پہلے بھی کئی مرتبہ عرض کر چکا ہوں‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری زمین ہی قہر زدہ ہو چکی ہے۔ اب تو یقین ہو چلا ہے کہ یہ زمین قہر زدہ ہی نہیں بلکہ اس پر بسنے والوں پر کچھ اس طرح تنگ ہو رہی ہے گویا ان پر ہجرت واجب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بعض موضوعات اس قدر پریشان کن ہوتے ہیں کہ ان پر نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑتا ہے۔ بلکہ ان پر جتنا بھی لکھا جائے کم پڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ موضوعات روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف اخبارات کے صفحات پر بلکہ ٹی وی چینلز پر بھی حکومتی دعوؤں اور گورننس کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات ان پر لکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ہی کسی کالم کا چربہ لکھ رہا ہوں یا پھر کالم موضوع کی تکرار کا شکار ہے۔ فضا میں عجیب سی سوگواری اور ماتم کا سماں ہے۔ کرّہ اَرض پر اس کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا سیاہ بخت خطہ ہو جہاں قوانین سے لے کر آئین تک‘ سماجیات سے لے کر معاشیات تک‘ اخلاقی قدروں سے لے کر عقائد تک‘ میرٹ سے گورننس تک‘ سبھی پر آسیب کا سایہ ہو ؎
دو چار دن کی بات اگر ہو تو سہہ بھی لوں
ہوتی ہے روز مشقِ ستم دیکھتا ہوں میں
آوارہ اور خونی کتے جیتے جاگتے انسانوں کو چیرپھاڑ کر رکھ دیتے ہیں حتیٰ کہ معصوم بچوں کو بھنبھوڑنے کے واقعات بھی دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جب حکمرانوں اور اس کے سر چڑھوں کو ان کی اوقات اور ضرورت سے زیادہ ملنا شروع ہو جائے تو عوام کو بنیادی ضروریات کے لیے بھی ترسنا پڑتا ہے۔ آوارہ خونی کتوں کے سینکڑوں شکار ایک طرف‘ کم خوراکی اور غذائی قلت کا شکار دو مزید بچے مٹھی کے سول ہسپتال میں چل بسے۔ اسی ہسپتال میں رواں ماہ کے دوران غذائی قلت کا شکار ہو کر آنے والے 33 مریض ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ رواں سال کے دوران روٹی اور دیگر بنیادی سہولتیں نہ ملنے پر وبائی امراض کا شکار ہو کر آنے والے مریضوں میں سے مجموعی طور پر 810 اگلی دنیا میں جا چکے ہیں۔ یہ اعدادوشمار صرف ایک ہسپتال کے ہیں جو رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ سندھ کے دیگر علاقوں میں ہونے والی ہلاکتوں اور غیر رپورٹ شدہ کیسز کی تفصیل علیحدہ ہے۔
غذائی قلت کا شکار اور بنیادی ضروریات کے لیے ترسنے والے معصوم بچوں کے حصے کی روٹی کون ہڑپ کر گیا؟ وہ صاف پانی جس پر ان کا بنیادی حق ہے وہ کون ڈکار گیا؟ علاج معالجے کی سہولیات کیوں ناپید ہو گئیں؟ عوام کو بنیادی سہولتوں کے لیے ترسانے والوں کے کتوں اور گھوڑوں کی خوراک کا بجٹ کتنے ہی بے کس اور لاچار عوام کو غذائی قلت سے بچانے کے کام آ سکتا ہے۔ سندھ کے عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ تھرپارکر میں قحط سالی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں جانوروں اور انسانوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ پانی اور خوراک کے لیے دونوں ہی تڑپتے ہیں اور تڑپتے پڑپتے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی‘ اُس نے اس عطا کو اپنی استادی، مہارت اور اہلیت سے ہی منسوب کر ڈالا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود ان کی کسی اَدا کا ''چمتکار‘‘ ہے جبکہ حقیقت میں گورننس کی عطا نہ تو کسی کی مہارت ہے اور نہ ہی کسی کی اہلیت‘ یہ تو بس قدرت کا انمول تحفہ ہے‘ وہ جس کو بھی عطا کرے۔ خطا دَر خطا کے باوجود مہلت کا میسر رہنا بھی یقینا کسی معجزے سے کم نہیں۔ ہمارے سبھی حکمرانوں کو یہ عطا اور مسلسل مہلت کثرت سے میسر آتی رہی ہے۔ جوں جوں یہ معجزے اور مواقع انہیں میسر آتے رہے‘ توں توں یہ سارے بوئے سلطانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ کبھی جُھرلو تو کبھی دھاندلی‘ کبھی ڈنڈی تو کبھی ڈنڈا‘ کبھی صفائی تو کبھی صفایا‘ حتیٰ کہ بیلٹ کو بُلٹ سے منسوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ حصولِ اقتدار سے لے کر طرزِ حکمرانی تک‘ یہ سبھی نظارے چشمِ فلک نے کثرت سے دیکھے ہیں۔
جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور نتائج حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پتہ دیتے ہیں۔ بد قسمتی سے وطن عزیز کے سبھی حکمرانوں نے آئین سے قوانین تک‘ نیت سے معیشت تک‘ بد انتظامی سے بد عنوانی تک‘ بد عہدی سے خود غرضی تک‘ وسائل کی بربادی سے ذخائر کی بندر بانٹ تک کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ذاتی خواہشات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں‘ غیر منصفانہ اور غیر منطقی فیصلوں کے ''اثراتِ بد‘‘ ملک کے طول و عرض میں جابجا، ہر سو کسی بھوت کی طرح ناچتے نظر آتے ہیں۔ دیمک کی طرح ملکی وسائل اور خزانے کو چاٹنے والے آج بھی سسٹم سے جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ اپنے دورِ اقتدار کے دوران اداروں میں جو پنیری انہوں نے لگائی تھی آج وہ جنگلی بیل بن کر سسٹم کو چار سو لپیٹے ہوئے ہے اور اس کے زہریلے اثرات آئے روز کسی نہ کسی حوالے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
تعجب ہے خزانہ بھی صاف اور ان کے ہاتھ اور دامن بھی صاف۔ یہ جادوگری ہے یا کاری گری۔ ناقابلِ تردید بھاری رقوم کی بوگس ترسیلات ہوں یا بے نامی جائیدادیں، اکاؤنٹس اور بوگس کمپنیاں‘ سبھی کے بینی فشری ہونے کے باوجود کس طرح معصوم اور لا تعلق بنے پھرتے ہیں۔ قارئین! اس حوالے سے ایک فرضی تمثیل نما پہیلی آپ کے پیش خدمت کرنے جا رہا ہوں۔ احتسابی ادارے کی طرف سے محمد بوٹا کو نوٹس موصول ہوا۔ بوٹا پریشان ہو کر کسی سیانے کے پاس چلا گیا اور پوچھا: یہ کیا ہے اور مجھے کیوں بلایا گیا ہے؟ سیانے نے بتایا کہ تمہیں احتسابی ادارے نے بلایا ہے‘ جانا پڑے گا۔ بوٹے نے سوال کیا: یہ کون سا ادارہ ہے اور کہاں جانا پڑے گا‘ میں تو ریڑھی لگا کر دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کرتا ہوں۔ سیانے نے کہا: جانا تو تمہیں پڑے گا ورنہ تم پکڑے جاؤ گے۔
بوٹا مانگ تانگ کر متعلقہ دفتر جا پہنا اور ہاتھ جوڑ کر مجاز اَفسر کے سامنے گڑگڑایا کہ مائی باپ مجھ سے کیا قصور ہو گیا ہے‘ جو مجھے بلایا گیا ہے۔ مجاز اَفسر بوٹے کی منت سماجت اور گڑگڑانے کو اُس کی اداکاری سمجھتے ہوئے بولا: تم نے لاکھوں ڈالر بیرون ملک سے فلاں اہم شخصیت کو بھجوائے ہیں اور تم کیا حلیہ بنا کر یہاں چلے آئے ہو‘ کیا تم مجھے بیوقوف سمجھتے ہو؟ بوٹا بولا: صاحب! کیا بات کرتے ہو‘ بیرونِ ملک جانے کے لیے پاسپورٹ اور پیسے چاہیے ہوتے ہیں‘ میرے پاس تو یہاں آنے کا کرایہ تک نہیں تھا‘ وہ بھی ادھار لے کر آیا ہوں‘ واپس جا کر دہاڑیاں لگاؤں گا تو ناجانے کتنے دِن پیٹ کاٹ کر وہ قرض چکا پاؤں گا۔ مجاز اَفسر کے لیے بوٹے کا یہ جواب قطعی غیر متوقع تھا۔ اس نے غیر یقینی کے عالم میں فائل اٹھائی‘ کیس کی تفصیلات کا جائزہ لیا اور کسی ماتحت کے ذمے لگایا کہ وہ فوری طور پر پتہ کرے کہ بوٹے کا پاسپورٹ بنا ہوا ہے یا نہیں۔
ماتحت نے فوری طور پر متعلقہ دفتر رابطہ کیا۔ بوٹے کے کوائف دئیے تو جواب آیا کہ بوٹے کا پاسپورٹ کبھی بنا ہی نہیں جبکہ بیرون ملک سے بھاری رقم اسی بوٹے کے نام سے بھجوائی گئی ہے۔ مجاز اَفسر سر پکڑ پر بیٹھ گیا اور دوبارہ فائل کے اوراق میں گم ہو گیا‘ جہاں رقوم وصول کرنے والی بینی فشری اہم شخصیت کے دستخط موجود ہیں اور وہ بینک کے ''فارم آر‘‘ میں تسلیم کر رہی ہے کہ یہ رقم محمد بوٹا نے سرمایہ کاری کی غرض سے اسے بھجوائی ہے‘ جبکہ اس رقم کی سرمایہ کاری کب اور کہاں کی گئی‘ اس بارے میں رقم کا بینی فشری بھی تفصیلات بتانے سے قاصر ہے۔ یہ اِن سابق حکمرانوں کی ہوشرُبا وارداتوں میں سے ایک نمونہ ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم کے انتہائی معتمدِ خاص اور سرچڑھے بیوروکریٹ کا ریفرنس بھجوائے سوا سال بیت چکا ہے لیکن فریم چارج تاحال نہ ہو سکا ہے۔ اس پر بھی سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ استغاثہ اور تفتیش کمزور ہے۔ اس وجہ سے اِنہیں ریلیف اور ضمانتیں مل رہی ہیں۔
سسٹم میں جو پنیری سابق حکمرانوں نے لگائی تھی آج وہ ان کے لیے سایہ دار درخت کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ سایہ دار درخت ملک و قوم کے ساتھ ساتھ گورننس اور میرٹ کے لیے زہر قاتل اور خاردار جنگلی بیل سے کم نہیں۔