اعصاب سے لے کر نفسیات تک‘ دل و دماغ سے لے کر ہوش و حواس تک‘ دن کے چین سے لے کر رات کے آرام تک... سبھی پر حشر کا سماں ہے۔اسے بربریت کہوں‘دہشت گردی کہوں‘ ڈرون حملہ کہوں‘ سفاکی کہوں‘کیا کہوں؟ دماغ شل اور آنکھیں پتھرائی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ تصور سے ہی میری تو روح کانپ اٹھتی ہے تو پھر لاہور کے اس شہری عمران کا کیا حال ہوا ہوگا جو اپنی چھ سالہ بچی کو موٹر سائیکل پر بٹھائے فیملی کے ہمراہ ہنسی خوشی جارہا تھا کہ ایک قاتل ڈور آئی اور اس معصوم کے گلے پر چھری کی طرح چل گئی۔ خون کا فوارہ اُبلا اور باپ کو اپنے جگر کے ٹکڑے کے خون میں تر کر گیا۔ یہ کوئی پہلا دلخراش واقعہ نہیں‘ یہ پہلی ڈور نہیں جو کسی معصوم کی شہ رَگ پر پھری ہو۔ آئے روز ایسے واقعات سنتے اور دیکھتے ہیں‘ لیکن رسمی افسوس کے بعد پھر دنیا کے جھمیلوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
جس روز لاہور میں یہ دلخراش واقعہ ہوا عین اُسی روز فیصل آباد میں جواں سال حمزہ بھی خونی ڈور کا شکار بن کر منوں مٹی تلے جا سویا۔ یہ کیسا کھیل ہے‘ یہ کیسا شوق ہے‘ اس سے بڑھ کر خون کی ہولی اور کیا ہوگی؟ اسی خون ریزی کی وجہ سے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس خونیں کھیل پر پابندی لگادی تھی‘ مگر پابندی کے باوجود پتنگ بازی جاری ہے اور اس سے جڑے سانحات بھی تواتر سے رونما ہوتے چلے آرہے ہیں۔ کرئہ ارض پر شاید ہی کوئی ایساخطہ ہو جہاں آئین سے قوانین تک‘ سماجیات سے معاشیات تک‘ اخلاقی قدروں سے لے کر مذہب اور عقائد تک‘ سبھی کو بگاڑنے اور حشر نشر کرنے میں ہمارا کوئی ثانی ہو۔ افسوس ہے ایسے گلے سڑے نظام پر‘ ایسی گورننس پر‘ ایسے طرزِ حکمرانی پر‘ ایسے سیاسی بیانات پر‘ ایسے معاشرے اور اخلاقی قدروں پر۔ یوں لگتا ہے کہ قتلِ طفلاں کی منادی ہو چکی ہے اور نثار ناسک کا یہ شعر بے اختیار یاد آرہا ہے؎
قتلِ طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں
ماں مجھے بھی مثلِ موسیٰ تو بہا دے نہر میں
ان ناحق مارے جانے والوں کا خون رائیگاں سمجھنے والوں کو خبر ہو کہ جن مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا‘ قاتل کیفرِ کردار تک نہیں پہنچتے‘ ان مظلوموں کی فریادیں بارگاہِ الٰہی میں پیش ہو کر دہائی دیتی ہیں۔ معصوم حریم ہو یا جواں سال حمزہ ‘دونوں یقینا بارگاہِ الٰہی میں پیش ہوکر اپنا مقدمہ درج کروا چکے ہوں گے۔ مقدمات تو زمین پر بھی درج ہو چکے ہیں اور عوام بھی وقتی افسوس کرنے کے بعد اپنے جھمیلوں میں گم ہو چکے ہیں۔ پولیس کو ان واقعات کا ذمہ دار قرار دے کر عوام خود کو بری الذمہ تصور کرتے ہیں‘ جبکہ ان واقعات کی ذمہ داری صرف پولیس پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔
پولیس گلی گلی پھر کر پتنگ بازی کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہے؟ یہ صرف انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی بھی ہے۔ یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اردگرد نظر رکھیں‘ اس جان لیوا شوق کے سامان کی تیاری سے لے کر پتنگ بازی تک سبھی کچھ تو ہمارے اردگرد ہو رہا ہوتا ہے۔ نہ پتنگ نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوتی ہے اور نہ پتنگ اُڑانے والے نے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی چھت سے پتنگ اُڑائی جائے اور اس کے اردگرد رہنے والے ہمسایوں کو پتہ نہ چلے کہ فلاں چھت سے پتنگ اُڑائی جا رہی ہے۔ ہمسائے میں اگر کسی کے گھر آگ لگی ہو تو چند بوکے یہ سوچ کر ضرور ڈال دینے چاہئیں کہ یہ آگ کہیں میرے گھر تک نہ آن پہنچے۔ اسی طرح پتنگ بازی کی اطلاع ایمرجنسی 15پر ضرور کرنی چاہیے کہ یہ خونی ڈور کہیں میرے آنگن میں نہ پھر جائے۔ ویسے بھی پتنگ اُڑانے والے سے کیسی ہمدردی‘ کیسی ہمسائیگی اور کہاں کی وضع داری۔ یہ سبھی کچھ نبھانے والے پتنگ بازوں کے ساتھ اس خونیں کھیل میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
