آصف علی زرداری ناسازیٔ طبیعت کی وجہ سے ہسپتال منتقل ہو چکے ہیں... نواز شریف کئی مہینے بیماری بیماری کھیلتے رہے ہیں لیکن کچھ واضح نہ ہو سکا... شدید واویلے اور سرتوڑ کوشش کے باوجود وہ ہسپتال منتقل نہ ہو سکے۔ دل کی بیماری بھی بس نیت کی خرابی ہی نکلی۔ تعجب ہے ڈھٹائی‘ بے رحمی اور دیدہ دلیری سے ملکی دولت اور وسائل کو لوٹنے والے زیر عتاب آتے ہی بیماریوں میں کیوں گھر جاتے ہیں۔ جو ہاتھ لوٹ مار اور مار دھاڑ کرتے نہیں چوکتے جیل جاتے ہی انہی ہاتھوں پر رعشہ کیوں طاری ہو جاتا ہے۔ بے رحمی اور سنگدلی سے عوام کے پیسے پر کنبہ پروری اور سیر سپاٹے کرتے وقت تو کبھی ان کا دل نہیں ڈوبا اور نہ ہی کبھی ان پہ کوئی گھبراہٹ طاری ہوئی۔ ان کی ٹی ٹیاں (ٹیلی گرافک ٹرانسفرز)‘ بے نامی جائیدادیں‘ اکاؤنٹس اور ملکی و غیر ملکی کرنسی نوٹوں کی لانچیں بھر بھر کر نقل و حمل سمیت نا جانے کیا کچھ سامنے آ چکا ہے۔ یہ سبھی کچھ کرتے وقت نہ کبھی ان کے ہاتھ کانپے‘ نہ قدم ڈگمگائے‘ نہ کبھی ان کا دل گھبرایا اور نہ ہی کبھی ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ طبیعت خراب بھی کیسے ہوتی؟ اس وقت تو نیت کی خرابی ہی ساری خرابیوں پر بھاری پڑ چکی تھی۔
نواز شریف صاحب نے جس سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی وہ دور مکمل طور پر ''چمک اور مک مکا‘‘ کا دور تھا۔ اسی دور میں یہ تاثر پختہ ہوا اور رواج فروغ پایا کہ ہرشخص کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے۔ وہ بھلے کسی بھی قد کاٹھ کا مالک اور کسی بھی منصب پر فائز ہو۔ کوئی اصولوں پر سودے بازی پر آمادہ نہیں ہوا تو اسے بے اصولی پر راضی کر لیا گیا۔ ہارس ٹریڈنگ سے لے کر بیوروکریسی سمیت دیگر اہم اداروں میں منظورِ نظر اور بہترین سہولت کاروں کی ایسی فوج تیار کی گئی جس نے ریاست کے قانون سے لے کر اخلاقی و سماجی قدروں تک کو بھی ڈھیر کر کے رکھ دیا۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں جب نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا گیا تو اسمبلی میں موجود کئی اونچے شملے اور ناقابل تردید سیاسی قد کاٹھ والے ارکان مزاحمت پر اُتر آئے کہ یہ بابو کس طرح پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہو سکتا ہے۔ اس وقت جنرل غلام جیلانی کے راستے جنرل ضیا الحق تک رسائی نہ صرف کام آئی بلکہ جنرل ضیا الحق خود لاہور آ پہنچے اور بھری اسمبلی پر واضح کر دیا کہ تمہارا وزیر اعلیٰ یہی بابو ہو گا۔ اس بابو نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی ارکانِ اسمبلی کی مزاحمت کو حمایت میں تبدیل کرنے کے لیے نت نئے طریقوں سے نوازنا شروع کر دیا۔ مالِ مفت دل بے رحم کے مصداق سرکاری وسائل اور ملکی دولت کو کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک سبھی پر بھرپور استعمال کیا گیا‘ جبکہ ذاتی کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دینے کے لیے سرکاری اداروں کو تابع کر کے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کو اپنے اوپر حلال قرار دیا گیا۔ اپنی ہی فاؤنڈری میں باؤنڈڈ ویئر ہاؤس بنوا کر کسٹم حکام کی ملی بھگت سے درآمد شدہ مال چوری کیا جاتا اور مال بنا کر پھر بینکوں اور حکومتی اداروں کی ادائیگیاں کی جاتیں یعنی سرکار کی جوتیاں اور سرکار کا ہی سر... ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا... یہ ساری مثالیں ان پر عین صادق آتی ہیں۔
1988ء میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے تو نہ صرف ان کا ہاتھ کافی رواں ہو چکا تھا بلکہ جھاکہ بھی اُتر چکا تھا۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو سیاسی رشوت‘ اقتدار کے استحکام اور سربلند کو سرنگوں کرنے کا انوکھا طریقہ ایجاد کر ڈالا۔ دور دراز علاقوں میں واقع ٹکے ٹوکری پلاٹوں کو لاہور کے پوش علاقوں میں ٹرانسفر کر کے نوازنے اور منہ بند کرنے کا وہ فارمولا دریافت کیا جو پھر رکنے میں ہی نہ آیا۔ ارکانِ اسمبلی سے لے کر کاریگر بیوروکریٹس تک‘ منظورِ نظر افراد سے لے کر سہولت کاروں تک‘ سبھی کو رَجا ڈالا۔ نواز شریف کی فیاضی اور دریا دلی کا ایک اور نمونہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ بیواؤں‘ معذوروں اور ناداروں کو پلاٹ دینے کی سکیم شروع کی گئی جو بیوہ کوٹہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس سکیم کے تحت بیواؤں کے نام پر جو بندر بانٹ کی گئی وہ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ بیواؤں اور ناداروں کے کوٹے سے جن ہستیوں کو پلاٹ دئیے گئے وہ بیش قیمت گاڑیوں پر ایل ڈی اے کے دفتر آئیں‘ انہوں نے مہنگی پوشاکیں زیب تن اور قیمتی چشمے لگا رکھے تھے۔ بیوہ کوٹہ کا دروازہ ایسا کھلا کہ پھر بند ہی نہ ہوا۔ ایل ڈی اے کی تمام بڑی سکیموں میں بیواؤں کے پلاٹوں پر کون کون قابض اور بینی فشری ہے اس کا پتہ کروانا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ نواز شریف کے اقتدار کو استحکام دلوانے میں اس اتھارٹی کے کلیدی کردار سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت سے منتقل ہونے والے نزول لینڈ کی بندر بانٹ کا اگر ریکارڈ سامنے آ جائے تو عوام اور احتسابی ادارے سارے پنامے بھول جائیں گے۔
لاہو رکے مرکزی اور مہنگے ترین کاروباری مراکز میں سرکاری اراضی اونے پونے دینے سے لے کر چند سو روپے کے عوض قیمتی جگہیں منظور نظر افراد کو الاٹ کرنے تک ایک لمبی فہرست ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقربا پروری میں ان کا ہاتھ کتنا کھلا تھا۔
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی سے لے کر سرکاری افسران تک‘ چہیتوں اور لاڈلوں سے لے کر سہولت کاروں تک‘ مقتدر اداروں سے تعلق رکھنے والوں سے لے کر قانون اور انصاف کے علم برداروں تک‘ نہ جانے کتنے پردہ نشینوں کے نام ایل ڈی اے ریکارڈ میں دفن ہیں۔ اکثر نے تو الاٹمنٹ کو خفیہ رکھنے اور بدنامی کے ڈر سے ریکارڈ بھی ادھر اُدھر کروانے سے گریز نہیں کیا۔ ریکارڈ جلانے یا غائب کروانے کی حد تک تو وہ کامیاب ہیں‘ لیکن اُن جائیدادوں‘ پلازوں اور پلاٹوں کو کیسے جھٹلائیں گے جن کے وہ خود اور ان کی آل اولاد بینی فشری ہے۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی کوئی ایسی سکیم نہیں جس میں لوٹ کھسوٹ‘ بندر بانٹ اور مار دھاڑ نہ کی گئی ہو‘ رہائشی پلاٹوں پر کمرشل سرگرمیاں اور اراضی کا طریقہ ٔ حصول تو پہلے ہی ایک اعلیٰ سطحی کمیشن غیر قانونی قرار دے چکا ہے۔ البتہ 2001ء میں بنائی جانے والی ایل ڈی اے ایونیو ون نامی سکیم کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ واحد سکیم ہے جس کی خرید و فروخت سمیت تمام امور کمپیوٹرائزڈ کیے گئے اور جس میں معاملات کو شفاف رکھتے ہوئے ماضی میں ہونے والی مار دھاڑ اور بندر بانٹ نہیں دوہرائی جا سکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی میں ہونے والی لوٹ مار اور بندر بانٹ کا سراغ لگانے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے جو صرف ایل ڈی اے پر آزادانہ کام کر سکے۔ اگر وہ کمیشن آزادانہ کام کر گیا تو بخدا یہ عوام اور احتسابی ادارے پانامے‘ بے جائیدادیں اور اکاؤنٹس بھول جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پردہ نشینوں کے نام بھی منظر عام پر آ سکیں گے جو کئی دہائیوں سے اس ملک میں شرفا اور اشرافیہ میں شمار ہوتے چلے آ رہے ہیں۔
آخر میں عرض کرتا چلوں کہ ملکی وسائل اور دولت کو سنگدلی اور بے رحمی سے لوٹنے والے اَسیروں کے کانپتے ہاتھوں اور ڈگمگاتے قدموں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ معصوم‘ بیمار اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ان کے دل کا ڈوبنا اور گھبراہٹ کسی بیماری کی نہیں بلکہ مکافاتِ عمل کی بوکھلاہٹ ہے۔ یہ جب تک اَسیر ہیں یہ بیمار بن کر ہی اسیری کاٹیں گے‘ جونہی انہیں رہائی ملے گی ان کی آنیاں جانیاں اور ضیافتوں میں اُڑائے جانے والے کھابے دیکھنے والے ہوں گے۔ اس لیے اپنی بے گناہی کا واویلا کرنے والے نواز شریف کے لیے صرف ایل ڈی اے کا وہ ریکارڈ ہی کافی ہے‘ جس میں ان کی سیاہ کاریوں کی تمام داستان دفن ہے۔