصان بھی عوام کا ہی ہوا ہے۔ میری نظر میں کراچی کی صورت حال کا ذمہ دار بھی وہی ہے جو گزرے کل میں صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے پر بغل گیر ہو کر مٹھائیاں کھلا رہا تھا اور آج اسی صادق سنجرانی کے خلاف محاذ بنائے بیٹھا ہے۔ سوال یہ ہے اور عوام کے سوچنے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کل غلط تھا یا آج؟ یہ فیصلہ اب عوام کو کرنا ہے۔ مفادات کے مارے یہ سیاست دان اور کیا بے نقاب ہوں گے‘ کتنے بے نقاب ہوں گے؟ میرے خیال میں چھانگا مانگا‘ میریٹ ہوٹل اور مری میں ارکانِ اسمبلی کو لے جا کر ہارس ٹریڈنگ کی ابتدا کرنے والوں کے منہ سے میر صادق اور میر جعفر کی باتیں اچھی نہیں لگتیں‘ جبکہ وہ خود میر جعفر اور میر صادق پلس ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی پر واویلا کرنے والوں اور ریاست کے اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانے والوں کو اب جان لینا چاہیے کہ پاک فوج وطن عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ فکری اور نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہے۔ جب جب وطن عزیز کو خطرات لاحق ہوئے تب تب وہ حرکت میں ضرور آتی ہے۔ بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ اندرونی انتشار اور عدم استحکام پر اپنی ذمہ داری اور کردار نبھانا اس کی اولین ذمہ داری کا تقاضا ہے۔ وطنِ عزیز کو ایسے لوگوں کے رحم و کرم پہ کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جنہوں نے اس کے خزانوں کو بے دریغ لوٹا اور وسائل کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا۔ سرکاری خرچ پر کنبہ پروری اور عیاشیاں کرنے والوں نے نہ تو کوئی لحاظ کیا اور نہ ہی انہیں کوئی شرم محسوس ہوئی۔ ایسے میں انہیں کوئی تو روکنے ٹوکنے والا ہو۔
رہی با ت مولانا فضل الرحمان صاحب کی اور سینیٹ میں رائے شماری سے پہلے ان سے حکومتی رابطے کی تو اس بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے پس منظر میں کیا مقصد کارفرما تھا اور مولانا نے اس کا کیا رسپانس دیا؟ اس حوالے سے مستقبل میں مولانا کا طرزِ سیاست اور طرزِ مزاحمت غور طلب ہو گا۔ مولانا صاحب کے مؤقف میں نرمی آتی ہے یا سختی برقرار رہتی ہے‘ یہی اتار چڑھائو ان کی اصل سمت کا تعین کرے گا۔ چودہ میر صادق اور میر جعفر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں‘ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان ضمیر فروشوں‘ میر صادقوں اور میر جعفروں کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جائے‘ جنہوں نے عوام کو کئی دہائیوں سے چکر دیے رکھا ہے۔ اصل ضمیر فروش اور میر صادق وہ ہیں جو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر عوام کے ساتھ ساتھ اب ایوان کو بھی چلانا چاہتے ہیں۔
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا؟
چراغِ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ اُلجھی ہے یا اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے جب تماشاختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ شریف برادران ہوں یا زرداری اینڈ کمپنی اور مولانا فضل الرحمان صاحب‘ ان سب کے ساتھ وہی کچھ ہوا ہے جو یہ سالہا سال سے عوام کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں۔