ریاست‘ قوم اور وطن کی مٹی سے بدعہدی اور بے وفائی سے بڑا شاید ہی کوئی جرم ہو۔ آدھا ملک جاتا رہا بلکہ اکثریتی حصہ جدا ہو گیا۔ ملک توڑنے والے عوامل اور کرداروں کو کون نہیں جانتا۔ سبھی کو سب ہی جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کسی مملکت کی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ اس کے طول و عرض میں کوئی ایسا مائی کا لعل میسر نہیں جو گردن اٹھا کر چل سکے اور جس کی طرف شہادت کی انگلی اٹھا کر گواہی دی جا سکے کہ اس شخص نے دھرتی کا حق ادا کر دیا۔ محنت‘ ذہانت‘ دیانت‘ قابلیت اور تدبر کے زور پر ایسی کامیاب پالیسیاں بنائیں‘ ایسی کارکردگی دکھائی‘ ایسی اصلاحات کیں جن سے نہ صرف ملک و قوم کو فائدہ ہوا‘ بلکہ معیشت مستحکم ہوئی ہو اور قوم کے دن پھر گئے ہوں۔ ادارے مضبوط خود مختار اور فعال ہو گئے ہوں‘ ضابطے پروان چڑھے ہوں‘ شخصی صوابدید کو پھانسی دے دی گئی ہو۔ اجتماعی مفادات کے عین مطابق فیصلہ سازی کا بول بالا ہوا ہو۔
ہر سال کی طرح 16 دسمبر کا دن دو روز قبل آ کر پھر گزر گیا۔ 48 برس بیت گئے لیکن ہم نے سقوطِ ڈھاکہ سے سبق سیکھنا تو درکنار الٹا اس قومی سانحہ کو ایک واقعہ سمجھ کر تاریخ کے اوراق میں دفن ہی کر ڈالا۔ زندہ قومیں ایسے سانحات کو نہ تو کبھی دفن کرتی ہیں اور نہ ہی فراموش کیونکہ ''یہ لاشے رکھ لیے جاتے ہیں دفنائے نہیں جاتے‘‘۔ اگر ان لاشوں کو دفنا دیا جائے تو ان کے ساتھ نجانے کیا کچھ دفن ہو جاتا ہے۔ زندہ قومیں اپنے زخم ہرے اور ہمیشہ تازہ رکھتی ہیں۔ زخم تازہ ہو تو اس کی کسک بے چین کیے رکھتی ہے اور یہی بے چینی قوموں کے جاگنے کی علامت ہوتی ہے۔ اگر کہیں کوئی زخم مندمل ہوتا نظر بھی آئے تو کھرچ کر اپنی اذیت میں خود اضافہ کر لیا کرتی ہیں تاکہ وہ کسی سانحہ کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔
سقوطِ ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ سے لے کر تازہ ترین سانحہ ''پی آئی سی‘‘ تک حال مست اور چال مست والا معاملہ چل رہا ہے۔ پانچ سال قبل آرمی پبلک سکول میں رونما ہونے والے المناک سانحہ کی جوڈیشل انکوائری بھی تاحال جاری ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین بھی انصاف کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے ہلکان ہو چکے ہیں۔ چند روز قبل ہمارے ادارے کے نمائندہ خصوصی محمد حسن رضا اور ان کے ساتھ رپورٹر رانا محمد علی کی پنجاب بھر کی جیلوں سے متعلق چشم کشا خبر پڑھ کر نجانے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک ہی جیل خانہ بن چکا ہے اور اس میں بسنے والے عوام مجبورِ اسیری ہیں۔ جیلوں میں موبائل فون کے ساتھ وائی فائی روزانہ ایک گھنٹہ استعمال کرنے کا ریٹ 5 سے 10 ہزار روپے۔ روزانہ ملاقات اور کھانے کا ہفتہ وار ٹھیکہ 5 سے 10 لاکھ میں ہوتا ہے۔ گھر کا کھانا منگوانے کے لیے ماہانہ 50 ہزار تا 1 لاکھ روپے جبکہ بیرکس کے دروازے رات کو کھلے رکھنے کا بھی ریٹ مقرر ہے۔ منشیات کے عادی قیدیوں کو حسبِ طلب منشیات کی فراہمی کا بھی ریٹ طے ہے۔ اسی طرح جیل کے اندر عرصہ اسیری آسان کرنے کے لیے ہر قیدی کو کچھ نہ کچھ قیمت روزانہ کی بنیاد پر چکانا پڑتی ہے۔
جس طرح جیل میں قدم قدم پر بھتہ سسٹم رائج ہے۔ اسی طرح مملکتِ خداداد میں پیدائشی پرچی سے لے کر ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور قبر کے لیے جگہ کے حصول تک ہر موقع پر عوام کو اس ملک میں پیدا ہونے کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بھاری قرض کا نادہندہ ہو جس سے اس کا کوئی لینا دینا نہ ہو تو وہ پیدا ہوتے ہی بازی ہار جاتا ہے۔ اس عوام کے لیے حکمران بھی کسی جیلر سے کم نہیں اور ان کے شریک اقتدار و مصاحبین بھی جیل انتظامیہ کا کردار ادا کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ عوام کا خون چوسنے سے لے کر عرصۂ حیات تنگ کرنے تک کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تعجب ہے عام آدمی جیل میں جا کر بھتہ دیتا ہے تب کہیں جا کر اسے کچھ سکھ کا سانس لینے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن اسیر اشرافیہ کو جیل انتظامیہ اور حکومت اُلٹا بھتہ ادا کرتی ہے۔ ان کے بہترین علاج معالجے سے لے کر تمام جملہ سہولیات کی فراہمی تک جیل کا عملہ ہاتھ باندھے تعمیل کا پابند ہوتا ہے۔
حکومت نے بیرون ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانوں میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کر کے 13 نئے سفراء سمیت 21 افسروں کو سفیر اور کونسل جنرل تعینات کیا ہے۔ تبادلے کسی مسئلے کا ہرگز حل نہیں ہوتے‘ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ سفارت کار اپنا وہ کردار ضرور ادا کریں‘ جس مقصد کے لیے انہیں وہاں تعینات کیا جاتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ بیرونِ ملک سفارت خانوں میں تعینات افسران صرف تام جھام اور پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں اور بس... جبکہ برآمدات اور درآمدات سے لیکر سرمایہ کاری اور ثقافت تک... ملک و قوم کے وقار سے لے کر قومی تشخص تک... کسی معاملے میں ان کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں ہے۔
پچھلے دنوں چائنہ جانے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر انتہائی دُکھ ہوا کہ ایک زمانے میں چین میں پاکستانی سفارتخانہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ پاکستان میں سے ادیبوں‘ شاعروں اور فنونِ لطیفہ سے متعلق دیگر شخصیات کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اکثر تو پاکستانی سفیر اپنی رہائش گاہ بھی ان مہمانوں کے طعام و قیام کے لیے پیش کر دیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے سابق سفیر اکرم ذکی کا نام قابلِ ذکر اور سرفہرست ہے۔ انہوں نے اپنی سفارت کاری کے ایام میں ان سرگرمیوں اور تقریبات کے انعقاد کے لیے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کیا‘ جس کے نتیجے میں پاکستانی ادب‘ ثقافت‘ فلم اور ڈرامہ سبھی چین میں بھرپور متعارف ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں پاکستانی فلمیں بھی انتہائی پسند کی جاتی تھیں۔ ہمارے ماضی کے کئی اداکار چین میں جانے پہچانے جاتے تھے۔آج یہ عالم ہے کہ انڈیا اپنے کلچر سے لے کر معیشت اور دیگر تمام شعبوں کو چائنہ میں غیر معمولی فروغ دے چکا ہے اور اس کا امیج بتدریج چائنہ میں مستحکم ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ بھارتی اداکار سلمان خان چین میں انتہائی مقبول اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ بھارتی سرکار اپنے سرکاری اور غیر سرکاری‘ تمام شعبوں کی سرپرستی اور خبر گیری کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا چائنہ میں بطور برینڈ اپنے قدم دن بہ دن مضبوط کر رہا ہے۔ اس محاذ پر پاکستانی سفارتخانے کی کارکردگی صفر بھی نہیں ہے۔ دیگر سفارتخانوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔
اب کچھ احوال سانحہ ''پی آئی سی‘‘ کا... جس کے بارے میں اعتراز احسن کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ بھی سانحہ ساہیوال کی طرح کا ہو گا۔ ہمارے ہاں ''مٹی پاؤ‘‘ پالیسی چلتی ہے۔ قانون کی حکمرانی قائم ہونے تک یہاں یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ پی آئی سی کا کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ عیسائی جوڑے کو بھٹی میں پھینکنے کے مقدمات کیا ہوئے۔ اعتراز احسن کا تجربہ اور خدشات اپنی جگہ... سانحہ پی آئی سی حکومت اور اداروں کے لیے ٹیسٹ کیس سے کم نہیں۔ اگر حکومت ٹیسٹ میں فیل ہو گئی اور اس بار بھی نظریہ ضرورت اور مصلحت آڑے آئی اور بے کس و لاچار مریضوں پر غول در غول حملہ آور ہونے والے اگر بچ گئے تو پھر شاید کچھ بھی نہ بچے۔
جس معاشرے میں قانون اور انصاف مصلحتوں اور نظریہ ضرورت کا شکار ہو جاتا ہے‘ اس معاشرے میں کچھ بھی نہیں بچتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ نے بھی اپنے اعزاز میں دئیے گئے الوداعی ظہرانے میں کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''ریاست حقوق نہ دے تو عوام سوشل کنٹریکٹ چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ تحریک پاکستان کا آغاز مشرقی پاکستان سے ہوا تھا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ریاست نے اُن شہریوں کا خیال ہی نہ رکھا اور نتیجتاً ہمیں سقوطِ ڈھاکہ جیسے سانحہ سے دوچار ہونا پڑا۔ اس تناظر میں عوام کو سوشل کنٹریکٹ میں باندھے رکھنے میں ہی ملک و قوم کی بقا ہے۔