"AAC" (space) message & send to 7575

’ مان جاؤ‘ سے ’بھاڑ میں جاؤ ‘تک

دھرنوں کی موجد انصاف سرکار مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے اعلان سے ہی نالاں اور سخت پریشان ہے۔ شیخ رشیدکا کہنا ہے کہ علما نے جب بھی تحریک چلائی مارشل لاء ہی لگا۔ بیڈ گورننس کی دلدل میں گوڈے گوڈے دھنسی انصاف سرکار پہلے ہی کیا کم مسائل کا شکار تھی جو مولانا نے بیٹھے بٹھائے ان کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین برباد کرکے رکھ دیاہے۔میرٹ اور ضابطے سے بے نیازبدترین طرز حکمرانی کا طوق گلے میں ڈالے انصاف سرکار جیسے تیسے حکومتی گاڑی گھسیٹ ہی رہی تھی کہ آزادی مارچ کڑی آزمائش بن کر سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔مان بھی جائو سے لے کر بھاڑ میں جائو تک۔حکومت سارے حربے آزمائے چلے جاری ہے۔مولانا ہیں کہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔
مولانا فضل الرحمن کو آزادی مارچ سے باز رکھنے کے لیے بزدار سرکار چوہدری برادران کے در پربھی جاچکی ہے۔انہیں بھی مشاورت میں شامل کیا گیا ہے کہ وہ اپنے تجربہ اور بصیرت کو بروئے کار لائیں اور کوئی ایسا نسخہ بتائیں جو مولانا کو آزادی مارچ سے روک سکے۔ چوہدری برادران انتہائی منجھے ہوئے ،موقع شناس اور تجربہ کار سیاستدان ہیں جو کوئے سیاست کے اسرار ورموز کو بخوبی جانتے ہیں۔ مولانا سے مذاکرات کے لیے تشکیل دی گئی ٹیم میں پرویز الٰہی کو بھی اسی لیے شامل کیا گیا ہے کہ وہ جوڑ توڑ کے ساتھ ماننے اور منانے کا گُر بھی جانتے ہیں۔لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا اور ان کی توقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا بنائے رکھنا بھی چوہدری برادران کااہم خاصہ ہے۔ آنے والے وقت میں چوہدری پرویز الٰہی کی اہمیت میں مزید اضافہ عین متوقع ہے‘ کیونکہ بزدار سرکار کی بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔بلکہ آئندہ بھی چال چلن میں کسی بہتری کی امید نظر نہیں آتی۔
ایسی صورتحال میں چوہدری پرویز الٰہی کی پوزیشن مزید بہتر اور مستحکم ہوتی نظر آتی ہے ‘کیونکہ گورننس اور میرٹ سے عاری یہ حکومت عوام کو مزید مایوسیوں سے دوچار کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ گورننس کے حوالے سے کڑے سوالات اور بحرانی کیفیت میں اضافہ یقینی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ایسے میں ان ہائو س تبدیلی کا آپشن زیر غور آیا توپرویز الٰہی کے نام پر غور و خوض کے امکانات قوی ہیں۔عین ممکن ہے کہ انہیں پچیس سال قبل پنجاب اسمبلی کی تاریخ دوہرانے کا ٹاسک بھی دے دیا جائے۔وہ یقینا منظور وٹو سے کہیں بہتر گیم پلے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو عثمان بزدار دور حاضر کے غلام حیدر ووائیں ثابت ہونگے۔ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ نواز شریف بھی بطور وزیراعظم اتحادیوں کے پرزور مطالبوں کے باوجود غلام حیدر وائیں کو تبدیل نہ کرنے کی ضد لگا بیٹھے تھے۔ضد بھی ایسی کہ وائیں کو بچانا تو درکنار تخت پنجاب سے ہاتھ دھو نا پڑے۔ وقت اور حالات کا پہیہ بھی عین اسی سمت گامزن ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کونسا آپشن کب اور کہاں آن ہوتا ہے اور اس کا سرخیل کون بنتا ہے۔
بات ہورہی تھی مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی، انصاف سرکار کو اس مارچ کی پریشانی اپنی جگہ‘ لیکن اصل پریشانی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے آزادی مارچ کو پذیرائی اور مقبولیت مل سکتی ہے۔یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ انصاف سرکار کی طرز حکمرانی سے پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت اور سلگتے مسائل پر آزادی مارچ کہیں جلتی پر تیل کا کام نہ کر جائے۔ہوشربامہنگائی اور گرانی سے لے کر بے روزگاری اور بدترین طرزِ حکمرانی تک جیسے معاملات آزادی مارچ کوحالات کے تقاضوںسے ہم آہنگ کر نے کا باعث بن سکتے ہیں۔آزادی مارچ اگر عوامی توجہ اور مقبولیت حاصل کرگیا تو کوئی بعید نہیں کہ حالات کے مارے اور حکمرانوں کے ستائے ہوئے عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت اس کا حصہ بن جائیں۔ یہی وہ خدشات اور تحفظات ہیں جنہیں لے کر انصاف سرکارآزادی مارچ سے نالاںاور پریشان ہے۔جو حکومت عوامی مقبولیت سے محروم ہو اسے احساسِ محرومی کے ساتھ ایسے خدشات اور دھڑکے لاحق رہتے ہی ہیں‘ جوحکمرانوں کو انجانے وسوسوں اور خوف سے دوچاررکھتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے ‘کہیں ویسا نہ ہوجائے۔
کوئے سیاست میں آج کے حریف کل کے حلیف اورکل کے حلیف آج کے حریف بنتے دیر نہیں لگتی۔انصاف سرکار انھی وسوسوں کا شکار ہے کہ حلیف کہیں حریف نہ بن جائیں‘ کیونکہ آج کے حلیف ماضی میں ان کے بدترین حریف بھی رہ چکے ہیں۔ موجودہ حالات میںاصولی سیاست کے نام پر حلیفوں کا حریف بن جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔مولانا فضل الرحمن سمیت تمام اپوزیشن کو انصاف سرکار نے بڑی کوشش کے بعدموافق حالات خود فراہم کیے ہیں‘جبکہ تختِ پنجاب کی بزدار سرکار مولانا کے اہداف اور ایجنڈے کے لیے نعمت کادرجہ رکھتی ہے۔ ان کا ویژن اور طرز حکمرانی اپوزیشن جماعتوں کے لیے آکسیجن سے کم نہیں۔سابقہ دور میں ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ یکجہتی کرنے والی تحریک انصاف آج اقتدار میں آکر انہی ہڑتالیوں کے آگے بے بس اور مجبور ہے۔مسلسل ہڑتالوں کے باعث ہسپتالوں میں ہزاروں آپریشن ملتوی ہونے سے مریضوں کی زندگیوں کو خطرات بڑھ چکے ہیں۔حافظ آباد کے سرکاری ہسپتال میں پانچ نومولود ابھی پوری طرح آنکھ بھی نہ کھول پائے تھے کہ ڈاکٹروں کی غفلت سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ان بچوں کی پیدائش پر خوشیاں منانے والے ماں باپ کی خوشیاں عارضی ثابت ہوئیں اور وہ تھوڑی ہی دیر میں بے بسی اورغم کی تصویر بن کر رہ گئے۔
بے قابو ڈینگی تمام حکومتی حربے ناکام بنا چکا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی ہلاکتوں پر نہ تو کسی کو کوئی پشیمانی ہے اور نہ ہی کوئی ندامت۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق خوشاب میں بھی ایک شخص دوران علاج ڈینگی کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔بیانات اور بھاشن مسلسل جاری ہیںبدانتظامی اور نااہلی پر ڈھٹائی کا ایسا ایسا منظر شب و روز دیکھنے کو ملتا ہے کہ لگتا ہے سرکار مفادِ عامہ اور صحتِ عامہ کی ضد بن کر رہ گئی ہے۔ اشیائے ضروریہ ہیں کہ عوام کی قوتِ خریدسے دن بدن باہر نکلتی چلی جارہی ہیں۔ بے کس اور لاچار عوام تنگدستی اور بدحالی کا نمونہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ بدحالی غربت اور استحصال کے خلاف حکومتی اقدامات اور گورننس دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ یا تو ان کی نیت ٹھیک نہیںیا یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ 
ہمارے بعد معرض وجود میں آنے والے ممالک ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن‘ ترقی اور خوشحالی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں‘جبکہ ہم بنگلہ دیش کے سامنے چت نظر آتے ہیں۔ اقتصادیات اور معاشیات کے حکومتی چیمپئنز سرمایہ کاری کو پہلے ہی ''کارو کاری‘‘کرچکے ہیں۔ روزمرہ کے معاملات چلانا بھی عوام کے لیے عذاب مسلسل بن چکا ہے۔ ایشائی ترقیاتی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی ترقی کی شرح 7.9سے رواں سال 8ہوجائے گی‘ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال رواں میں پاکستان کی معاشی شرح 3.9ہے جبکہ 2020ء میں یہ شرح کم ہوکر3.6 رہ جائے گی۔ اقوام متحدہ کے معاشی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا پیسفک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال پاکستان کی شرح نمو خطے کی سب سے نچلی سطح پر رہے گی۔انصاف سرکار کی ترجیحات، اقدامات اور گورننس کا یہی عالم رہا تو پاکستان خطے میں بدحالی اور مفلسی کی تصویر بن کر رہ جائے گاجبکہ وزیراعظم اپنے چودہ ماہ کا تجربہ حکمرانی شیئر کرتے ہوئے عوام سے گلہ کرتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ موبائل کارڈ سے لے کر پٹرول تک، صابن کی ٹکیہ سے لے کریوٹیلٹی بلوں تک‘ تمام ذرائع سے ٹیکس ہی تو وصول کیا جارہا ہے‘ جبکہ اس کے بدلے عوام کوٹوٹی پھوٹی اندھیری سڑکوں سے لے کر گندگی کے ڈھیر اور ملاوٹ زدہ مہنگی ترین اشیائے ضروریہ اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محرومی کا تحفہ دے کرتمام حکومتی چیمپئنز اترائے پھرتے ہیں۔چلتے چلتے حکمرانوں کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ دل کھول کر چیریٹی کرنے والی اور رفاہ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر خطیر رقم خرچ کرنے والی یہ قوم ٹیکس دینے سے محض اس لیے گریزاں نظر آتی ہے کہ اسے اپنے ہاتھوں سے دیئے گئے چندے کاتو یقین ہے کہ یہ پیسہ اللہ کی راہ میں ہی خرچ ہوگا‘لیکن اسے یہ پتہ نہیں کہ ٹیکس کی مد میں سرکار کو دیا گیا پیسہ کہاں خرچ ہو گا؟ کیونکہ سرکار عوام کے پلے تو کچھ ڈال ہی نہیں رہی‘ ایسے میں اعتماد اور یقین کی بحالی تک عوام سے ٹیکسوں کی امید لگانا بے سود ہے۔یعنی ضرورت اس امر کی ہے کہ چندے اور ٹیکس کے فرق کو سمجھا جائے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں