سالہا سال گزر جائیں... حکمران بدل جائیں... کتنی ہی رُتیں اور موسم بدل جائیں لیکن عوام کے نصیب بدلتے نظر نہیں آتے۔ روزِ اوّل سے لمحہ موجود تک ان کے مسائل اور حالات جوں کے توں ہیں۔ ناجانے کون سی نحوست ہے، کون سا آسیب ہے جو اس ملک و قوم کی سیاہ بختی کی علامت بن چکا ہے۔ لانگ مارچ ہو یا تحریکِ نجات‘ دھرنا ہو یا آزادی مارچ‘ یہ سارے تماشے شوقِ اقتدار سے شروع ہو کر حصولِ اقتدار سے ہوتے ہوئے کوئے ملامت میں جا ختم ہوتے ہیں۔ نہ تو انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار۔ حکومتِ وقت کو ''ٹف ٹائم‘‘ دینے کے لیے کبھی لانگ مارچ کیے گئے‘ کبھی تحریک نجات چلائی گئی اور کبھی دھرنوں میں ایسی دہائی اور دھمال ڈالی گئی کہ کچھ نہ پوچھئے۔ یوں لگتا تھا کوئی نجات دہندہ اُتر آیا ہے اور قدرت نے عوام کی مشکل کشائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جلد ہی عوام کے دِن پھر جائیں گے۔
اس کے برسرِ اقتدار آتے ہی عوام کی سیاہ بختی خوش بختی میں بدل جائے گی۔ حکمرانوں کی نیت سے لے کر ملکی معیشت تک سبھی کچھ عوام کی توقعات اور مفادات کے عین مطابق ہو گا۔ ہر طرف سماجی انصاف اور مساوات کا دور دورہ ہو گا۔ میرٹ کا راج اور گورننس بے مثال ہو گی۔ دھرنوں کے دوران بجلی کے بل لہرا کر پھاڑنے والے عوام کو یہی بھاشن دیتے رہے کہ آج کے بعد کوئی شخص بل جمع نہیں کروائے گا۔ اپنا بل ادا کر کے عوام کو بغاوت اور سول نا فرمانی کی ترغیب دینے والے کس طرح اپنی انگلیوں پر نچواتے رہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ عوام سیانے نکلے اور بل ادا نہ کرنے کے بھاشن کو ''سیریس‘‘ نہیں لیا۔ نا جانے کتنوں کے کنکشن کٹ جاتے اور کتنے گھر اندھیروں میں ڈوب جاتے۔
بات ہو رہی تھی شوقِ اقتدار کے ہاتھوں مجبور احتجاجی سیاست کرنے والوں کی۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو حکومت اپنے حواس پہ سوار کر چکی ہے۔ وزیر داخلہ اس آزادی مارچ کو خود کشی سے منسوب کر رہے ہیں تو معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اسے حلوے کی طلب قرار دے کر نواز شریف اور شہباز شریف کو کلیم اﷲ اور سمیع اﷲ سے منسوب کر رہی ہیں۔ خدا جانے انہوں نے یہ بیان نواز اور شہباز کی تعریف کی غرض سے دیا ہے کہ یا ان کی تضحیک مقصود تھی کیونکہ سمیع اﷲ اور کلیم اﷲ‘ دونوں ہی ہمارے قومی ہیرو اور ہاکی کا فخر رہے ہیں۔ جبکہ تک ان جیسے کھلاڑی ہماری ٹیم کا حصہ رہے‘ ہاکی دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت اور اس کے لیے باعث افتخار رہی۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو ان قومی ہیروز سے تشبیہ دینا انہیں بہترین گیم پلے کا کریڈٹ دینے کے مترادف ہے۔
حکومتِ وقت کو غیر مستحکم کرنے یا گرانے کے لیے احتجاجی تحریکیں ہماری سیاسی تاریخ کا اہم خاصہ ہے۔ 2002ء کے عام انتخابات سے قبل کوئی حکومت اپنی طے شدہ آئینی مدت پوری نہ کر سکی۔ کسی کو ضیاء الحق نے چلتا کیا تو کسی کو غلام اسحاق خان نے گھر بھجوایا۔ اسی طرح کوئی فاروق لغاری کے ہاتھوں معزول ہوئی تو کوئی جنرل مشرف کے ہاتھوں تسخیر۔ ایک بار تو وزیر اعظم اور صدر مملکت کی محاذ آرائی اس نہج پر جا پہنچی کہ عسکری قیادت کو مداخلت کر کے دونوں کو گھر بھجوانا پڑا۔ عمران خان نے طویل ترین دھرنے دے کر پاکستانی سیاسی تاریخ کا دھارا ہی موڑ ڈالا۔ اس دھرنے کو تبدیلی کی بنیاد کہا جاتا ہے اور اسی دھرنے نے پی ٹی آئی کو تیسری سیاسی قوت اور ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر بھی بخوبی منوایا۔
کئی دہائیوں سے اقتدار پر دو پارٹی نظام مسلط تھا۔ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والے اپنی اپنی باریاں لگانے میں مگن تھے۔ اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی تیسری سیاسی قوت آئے گی اور اقتدار کی باریاں لگانے والی دونوں پارٹیاں شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح ہوا کے دوش پر اُڑتی پھریں گی۔ بات ہو رہی تھی دھرنوں کی تو آئیے قارئین آپ کو دھرنوں کی سینکڑوں سال پرانی تاریخ کی طرف لیے چلتے ہیں۔
برہمن چانکیہ نے سنسکرت زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ''ارتھ شاسترا‘‘ ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ''پولیٹیکل شائن‘‘ کے نام سے کیا گیا جو آج بھی لاہور میوزیم میں موجود ہے۔ علوم سیاسیات کے موضوع پر لکھی گئی کتاب میں مصنف نے سماج کے مختلف پہلوؤں کی کیا خوب عکاسی کی ہے۔ اس چشم کشا کتاب کے ایک باب میں دھرنوں کے حوالے سے برہمن چانکیہ نے لکھا ہے کہ اگر راجہ یا کوئی طاقتور اور با اَثر آدمی تم سے ناراض ہو کر تمہاری بیوی، بیٹے، بیٹی اور گائے پر قبضہ کر لے تو اس کے در پر جاؤ، اس سے معافی مانگو، اس کے پیروں میں پڑ کر اس کی منت سماجت کرو اور کہو کہ میری بیوی واپس کر دو کیونکہ اسی نے میری گھر گرہستی سنبھالنی ہے۔ میرا بیٹا بھی اس لیے واپس کر دو کہ اسی نے میرے بڑھاپے کا سہارا بننا ہے۔ گائے بھی مجھے اس لیے واپس چاہیے کہ اس سے میں دودھ حاصل کر کے اپنی روٹی روزی چلاؤں گا اور خود بھی دودھ پیوں گا؛ البتہ بیٹی تم رکھ سکتے ہو کیونکہ بیٹی تو ہوتی ہی پرایا دھن ہے‘ اس لیے یہ تم پر حلال ہے۔ اگر وہ راجہ یا با اثر شخص پھر بھی نہ مانے تو علاقے کے معززین کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ وہ تمہاری سفارش کریں اور تمہارا کنبہ اور مویشی واپس دلوائیں۔ سماجی اور اخلاقی دباؤ کے باوجود بھی اگر کامیابی نہ ہو تو ظالم کے گھر کے سامنے راستے میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاؤ جسے دھرنا مارنا کہتے ہیں تاکہ آنے جانے والے لوگ دیکھیں کہ فلاں با اثر شخص یا راجہ نے ضرور اس کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی کی ہو گی۔ اسی لیے اس کے گھر کے آگے دھرنا مارے بیٹھا ہے۔
دھرنا مارنے کے باوجود بھی کامیابی نہ ہو تو مصیبت زدہ اور مظلوم شخص مرن بھرت رکھتا ہے (جسے ہمارے ہاں تا مرگ بھوک ہڑتال کہا جاتا ہے)۔ مرن بھرت کسی بھی با اثر اور طاقتور شخص کو ظلم سے باز رہنے کا آخری حربہ ہوا کرتا تھا۔ مرن بھرت رکھنے والا ظالم کے گھر کے سامنے دھرنا مار کر بیٹھ جاتا اور کھانا پینا چھوڑ دیتا۔ اکثر یہ حربہ اس لیے کامیاب رہتا کہ ظالم کو یہ خطرہ لاحق ہو جاتا کہ اگر یہ میرے گھر کے سامنے بھوک اور پیاس سے مَر گیا تو اسے میرے گھر کے آگے سے کون اُٹھائے گا‘ پھر اس کی ''چتا‘‘ (آخری رسومات) جلانے کے اخراجات بھی مجھے ہی برداشت کرنا پڑیں گے اور اس کی موت سے گھر کا راستہ بھی گندا ہو جائے گا جسے دوبارہ ''پوتّر‘‘ کرنے کے لیے پنڈت بلانے پڑیں گے اور پنڈت بھی یہ کام بلا معاوضہ نہیں کریں گے۔ اَرتھی کو کندھا بیٹا ہی دیتا ہے اور بیٹا پہلے ہی میرے قبضے میں ہے ایسے میں اَرتھی کو کندھا بھی خود دینا پڑے گا۔ دھرنے اور مرن بھرت کے خوف سے ظالم اپنے ظلم سے باز آ جاتا اور مظلوم کے اہل خانہ اور مویشی واپس کر دیتا۔ اس زمانے میں اکثر کشمیری اپنے راجہ کے دربار کے باہر دھرنا دیا کرتے کہ راجہ کی فوج اُن سے لکڑی کٹوا کر بیگار تو لیتی ہی ہے لیکن وہ لکڑیوں کا بوجھ بھی انہی سے اٹھواتی ہے۔ کشمیری لکڑیاں کاٹنے کی حد تک تو بیگار برداشت کر لیتے تھے لیکن بار برداری پر احتجاجاً دھرنا ہی مارا کرتے تھے‘‘۔
یہ تو تھی دھرنوں کی تاریخ۔ تعجب اس بات پر ہے پاکستان کی تاریخ میں دھرنوں کے موجد آج مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو غیر جمہوری قرار دے رہے ہیں۔ اسلام آباد جیسے اہم ترین شہر کو طویل عرصہ یرغمال بنانے والے ''لاک ڈاؤن‘‘ کا شور مچا رہے ہیں۔ انصاف سرکار کی طرزِ حکمرانی اور عوام کی بڑھتی ہوئی بد حالی کے باوجود حکومتی چیمپئنز معیشت کی بہتری اور مالیاتی خساروں پر قابو پانے کے دعوے کرنے سے باز نہیں آ رہے اور وہی مشقِ ستم دُہرائی جا رہی ہے جس کا سامنا ماضی کے تمام ادوار میں عوام کو رہا ہے۔ حالات میں بہتری اور دھرنوں کے دوران گورننس اور میرٹ کے دعوے خواب و خیال بن چکے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب عوام کو ہی ان حکمرانوں کے سامنے ''مرَن بھرت‘‘ رکھ کر دھرنا دینا ہو گا۔ تب ممکن ہے اس نحوست اور آسیب زدہ طرزِ حکمرانی سے جان چھوٹ جائے۔