افغان مہاجرین کے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے سورہ توبہ کی ایک آیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ تم میں سے جو پناہ کا طالب ہو اُسے پناہ دے دیا کرو۔ انہوں نے پاکستانی قوم کی درد مندی اور سخاوت کو سراہتے ہوئے قابلِ قدر قرار دیا ہے۔ پناہ طلب کرنے والے کو پناہ نہ دینا یقینا کم ظرفی ہے۔ افغانستان پر روس کے حملے کے بعد پاکستانی قوم نے جس فراخدلی اور درد مندی کے ساتھ افغان پناہ گزینوں کے لیے اپنے ملک اور دلوں کے دروازے کھولے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی اور اب یہ عالم ہے کہ یہی افغان بوٹ پالش کرنے سے لے کر وسیع و عریض کاروبار اور انڈسٹریاں ایسے چلا رہے ہیں جیسے یہ کبھی پناہ گزین تھے ہی نہیں۔ بہرحال یہ ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی بحث ہے کہ اس درد مندی اور ایثار کی کیا قیمت چکانا پڑی ہے۔
انتونیو گوتریس نے تو پناہ گزینوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سورہ توبہ کا حوالہ دیا ہے‘ ہمارے ہاں تو جسے دیکھو پناہ کا طلبگار دکھائی دیتا ہے... کوئی حکمرانوں کے غیر مقبول اور ناموافق فیصلوں سے تو کوئی ان کے طرزِ حکمرانی سے پناہ کا طلبگار ہے‘کوئی زندگی کی طلب میں علاج کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے تو کوئی مہنگائی کے ڈرون حملوں سے پناہ مانگ رہا ہے‘کوئی اہلیت اور ٹیلنٹ کے باوجود بے روزگاری کے ہاتھوں یرغمال ہے تو کوئی انصاف کے لیے بھٹک رہا ہے‘ کوئی سماجی ناانصافی کا شکار ہے تو کوئی حق تلفی پر نالاں بیٹھا ہے۔ یہ سبھی پناہ کے طلبگار ہیں۔
''آئے گا عمران‘ سب کی شان‘ بنے کا نیا پاکستان‘‘ کے نشے میں مخمور عوام کا سارا نشہ ہرن ہو چکا ہے۔ جو تحریک انصاف سے بے تحاشا امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ جونہی تحریک یہ برسر اقتدار آئے گی سماجی انصاف اور میرٹ کا بول بالا ہوگا‘ گورننس مثالی ہوگی‘ صحت عامہ اور امن و امان سبھی کو ملے گا‘ تعلیم عام اور سب کے لیے ہوگی‘ روزگار کے دروازے کھلیں گے‘ احتساب بلا امتیاز ہوگا‘لیکن ایسا ہو نہ سکا اور اب منظر نامہ کچھ یوں ہے۔
جو بے پناہ چاہتے تھے
اب پناہ چاہتے ہیں
ان سبھی کو سر پر بٹھانے والے اب سر پیٹتے نظر آتے ہیں۔ جس سحر کی نوید سنائی گئی تھی وہ تو چمکیلا اندھیرا ثابت ہوا۔ نجانے کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں سے ایسے فیصلے کروا دیتا ہے جس کے نتیجے میں بھلے کتنی ہی سبکی اور جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑے ‘باآسانی اور ہنستے کھیلتے ایسے برداشت کر جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اپنی زبان سے ایسی ایسی خندق کھود ڈالتے ہیں کہ خود ہی اسی میں جاگرتے ہیں۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس ملک کے حکمران نہیں بلکہ اعلانات کے بادشاہ ہیں۔ ایسا ایسا بیان‘ایسا ایسا بھاشن‘ان کی تضاد بیانی اور قول وفعل سے دست و گریباں دکھائی دیتا ہے کہ کچھ نہ پوچھیئے۔
مردم شناسی ایک ایسا ہنر اور صلاحیت ہے جو انسان کی سو خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے۔ کسی حکمران میں اگر سو خوبیاں ہوں لیکن مردم شناسی نہ ہو تو ساری خوبیاں کس کام کی؟ کسی لیڈر یا حکمران کا اصل کام اہداف کے حصول کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب ہے یعنی رائٹ مین فار رائٹ جاب کے تصور کو قائم رکھنا ہی کسی لیڈر کی کامیاب حکمتِ عملی ہوتی ہے‘ کیونکہ کوئی بھی شخص وہ حکمران ہو یا لیڈر‘ سارے کام خود نہیں کر سکتا۔ ہر کام میں اس کی مہارت ممکن نہیں‘ اس کی اصل کامیابی اُس ٹیم کی تشکیل ہے جو اپنے لیڈر کے ویژن اور ایجنڈے کی عملی تصویر بن کر سامنے آسکے۔
بدقسمتی سے ہمیں آج تک ایسا کوئی حکمران نصیب نہیں ہوا جو مردم شناسی کے ہنر سے آشنا ہو‘ ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کے لیے انہیں ذاتی رفقا اور مصاحبین کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ ذاتی مجبوریوں اور رفقا کو ملک و قوم پر کب تک مسلّط کیا جا سکتا ہے؟ دعووں‘ وعدوں اور دلاسوں پر مبنی حکمرانی سے عوام کو کب تک بہلایا جاسکتا ہے؟ عوام کی تو خیر مجبوری ہے کہ ان کے پاس ہر دور میں اعتبار کرنے کے سوا چارہ ہی کیا ہوتاہے؟ نامعقول رہبروں کے پیچھے نامعلوم منزل کی طرف چلتے چلتے یہ قوم نہ صرف ہلکان ہو چکی ہے بلکہ اب ان حکمرانوں کی اصل حقیقت بھی جان چکی ہے۔ ملک و قوم کے غم میں مرے جانے والے لیڈر اپنی مجبوریوں اور دوستیوں کے ہاتھوں اس حد تک بے بس ہو جاتے ہیں کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ وہ بدعہدی اور بدترین حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کے ساتھ ساتھ عوام کی آس اور امید تک سب کچھ ہی چکنا چور کیے چلے جارہے ہیں۔
کہتے ہیں جن اشعار پر حاضرین اچھل اچھل کر ‘ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر داد دیتے ہیں اگر ان خیالات کا اظہار شعرا حضرات نثر میں کرنا شروع کر دیں تو وہ نہ صرف ان کے کپڑے پھاڑ ڈالیں بلکہ عین ممکن ہے اکثر کی تو ہڈی پسلی بھی سلامت نہ رہے۔ اسی تناظر میں حکمرانوں کی تضاد بیانیوں‘ بدعہدیوں‘ بے وفائیوں‘بے اعتدالیوں اور اُن کے متوقع اور منطقی نتائج کی تفصیل میں جانے سے بہتر ہے کہ چند اشعار کو بطور استعارہ استعمال کر لیا جائے؎
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
چراغِ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے جب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جاچکی ہے
کہ پردہ کب گرے گاکب تماشا ختم ہوگا
چلتے چلتے ایک انتہائی حساس اور اہم موضوع کی طرف بھی توجہ دلاتا چلوں کہ میڈیا اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹری کے بعد اب انصاف سرکار نجی جامعات کے در پے ہے۔ سرکار تو پہلے ہی تعلیم اور صحت جیسے بنیادی فرائض سے ہاتھ کھڑے کر چکی ہے۔ جن سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا باعث ِافتخار ہوا کرتا تھا آج ان کی حالتِ زار پر رونا آتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹیز تو دور کی بات ماضی کے پوزیشن ہولڈر اور ماڈل سکولز کی خستہ حالی اور بربادی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ انصاف سرکار کے چیمپئنز نے اگلے ایڈونچر کے لیے اعلیٰ تعلیم سے وابستہ نجی تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کر لیا ہے‘ جس کے نتیجے میں ہزاروں اساتذہ دربدر اور لاکھوں طلبہ کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔
یہ یقینا ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں نجی سیکٹر کا کردار نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی۔جدید تقاضوں سے ہم آہنگ سٹیٹ آف دی آرٹ انفراسٹرکچر کے ساتھ جو کچھ یہ طلبہ کو دے رہے ہیں گورنمنٹ سیکٹر میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ نجی جامعات کے نئے ڈیپارٹمنٹس اور پروگرامز کی منظوری میں بے جاالتوا بے چینی کا باعث بن رہا ہے۔ اس حوالے سے بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے ذریعے افراتفری پھیلانے کے بجائے زمینی حقائق کو ضرور ملحوظِ خاطر رکھا جائے کیونکہ بنیادی تعلیم سے لے کر جدید علوم تک تمام تر ذمہ داری ریاست کی ہے اور جب ریاست اپنا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہو جو ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ‘بلکہ وہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہو تو اسے اُس پرائیویٹ سیکٹرکی ضرور حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جس نے وہ بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ تعلیمی ذمہ داریاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ ادارے ملکی معیشت کے استحکام میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہوشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس حساس معاملے کو غیر سنجیدہ اور روایتی سیاستدانوں کے بجائے پروفیشنل اور تعلیم کی اہمیت سمجھنے والوں پر انحصار کیا جائے تاکہ حکومت ایک نئے بحران سے بچ سکے۔