انہیں نظرانداز کرنا مجرمانہ غفلت سے ہرگز کم نہیں۔ اس حوالے سے معاشرے میں یہ احساس اُجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکاہے کہ پتنگ بازی کرنے والا ہمارا کھلا دشمن ہے۔ مساجد‘ تعلیمی اداروں اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلانا بھی ضروری ہے کہ جہاں پتنگ بازی ہوتی نظر آئے فوری طور پر پولیس کو اطلاع ضرور کریں تاکہ یہ جان لیوا شوق مزید قیمتی اور معصوم جانیں لینے کا باعث نہ بنے۔ ایسے واقعات پر پولیس کو موردِ الزام ٹھہرا کر ہم کسی طرح بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ مسئلہ صرف انتظامی ہی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی بھی ہے۔ اپنی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے انتظامیہ کا مددگار بننا ہوگا‘ تب کہیں جاکر یہ خونیں اور جان لیوا کھیل روکا جا سکتا ہے۔
تاہم ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جس طرح پولیس کو قمار بازی‘ منشیات فروشی اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانوں کا علم اکثر'' غیب‘‘ سے آجاتا ہے‘ اسی'' علم ِغیب‘‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ خبر پتنگیں اور ڈور بنانے والوں کی بھی لے لیا کریں۔ جس طرح قمار بازی اور منشیات کے اڈوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں اسی طرح ان چھپے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بھی انسدادی کارروائیاں کریں تاکہ نہ پتنگ اور ڈور تیار ہو اور نہ ہی کسی چھت سے اُڑائی جا سکے۔ اس جان لیوا خونیں کھیل کے امکان کو ختم کرنا ہی اصل کام ہے۔ یہ خونی ڈور گلے پر پھرنے سے پہلے کسی کا نام اور مقام نہیں پوچھتی‘ ہر خاص و عام کو اپنا کردار اس لیے ادا کرنا کہ یہ قاتل ڈور کہیں میرے آنگن میں نہ پھر جائے۔
یہ کیسا خطہ ہے‘ کیسی کیسی بدنصیبی اس میں بسنے والوں کے بختوں میں لکھ دی گئی ہے‘ نہ احترام ِ آدمیت ہے نہ لحاظِ منصب‘ نہ آئین کی پاسداری ہے نہ قانون کی حکمرانی‘ نہ اخلاقی قدریں ہیں نہ سماجی انصاف۔نہ رواداری ہے نہ وضع داری اور نہ ہی احساسِ ذمہ داری۔ ایسے ایسے شرمناک‘ غیر انسانی اور دل دہلا دینے والے مناظر رات کی نیند اور دن کا چین برباد کیے رہتے ہیں‘ الامان و الحفیظ۔ کہیں کتا گردی کے نتیجے میں معصوم بچے بھنبھوڑے جاتے ہیں تو کہیں خواہشِ شیطانی کے نتیجے میں اغوا اور درندگی کے بعد انہیں دردناک موت کی گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ ہمارا من حیث القوم روّیہ بس یہی ہوتا ہے کہ ؎
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ افراد اور اقوام اپنی غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد سے تباہ ہوتے ہیں۔ غیر سنجیدہ‘ بے حس اور دردِ دل سے عاری معاشرہ عذابِ الٰہی کا موجب بنتا ہے۔ کورونا سمیت عذابِ الٰہی کی کتنی ہی تازہ ترین شکلیں ہم صبح و شام دیکھتے ہوئے بھی انجان بنے پھرتے ہیں۔بے موسمی بارشیں‘ فصلوں کی تباہی اور ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک‘ گرانی‘ بدحالی اور مہنگائی کی تباہی کے سواعوام کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ یا اﷲ رحم... یاخدایا رحم...یہ سب تیری ناراضی اور خفگی کے نمونے ہیں ۔ کون سی اصلاحات‘ کون سے اقدامات‘ کیسی پالیسیاں اور کون سی گورننس... جب ہمارا رب ہی ہم سے ناراض ہے تو پھر ہماری تدبیریں اور تحریکیں کیا حیثیت رکھتی ہے؟ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک‘ مشرف سے لے کر شوکت عزیز تک‘ زرداری سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک یہ سبھی ہمارے اعمالوں کی سزائیں ہیں جن سے نجات صرف اعمال کی درستی اور توبہ کی قبولیت کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ بے شک یہ مقامِ توبہ ہے‘ مقامِ استغفار ہے۔