جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران کی تقریر کا ہینگ اوور جاری تھا کہ انہوں نے چین کے تازہ ترین دورے کے دوران انتہائی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کاش! وہ بھی چینی ماڈل اختیار کر کے 500 کرپٹ افراد کو جیل بھجوا سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے نظام میں مشکلات اور پیچیدگیاں ہیں‘ کرپشن کی وجہ سے سرمایہ کاری روٹھ چکی ہے‘ جبکہ چینی صدر اپنے ملک میں حکمرانی سے وابستہ 400 افراد کو کرپشن پر سزا دلوا چکے ہیں ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
کرپشن کے خلاف عمران خان کا جذبہ اور خواہش سر آنکھوں پر‘ نواز شریف اور زرداری سمیت اپوزیشن کی کئی قابلِ ذکر اور قدآور شخصیات پہلے ہی احتساب ادارے کی مہمان بن چکی ہیں۔ اب ان کے چیلوں اور حواریوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع ہو چکی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سے وابستہ ارکانِ اسمبلی بھی ریڈار پر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ان ارکانِ اسمبلی کا احتساب ادارے کے ریڈار پر آنا قطعی منطقی ہے۔ یہ وہی ارکان ہیں جو اپنی لیڈر شپ کے نقشِ قدم پر چلتے چلتے احتساب ادارے کی چوکھٹ پر آپہنچے ہیں۔
انہیں احتساب کے کنویں میں ڈبکیاںلگوانا اس لیے ضروری ہے کہ یہ سارے شکم سیری کی دھن میں اس قدر مگن رہے کہ انہیں یہ بھی ہوش نہ رہا کہ سندھ میں خشک سالی اور قحط کے نتیجے میں کتنے لوگ ہر سال لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ کتنے معصوم بچے کمسنی میں ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ادویات اور علاج معالجہ کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایڑیاں رگڑتے اور تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں سے غافل ارکان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث کتنے لوگ مارے جاتے ہیں۔ مفادِ عامہ کے فنڈز پر کنبہ پروری کرنے والے ارکانِ اسمبلی ہوں یا ان کے ''دیوتا سمّان‘‘ لیڈر، سبھی ناقابلِ معافی ہیں اور اس کارِ بد میں سبھی برابر کے شریک ہیں۔
500کرپٹ افراد کو جیل بھجوانے کے لیے بے چین وزیراعظم اگر اپنی ہی صفوں میں سے صرف پانچ دانے رضاکارانہ طور پر احتساب کیلئے پیش کر دیں تو نہ صرف اپوزیشن کے منہ بند ہو جائیں گے بلکہ یکطرفہ احتساب کے الزامات لگانے والوں کو بھی آرام آجائے گا۔ اس طرح 500کے بجائے جیل جانے والوں کی تعداد ہزاروں سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ اپوزیشن پہلے ہی واویلا کر رہی ہے کہ وزیراعظم کے اردگرد پائے جانے والے احتساب سے محض اس لیے بچے ہوئے ہیں کہ وہ ان کے قریبی تصور کیے جاتے ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف میں کرپشن آٹے میں نمک کے برابر ہے‘ جبکہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی میں لوٹ مار اور کرپشن کے انبار لگے پڑے ہیں۔
اگر آٹے میں نمک کے اس تناسب کو تسلیم کر لیا جائے اور وزیراعظم اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرپشن کے خلاف اپنی کمٹمنٹ ثابت کرنے کے لیے کرپشن کے آٹے میں شامل نمک کو احتساب کیلئے پیش کر دیں تو احتساب کے حوالے سے اُن کی نیک نیتی اورمصمم ارادے پر مہر تصدیق ثبت ہو سکتی ہے۔ احتساب ادارے کو مطلوب وزیراعظم کے اردگرد پائے جانے والوں کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے گویا نمک میں آٹا۔ وزیراعظم کی کابینہ میں شامل ایک وزیرمملکت چارارب روپے سے زائد کے نادہندہ ہیں اور متعلقہ بینک اُن سے ریکوری کے لیے تمام حربے آزما چکا ہے۔ انصاف سرکارمیں شریکِ اقتدار ہونے کے بعد کسی بینک یا کسی ادارے کی کیا مجال جو ان سے رقم نکلوا سکے۔ سٹیٹ بینک کی ڈیفالٹر لسٹ میں موصوف کا نام انصاف سرکار کے ویژن کو چار چاند لگا رہا ہے۔
ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے ذمہ دار اور لمبی دیہاڑی لگانے والے سابق وزیرصحت کے خلاف کارروائی کی منظوری کے باوجود وہ موجیں مارتے پھر رہے ہیں۔ وہ موجیں کیوں نہ ماریں‘ برسرِ اقتدار پارٹی کے جنرل سیکرٹری جو ٹھہرے۔ ادویات کو عوام کی قوتِ خرید سے باہر پہنچانے والے یہ حکومتی چیمپئن آج بھی وزیراعظم کے منظورِ نظر تصور کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور وفاقی وزیر اپنی وزارتِ اعلیٰ کا حساب نہ دے پائے تھے کہ انہیں دوبارہ وزیر بنا کر شریکِ اقتدار کر لیا گیا ہے۔قریبی مصاحبین بھی عرصہ دراز سے احتساب ادارے کے ریڈار پر ہونے کے باوجود سرکاری منصب کا دُم چھلا لگائے پھر رہے ہیں۔
وزیراعظم سیکرٹریٹ کے معاملات چلانے والے بیوروکریٹ بھی نیب کی نظروں سے چھپے بیٹھے ہیں‘ جبکہ ان پر عائد الزامات سے سبھی واقفانِ حال بخوبی واقف ہیں۔ ان حالات میں وزیراعظم ہاؤس ان کیلئے محفوظ پناہ گاہ کا درجہ رکھتا ہے‘ لیکن ''جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘ کے مصداق وزیراعظم اس صورتحال سے لاعلم نظر آرہے ہیں۔ تحریک انصاف میں دوسری پارٹیوں سے درآمد شدہ ''الیکٹ ایبلز‘‘ درجنوں ارکانِ اسمبلی محض ردِ بلا کیلئے شریک ِاقتدار ہیں‘ جن پر الزامات کی فہرست ہی ہوش اُڑادینے کیلئے کافی ہے۔
اربوں کے نادہندہ ہوں یا مالی بے ضابطگیوں میں ملوث‘ اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے ہوں یا سرکاری وسائل پر موجیں اُڑانے والے‘ سبھی کو احتساب کا سامنا کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو احتسابی عمل سے کلین چٹ ملتی ہے تو بھلے اتراتا پھرے‘ لیکن سنگین اور رنگین الزامات کا بوجھ اُٹھائے وہ شریک اقتدار کیوںاور کس کھاتے میں؟اپنے ان چیمپئنز کو سینے سے لگا کر 500کرپٹ افراد کو جیل بھجوانے کیلئے بے تابی کس طرح شفاف احتساب کا سبب ہو سکتی ہے؟ احتساب وہ نہیں ہوتا جس کی تکرار تقریروں میں کی جائے۔ احتساب وہ ہوتا ہے جسے بتانا نہ پڑے اور وہ ہوتا ہوا نظر آئے۔ دیکھنے والوں کو بھی اور سننے والوں کو بھی۔
تعجب ہے انصاف سرکار کی اپنی ہی صفوں میں کثرت سے پائے جانے والے اور اپنی اپنی آنکھوں میں اچھے خاصے شہتیر لیے پھرنے والے چیمپئنزدوسروں کی آنکھ میں تنکے کو لے کر آسمان سر پہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ بلا امتیاز احتساب تو بہت بڑی بات ہے اور خود احتسابی کے عمل سے گزرنا اس سے کہیں بڑی بات ہے۔ اس کیلئے اعلیٰ اخلاقی جرأت درکار ہوتی ہے۔ یہاں اعلیٰ تو درکنار ثانوی جرأت کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ عوام اپنے حکمرانوں سے اخلاقی جرأت کے طلبگار ہیں۔
غیر ملکی دوروں میں جناب وزیراعظم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بہت کرپشن ہے۔ سابق حکمران اور اہم سیاسی رہنما جیلوں میں ہیں اور میں مزید 500افراد جیل میں ڈالنے کا خواہشمند ہوں۔ بین الاقوامی سطح پر یہ باتیں کرنے سے ملکی حالات اور اقتصادی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے تو ضرور اپنا شوق پورا کریں۔ ملکی وقار کو اگر مزید چار چاند لگ سکتے ہیں تو ضرور لگائیں‘ مگران غیر ملکی دوروں کے دوران اگر کسی فورم پر غیر ملکی میڈیا نے یہ سوال پوچھ لیا کہ آپ کے قریبی اور اردگرد پائے جانے والے وہ چیمپئنز جو احتساب کے ریڈار پر تو آچکے ہیں‘ لیکن تاحال احتساب کے شکنجے سے محفوظ کیوں ہیں؟ ایسے میں وزیراعظم ہی بہتر جانتے ہیں کہ وہ کیا جواب دیں گے۔ جواب بھلے کچھ بھی دیں ایسے موقع پر سُبکی اور پشیمانی یقینی ہوتی ہے۔ خارجی محاذ اور بین الاقوامی دوروں کے دوران صرف انہیں نکات پر فوکس کیا جائے جو سفارتی آداب اور معاشی و اقتصادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
گورننس، میرٹ اور سماجی انصاف سے عاری حکومت اپنی طرزِ حکمرانی پر نظرِ ثانی کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ بین الاقوامی فورمز پر انتہائی فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہماری سیاسی اور انتظامی اشرافیہ انتہائی کرپٹ ہے‘ ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ہماری بزنس کمیونٹی احتجاجوں اور ہڑتالوں پر آمادہ ہے۔ جب آپ خود ہی ڈھنڈورا پیٹیں گے تو ایسے میں کون سا ملک آپ کی دعوت پر یہاں آکر سرمایہ کاری کرے گا؟ اور کیسے آپ پر اعتبار کرے گا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ پانچ سو کرپٹ افراد کو جیل بھجوانے کی خواہش ضرور رکھیں‘ لیکن اُن پانچ سو میں انہیں بھی ضرور شامل کرلیں جو نہ صرف آپ کے اردگرد پائے جاتے ہیں بلکہ آنے والے وقت میں آپ کے لیے مزید جوابدہی اور سُبکی کا باعث بن سکتے ہیں۔ آٹے میں نمک ہو یا نمک میں آٹا جوابدہی ہر دو صورتوں میں ہے۔