"AAC" (space) message & send to 7575

گھرکیوں نہیں آیا ؟

یہ کیسی تبدیلی ہے جو کچھ بھی تبدیل نہیں کر سکتی‘ وہی نظام‘ وہی پیچیدگیاں‘ وہی شکار‘ وہی شکاری‘ وہی کھیل‘ وہی کھلاڑی‘ وہی ڈراؤنے خواب‘ وہی تعبیریں‘ تمام عمر چلے گھر نہیں آیا... یہ چند سطریں ایک کالم سے مستعار لے کر شیئر کی ہیں۔ ان سطروں نے ہی نہ صرف ڈپریشن کو ضربیں دے ڈالی ہیں بلکہ جابجا پھیلے مایوسیوں کے سائے مزید لمبے اور گہرے ہو گئے ہیں۔ 24 سال سے تبدیلی اور تیسری قوت کی ضرورت کی اہمیت کو جس شدت سے اس کالم نگار نے اجاگر کیا‘ ملک بھر میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ دو پارٹی نظام کے خلاف سب سے پہلے آواز بھی انہوں نے ہی اٹھائی تھی۔
دوپارٹی نظام عوام کے لیے چکی کے وہ دو پاٹ بن چکا تھا جن کے درمیان عوام کئی دہائیوں سے بری طرح پستے چلے آرہے تھے۔ بلا شبہ یہ کریڈٹ بھی تحریک انصاف ہی کو جاتا ہے کہ اس نے نہ صرف یہ جمود توڑا بلکہ یکے بعد دیگرے باریاں لگانے والی دونوں پارٹیوں کو دیوار سے لگا ڈالا اور دونوں ہی پارٹیوں کے سربراہان سمیت ان کے کئی بڑے ناموں کو احتسابی عمل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تبدیلی سرکار کو برسرِ اقتدار آئے ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے‘ مگر ان کی طرزِ حکمرانی کا موازنہ اگر ماضی کے حکمرانوں سے کریں تو اس سرکار کو ایک بات ضرور ممتاز اور نمایاں کرتی ہے‘ وہ یہ کہ جن اُجاڑوں کا سامنا عوام نے گزشتہ بیس ماہ کے دوران کر لیا ہے وہ سابقہ ادوار کے مقابلے میں یقینا ریکارڈ مدت ہے۔ ان حالات میں حکمرانوں سے پوچھنا تو بنتا ہے کہ گھر کیوں نہیں آیا؟ 
قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف کا ڈھول بجا کر برسرِ اقتدار آنے والی تحریک انصاف نے اس قلیل عرصے میں طرزِ حکمرانی سے لے کر میرٹ اور گورننس سمیت سبھی کا جو حال کیا وہ بھی کسی ریکارڈ سے کم نہیں۔ ذاتی مصاحبین اور رفقا کی امورِ حکومت میں اجارہ داری اور ریل پیل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قوم کا مقدر کن ہاتھوں میں ہے۔ جو چیمپئنز اقتصادیات کے سقراط اور بقراط سمجھے جاتے تھے‘ وقتِ عمل آیا تو پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے۔ معیشت کے استحکام کے لیے سرکار کا پہلا انقلابی قدم ہی ان کے ڈھول کا پول کھولنے کے لیے کافی ثابت ہوا ۔وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں اور گاڑیاں ا س زور شور سے نیلامِ عام پر لگائی گئیں گویا ان کی نیلامی ہوتے ہی آسمان سے مال و دولت کی بارش شروع ہو جائے گی۔ بھینسوں اور گاڑیوں سے شروع ہونے والا یہ معاشی انقلاب آج قوم کو کن حالات سے دوچار کر چکا ہے اس پر رونا دھونا تو اب روز کا معمول ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ ان شعلہ بیانوں کو نہ معاشیات کا کوئی علم ہے اور نہ ہی اقتصادیات کا کچھ پتہ‘لگتا ہے ساری قابلیت اور مہارت انہی شعلہ بیانیوں میں ہی کہیں جل کر بھسم ہو چکی ہے۔ 
کورونا جیسی قیامت خیز صورتحال میں بھی سنجیدگی تو درکنار سارے اقدامات اور بھاشن تضادات کا مجموعہ دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت اور طبی ماہرین کی طرف سے خطرات کی واضح وارننگ کے باوجود انتظامی فیصلے کرنے کے بجائے سیاسی فیصلے کیے جارہے ہیں اور وفاقی حکومت ان ہنگامی حالات میں کوئی قومی پالیسی تشکیل دینے کے بجائے پوری قوم کو روز بروز کنفیوژن سے دوچار کر رہی ہے۔ سندھ میں سختی کے ساتھ لاک ڈاؤن جاری ہے تو پنجاب میں پہلے جزوی لاک ڈاؤن اور اب سمارٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر حکمران ویڈیو لنکس اور ٹاک شوز میں طوفان اُٹھانے تک محدود ہو چکے ہیں۔ سڑکوں اور چوراہوں پر عوام کا جم غفیر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرکار طے کر چکی ہے کہ اب فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے‘ جس نے کورونا سے بچنا ہے وہ گھر میں رہے اور جس نے کورونا کو دعوت دینی ہے وہ بھلے باہر گھومتا پھرتا رہے۔ 
دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں حکومت اس خدشہ کے پیش نظر عوام پر لاک ڈاؤن کی مزید سختیاں نہیں کرنا چاہتی کہ جس طرح عوام نے لاک ڈاؤن کے پھٹے چُک دئیے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بھوک اور تنگ دستی سے تنگ آکر حکومت کے پھٹے چُک دے۔غالباً اپنے پھٹے بچانے کے لیے ہی سرکار نے عوام کو سمارٹ لاک ڈاؤن کی آڑ میں اچھی خاصی آزادی دے ڈالی ہے۔ ایسی صورت میں الزام تو بہرحال کورونا وائرس پر ہی آنا ہے۔ میری نظر میں یہ سمارٹ لاک ڈاؤن نہیں بلکہ سمارٹ واردات ہے عوام کے ساتھ۔ عوام جسے نرمی سمجھ رہے ہیں وہ نرمی ہر گز نہیں بلکہ آنے والی سختیوں اور ہلاکتوں کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ 
ایسے ویژن اور قابلیت پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ خطیر رقوم سے فیلڈ ہسپتال تو بنائے جا رہے ہیں لیکن پہلے سے موجود ہسپتالوں کو اَپ گریڈ نہیں کیا جا رہا۔ شیخ زید ہسپتال کو نہ جانے کس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ ابھی تک اُسے مالی سال 2019-20 ء کا وہ بجٹ ہی فراہم نہیں کیا گیا جس سے ہسپتال کے اخراجات اور عوام کو علاج معالجہ کی سہولیات پہنچائی جاتی تھیں۔ حکومت صرف سٹاف کی تنخواہیں ادا کر کے ہی سمجھتی ہے کہ اس نے بہت بڑا کارنامہ انجام دے ڈالا۔ میرے خیال میں فیلڈ ہسپتال پر اخراجات سے کہیں بہتر تھا کہ شیخ زید ہسپتال کی مالی مشکلات دورکر کے اس کے کئی وارڈز کو کورونا ایمرجنسی کے دوران کام میں لایا جاتا۔ اس طرح ہسپتال کو کچھ سنبھالا مل جاتا اور مریضوں کو ایک چھت تلے کورونا سمیت تمام امراض کا علاج۔ 
شیخ زید ہسپتال کی حالت پر شیخ زید بن سلطان النہیان کی روح بھی تڑپتی ہوگی کہ تحفے میں دئیے گئے اس ہسپتال کا کیاحال کر دیا گیا ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ صرف یہ بے مثال ہسپتال تباہی سے دوچار ہے بلکہ مریض بھی رُل گئے ہیں۔ کورونا ایمرجنسی میں سرکار کی ساری توجہ صرف فنڈز لانے اور لگانے پر مرکوز ہے جبکہ ہوش مندی اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ فنڈز ہوا میں اڑانے کے بجائے زمین پر لگائے جائیں اور جو سرکاری ہسپتال مالی مشکلات سے دوچار ہیں انہیں اَپ گریڈ کر کے کورونا ایمرجنسی میں بھرپور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ کی گئی تو فیلڈ ہسپتالوں سمیت دیگر اخراجات کسی بڑے مالی سکینڈل اور بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں۔ 
پنجاب حکومت ڈیڑھ سال میں تیسرا چیف سیکرٹری تبدیل کر چکی ہے جبکہ موجودہ آئی جی صوبے میں پانچویں پولیس سربراہ ہیں۔ ہربار ان تعیناتیوں پر قوم کو یہ خوشخبری سنائی جاتی کہ پنجاب کے عوام کے لیے بہترین افسران کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان سارے افسران کا شمار بلاشبہ قابل اور نامور بیوروکریٹس میں ہوتا ہے۔ نجانے سسٹم میں کونسی خرابی ہے جو گورننس کو پنپنے ہی نہیں دے رہی اور ہر بار کسی چیف سیکرٹری کو یا کسی آئی جی کو غیر موزوں قرار دے کر چلتا کر دیا جاتا ہے۔تین ماہ پہلے یہ سمجھا گیا تھا کہ وسیع پیمانے پر تبادلوں کے نتیجے میں بننے والی نئی ٹیم گورننس اور ڈیلیوری کو یقینی بنائے گی‘ لیکن اس بار بھی سیاسی حکومت چیف سیکرٹری سے مطمئن نہ ہو سکی اور نئے آنے والے چیف سیکرٹری سے بھی عین وہی توقعات لگائے بیٹھی ہے جو سابقہ چیف سیکرٹری صاحبان سے وابستہ کی تھیں۔ ویسے تو یہ کسی بھی حکومت کا صوابدیدی اختیا رہے کہ وہ کسی بھی افسر کو انتظامی بنیادوں پر تبدیل کر سکتی ہے‘مگر وہ کونسی انتظامی بنیادیں ہیں جن کا تعین ہی نہیں ہو پارہا؟ وہ کونسا حکومتی پیج ہے جس پر کوئی چیف سیکرٹری اور آئی جی پورا ہی نہیں اُترپاتا؟ وقت آ گیا ہے ان معاملات پر سنجیدگی اختیار کی جائے تاکہ گڈ گورننس کو یقینی بنایا جا سکے اور عوام کی وہ امیدیں پوری ہو سکیں جن کے پورے ہونے کی امید پر عوام نے تحریک انصاف کو موقع دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں