"AAC" (space) message & send to 7575

جینا یہاں… مرنا وہاں

تواتر سے باور کرائے چلا جا رہا ہوں کہ اعلیٰ عدالتوں کے از خود نوٹسز اور دورانِ سماعت ریمارکس کو ہرگز ''ایزی‘‘ نہ لیں۔ کورونائی اقدامات پر ناقابلِ یقین اخراجات ہوں یا ادویات کی قیمتوں میں لگائی گئی آگ، آٹے کا گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈالنے کی واردات ہو یا چینی کا زہر گھولنے کی، میرٹ کی دھجیاں اُڑانے کے واقعات ہوں یا گورننس کے ڈھول کا پول کھولنے پر لیے جانے نوٹسز، دن بدن انتہائی اہمیت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ طرزِ حکمرانی پر نہ صرف مسلسل سوال اٹھائے جا رہے ہیں بلکہ حکمرانوں کو کڑے سوالات کا بھی سامنا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے تازہ ترین ریمارکس شیئر کرتا چلوں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی سرکاری محکمے میں وزراء کی سفارش ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس یقینا حسبِ حال ہیں۔
سرکاری محکموں میں وزراء کی مداخلت اور میرٹ کی ایسی تیسی کرنے کے واقعات دن بدن نہ صرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں بلکہ آنے والے دنوں میں یہ سکینڈلز چارج شیٹ میں بھی بدلتے دِکھائی دیتے ہیں۔ اس موقع پر شہبازشریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور کا ایک واقعہ بے اختیار یاد آ گیا ہے جو اُس وقت کے ایک صوبائی وزیر سے متعلق اور کچھ یوں ہے کہ اس نے ایوانِ وزیر اعلیٰ میں دہائی دی کہ فلاں سرکاری افسر میرے حلقے میں تعینات ہے لیکن میرے کام کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے‘ جس کی وجہ سے مجھے حلقے میں اپنے ووٹرز کے سامنے سُبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میری سیاسی پوزیشن خراب ہونے کے ساتھ ساتھ حلقے کے عوام بھی نالاں ہیں۔ اس شکایت پر متعلقہ افسر کو طلب کر کے پوچھا گیا کہ وہ وزیر موصوف سے یہ سلوک کیوں کر رہا ہے؟ جس پر وہ بولا جناب والا! میں وزیر صاحب کے ہونے والے کام ضرور کرتا ہوں لیکن میں ان کے سبھی کام کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ اِن کے پاس وزارت ایک ہے اور اسے چلانے والے ان کے بھائی کئی ایک ہیں۔ ایک بھائی پکڑواتا ہے تو دوسرا چھڑوانے آ جاتا ہے۔ صبح مدعی کیلئے فون کرتے ہیں، شام کو ملزم کے سفارشی بن جاتے ہیں۔ ان حالات میں‘ میں سبھی بھائیوں کی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ واقعہ مجھے بوجوہ یاد آ گیا ہے کیونکہ دورِ حاضر میں بھی ایسے واقعات کئی گنا اضافے کے ساتھ صبح شام، جابجا، ہر سو دیکھنے اور سننے کو تواتر سے مل رہے ہیں۔ معاملات تھانہ کچہری تک ہی محدود نہیں بلکہ تقرریوں اور تبادلوں سے لے کر ٹھیکوں کی بندر بانٹ تک جا پہنچے ہیں جبکہ عوام الناس کے اکثر کاموں کیلئے بھی ٹینڈر سسٹم متعارف کروایا جا چکا ہے۔ کئی وزراء کیلئے ان کے حواری اور بھائی برادرِ یوسف بنتے دِکھائی دیتے ہیں اور آنے والے دنوں میں ان سب کی کارستانیاں یقینا وبالِ جان بن سکتی ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا اور کون کون سے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں۔ 
لاہور ہائی کورٹ نے بھی کورونا کے علاج سے متعلق ادویات کی عدم دستیابی اور مصنوعی قلّت پر نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر وفاقی وزیر کو انجکشن نہیں مل سکا تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟ عدالتِ عالیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ جس چیز کا نوٹس لیا جاتا ہے وہ مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔ گورننس کے ناپید ہونے کی بھی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ مبینہ طور پر گزشتہ روز ایک ''گپت واردات‘‘ کی لیکیج ہونے پر دو اعلیٰ سرکاری افسران کو صوبہ بدر کر کے توڑی کی پنڈ کھلنے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دونوں افسران انتہائی اہم عہدے پر فائز تھے۔ کہا جاتا ہے کہ صوبہ بدر ہونے والے دوسرے اہم افسر اس گپت واردات میں کوآرڈی نیشن کی ذمہ داری پر مامور تھے۔ دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ اس گپت واردات کے مزید کردار بھی آئندہ چند دنوں میں بے نقاب ہو کر دربدر ہو سکتے ہیں‘ جن میں غالباً کچھ اہم سیاسی شخصیات اور مزید سرکاری بابو بھی شامل ہوں گے۔ 
گورننس پر اٹھنے والے سوالات اور عوام کے مصائب روزِ اوّل سے جوں کے توں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن پر قلم آرائی کرتے وقت اکثر گماں ہوتا ہے کہ اپنے ہی کسی کالم کو دہرا رہا ہوں یا اس کا چربہ لکھ رہا ہوں جبکہ ہر کالم میں نہ صرف تازہ ترین معلومات شیئر کرنے کی کوشش کرتا ہوں بلکہ ہر بار نیا نوحہ پڑھتا ہوں، کالم دہرائے جانے کا یہ احساس محض اس لیے ہوتا ہے کہ یہ سبھی نوحے گزشتہ سے پیوستہ ہوتے ہیں۔ پچھلے زخم نہ بھرے ہوں تو نئے زخم درد کا احساس بڑھا دیتے ہیں اور یہ بڑھتا ہوا درد اس شدت کو پہنچ جاتا ہے کہ درد سے کراہنے والا بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ: 
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا 
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے 
چارہ گر سے یہ گلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ سیاہ بخت عوام یہ گلہ اپنے چارہ گروں سے ازلوں سے کرتے چلے آرہے ہیں بلکہ یہ گلہ بھی ان زخموں کا ہم عمر ہی ہے۔ لٹنا اور مٹنا کیا صرف عوام کا ہی نصیب ہے۔ ان چارہ گروں کا بس ایک ہی مشن ہے، عوام کی مت مار دو اور خواص کا ضمیر مار دو، اس کے بعد دروغ گوئی اور گمراہ کن اعداد و شمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ڈھول پیٹو کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابقہ ادوار کا دورِ حاضر سے موازنہ کریں تو ایک ہی چیز مشترک نظر آتی ہے کہ بدترین طرزِ حکمرانی اور میرٹ کا حشر نشر کرنے کی جو روایت ماضی کے حکمران قائم کر چکے ہیں اس روایت کو نہ صرف برقرار رکھنا ہے بلکہ ان کے ریکارڈ توڑنے کی بھی کوشش جاری رکھنی ہے اور سرکار اپنے تمام مشیروں اور وزیروں کے ساتھ یہ سبھی ریکارڈ توڑتی بھی نظر آتی ہے۔ 
وزیراعظم کے 15معاونین خصوصی کے اثاثہ جات کی تفصیل جاری کر دی گئی ہے۔ ان میں بعض دہری شہریت کے حامل بھی ہیں۔ جس ملک کے وزیراعظم اور وزراء دوسرے ملکوں کے اقامے اور ورک پرمٹ محض اس لیے بنوا کر پوشیدہ رکھتے ہوں کہ نجانے کس وقت بھاگنا پڑ جائے وہاں دہری شہریت کے حامل معاونین کا ہونا کون سے اَچنبھے کی بات ہے۔ جس ملک کی دو خواتین افسران سمیت 120 سے زائد اعلیٰ سرکاری افسران نے غیر ملکیوں سے شادیاں رچا کر دہری شہریت حاصل کرنے کا آسان راستہ ڈھونڈ نکالا ہو‘ وہاں کیا نہیں ہو سکتا۔ یہ غیر ملکی جیون ساتھی بھارت، امریکہ، روس، فلپائن، تھائی لینڈ، چین، برطانیہ، نائیجیریا، اٹلی، کینیڈا، فن لینڈ، ڈنمارک، ترکی، جاپان، جرمنی، ایران، لبنان اور قازقستان سمیت دیگر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سبھی ''ڈیپوٹیشن‘‘ پر آئے ہوئے ہیں۔ سرکار کے معاونین ہوں یا اعلیٰ سرکاری افسران، ان کی رہائش سے لے کر تمام مراعات تک کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان پر ہے اور جب ان کا کام ختم ہو جائے گا تو یہ واپس چلے جائیں گے۔ دل و دماغ بیرون ملک‘ اور صرف جسم پاکستان میں‘ اوراس جسم کے ہاتھ وطن عزیز کے وسائل کی جیب پر‘ اور جسم کے دانت وسائل کی شہ رَگ پر ؎
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو دانت ہیں سب کے
ماضی قریب میں ہی اہم ترین عہدوں سے سبکدوش ہونے والی شخصیات وطن عزیز کے بجائے بیرون ممالک میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں‘ جو قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم ہے یوں لگتا ہے کہ جب تک ان سب کا اقتدار اور اختیار کا سکہ چلتا رہتا ہے‘ یہ پاکستان پر مسلّط رہتے ہیں اور جیسے ہی ان پر کڑا وقت آتا ہے یہ بیرون ممالک ایسے سکونت اختیار کر لیتے ہیں کہ جیسے پاکستان کے حالات اور مسائل سے ان کا کوئی تعلق واسطہ نہ ہو۔ یعنی جینا یہاں... مرنا وہاں کیونکہ ان کے کارنامے ہی کچھ ایسے ہیں کہ یہاں یہ شان سے جیتے تو رہے ہیں لیکن عزت اور شان سے مرنے کی گارنٹی ان کے پاس نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں ''لٹو تے پھٹّو‘‘ کے مصداق زندگی کے آخری ایّام یہ سبھی وہیں گزار رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں