لعنت ہے ایسی کمائیوں پر‘ تف ہے ایسے کاروبار اور بیوپار پر۔ ابھی کورونا کے چند ہی کیس منظر عام پر آئے تھے کہ کیسے کیسے چہرے بے نقاب اور ننگے ہوگئے۔ گراوٹ اور ہوسِ زر کا اس سے شرمناک نمونہ اور کیا ہوگا؟ سفاکی اور بے حیائی اور کیا ہوتی ہے؟ جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے انسانوں کو لاحق موت کے خطرات کی آڑ میں مال بنانے والے تو کفن چوروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ کفن چور تو رات کے اندھیرے میں چوری چھپے کفن چراتے ہیں لیکن حفاظتی ماسک اور ادویات بیچنے والے تو کھلے عام دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے ریکارڈ توڑتے نظر آتے ہیں۔
جس معاشرے میں جان لیوا وائرس سے بچائو کے سلسلے میں حفاظتی ماسک اور ادویات کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کرنا پڑے‘ پولیس اور انتظامیہ کو چھاپے مارنا پڑیں‘ اس سے بڑھ کر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار معاشرہ اور کیا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ ماسک کی قلت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دیں گے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو دفعہ 144 کا نفاذ، چھاپے اور گرفتاریاں کیا کسی فلم کی عکسبندی کا حصہ ہیں؟ رہی بات ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی تو ایسا کرنے والوں کو نہ تو کسی حکومتی عہدے دار کی جانب سے اجازت کی ضرورت ہے نہ کسی کی پروا؛ تاہم کورونا وائرس سے کہیں بڑھ کر مہلک منافع خوری اور ہوسِ زر کا وائرس ہے۔ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ اس ملک کا اصل مسئلہ اقتصادیات نہیں بلکہ اخلاقیات ہے۔ کورونا وائرس نے تو کچھ کرنا ہے یا نہیں ہمارے ہاں نہ جانے کتنے کورونے اور کرونڈیے کثرت سے پائے جاتے ہیں‘ جو اخلاقی اور سماجی قدروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
جس ملک کے حکمران مرچنٹ بن جائیں اور ہر کوئی حرام حلال سے بے نیاز مال بنانے کی دھن میں دوڑا چلا جا رہا ہو‘ وہاں ایسی صورتحال غیرمتوقع ہرگز نہیں۔ رمضان المبارک ہو یا عیدین‘ قدرتی آفات ہوں یا کوئی اور سانحہ یہ لوگ مال بنانے کا کوئی موقع ہرگز ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب تو چینی کی آڑ میں چونا لگانے والے انرجی سیکٹر میں بھی نئی گھات لگا چکے ہیں جبکہ سرکاری وسائل پر پلنے والے پرانے کھلاڑی بھی اندھا دھند چوکے چھکے لگائے چلے جا رہے ہیں۔ اس پر آئندہ کسی کالم میں تفصیلی بات اور چشم کشا انکشافات کروں گا۔ حالیہ ایک کالم میں بھی عرض کیا تھا‘ یہ ایسا سیاہ بخت خطہ ہے کہ یہاں پیدا ہونا ہی بازی ہار جانے کے مترادف ہے، کیسی کیسی بدنصیبی اور بدبختی ان کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے‘ جسے مٹانا ان کے بس کی بات نہیں۔ قدرتی آفات اور ناگہانی صورتحال جن کیلئے سیزن کا درجہ رکھتی ہوں وہاں مال بنانے اور دیہاڑی لگانے والے کیسا کیسا جگاڑ لگا ڈالتے ہیں‘ سب جانتے ہیں۔
ابھی تو کورونا کی آمد کا طبل ہی بجا ہے تو یہ صورتحال ہے۔ خدانخواستہ وہ اگر اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ساتھ آ گیا تو یہاں قبروں اور کفن کے لالے پڑ جائیں گے۔ پھر ہو سکتا ہے کچھ لوگ شہر خموشاں کے پروجیکٹس شروع کرنے سے بھی گریز نہ کریں اور قبرستانوں کے فیز بناتے دکھائی دیں۔ یہ لوگ سفید لٹھا اس طرح بلیک کریں گے کہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا‘ اور ہو سکتا ہے ہماری سرکار حسب معمول اس ممکنہ صورتحال نبرد آزما ہونے کے بھی قابل نہ ہو۔ یہاں تو ڈینگی مچھر نے ان کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ وہ تو خیر ہوئی‘ سردی میں شدت آئی تو ڈینگی مچھر اپنی موت آپ مارا گیا۔ ہاں البتہ سرکار نے ڈینگی مچھر کو ختم کرنے کی ڈینگیں ضرور ماری تھیں۔ یہ تمام خبریں ایسی ہیں جن پر کڑھنے اور ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ناامیدی کے سائے اتنے لمبے اور بے یقینی کے گڑھے اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔
دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ چھاپے مار کر جن سے حفاظتی ماسک اور ادویات برآمد کی جا رہی ہیں یا اوور چارجنگ کے مقدمات جن پر درج کیے گئے ہیں ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مہنگے داموں خرید کر اسی تناسب سے مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں جبکہ مال بنانے والے تو سب کچھ باہر بھجوا کر لمبا مال بنا بھی چکے ہیں۔
آئین سے قوانین تک‘ سماجیات سے اخلاقیات تک‘ اخلاقی قدروں سے عقائد تک سبھی کو بگاڑنے اور حشر نشر کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ کسی بھی حکومتی عہدیدار یا سرکاری اہلکار پر کوئی بھی الزام لگا دیجئے‘ کلک کر کے فٹ بیٹھ جائے گا۔ ایسا اندھیر کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آ رہا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ڈھونڈے سے بھی کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں مل سکتا‘ جس کی گواہی دی جا سکے کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کر دیا۔ دوہرے معیار اور من مرضی کے فیصلوں سے لے کر لوٹ مار اور نفسانفسی کے گھمسان تک نہ تو کسی نے منصب کا پاس رکھا اور نہ ہی کسی نے عوامی مینڈیٹ کی لاج رکھی۔ اس گلے سڑے بدبودار نظام میں ایسی گورننس اور طرزِ حکمرانی میں ایسا ایسا دلخراش اور نیم پاگل کرنے والا واقعہ شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ‘ صبح شام دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ اچھا بھلا ہوش مند بھی حواس کھو بیٹھے۔
جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں‘ اسی طرح فیصلے اور نتائج حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پتا دیتے ہیں۔ حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ‘ بد قسمتی سے سبھی نے آئین سے قوانین تک‘ نیت سے معیشت تک‘ بدانتظامی سے بدعنوانی تک‘ بدعہدی سے خودغرضی تک‘ وسائل کی بربادی سے وسائل کی بندر بانٹ تک کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ذاتی خواہشات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں اور غیر منطقی فیصلوں کے اثراتِ بد ملک کے طول و عرض میں ہر سو بکھرے نظر آتے ہیں۔ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر آج تک تمام حکمرانوں میں ایک ہی قدر مشترک رہی ہے‘ ووٹ دینے والوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے رہنا‘ مینڈیٹ دینے کی سزا بلا ناغہ دینا۔
سکھر میں روہڑی کے قریب مسافر کوچ اور ٹرین کے ہولناک تصادم نے ریلوے کی کارکردگی اور وزیر ریلوے کی اہلیت پر ایک بار پھر سوال اٹھا دیا۔ حادثہ اتنا دلخراش اور ہیبت ناک تھا کہ ٹرین کی ٹکر سے مسافر کوچ تین حصوں میں تقسیم ہو گئی اور کوچ میں سوار انیس مسافر بے موت مارے گئے‘ جبکہ درجنوں شدید زخمی ہوئے۔ حادثہ ریلوے کراسنگ پر پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ ٹرین پٹڑی سے نہیں اتر گئی ورنہ نجانے اور کتنے بے گناہوں کا خون ریلوے کی گورننس کی بھینٹ چڑھ جاتا۔ شیخ رشید صاحب کے بارے میں شاید ٹھیک ہی کہا جاتا ہے کہ انہیں سوائے اپنے فرائض منصبی کے ہر بات اور ہر کام کا پتا ہوتا ہے۔ خود کو عقل کل اور ہرفن مولا سمجھنے والے یہ وزیر صاحب روز اول سے ہی ریلوے کی کارکردگی اور ٹرینوں میں سفر کرنے والے مسافروں پر بھاری ہیں۔ ابھی چند ہی روز پہلے تو عدالت عظمیٰ نے ریلوے کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ دنیا بھر میں ٹرین کے سفر کو سب سے محفوظ اور آرام دہ تصور کیا جاتا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے مسافروں کے لیے یہ سفرِ آخرت بن جاتا ہے۔ آئے روز ٹرین حادثوں سے لے کر چلتی ہوئی ٹرین میں آتشزدگی تک سے ہونے والی ہلاکتوں سے نہ کسی کو شرمندگی ہے نہ کسی ذمہ داری کا احساس۔ اس بار بھی نام نہاد کمیشن بنے گا‘ تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی‘ چھوٹے ملازمین کو رد بلا کے لیے بَلی کا بکرا بنا کر اصل ذمہ داروں کو پھر بچا لیا جائے گا۔ جس طرح تیزگام کی بوگی نمبر بارہ میں ہونے والی آتشزدگی کے نتیجے میں آسمان کو لپکتے آگ کے شعلوں اور کالے دھوئیں میں لاچار مسافروں کی چیخوں اور آہ و بکا کے ناقابل بیان قیامت خیز منظر کی ذمہ داری سلنڈروں پر ڈال دی گئی تھی‘ اسی طرح اس سانحہ کا بھی کوئی سرکاری جواز گھڑ لیا جائے گا۔ یہاں چلتے چلتے دھرنے کے دنوں میں 27 اگست 2014 کی رات گیارہ بجکر بیالیس منٹ پر تحریک انصاف کا آفیشل ٹویٹ من و عن شیئر کرتا چلوں جو چیئرمین عمران خان کی طرف سے جاری کیا گیا تھا:
All over the world, just on an incident of railway accidents, minister resigns. This is real democracy.