"AAC" (space) message & send to 7575

شیریں مزاری کا پورا سچ

وفاقی وزیر شیریں مزاری نے تو ڈھول کا پول ہی کھول کر رکھ دیا ہے۔ کشمیر کاز پر دفترِ خارجہ کی کارکردگی پر سوالات اُٹھا کر انہوں نے وزارت اور سفارت دونوں کو ہی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دفترِ خارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں نے وزیراعظم کی کوششوں اور کشمیریوں کی جدوجہد کو ناکام بنا دیا ہے۔ دفترِ خارجہ اگر اپنا کام کرتا تو دنیا کشمیر ایشو پر ہماری بات ضرور سنتی‘ مگر ہمارے سفارت کاروں کو آرام دہ طرزِ زندگی‘ تھری پیس سوٹ‘ کلف لگے کپڑے پہننے اور ٹیلی فون کرنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ انہوں نے ایک اور فکرانگیز سوال اُٹھایا ہے کہ کیا ہماری وزارتِ خارجہ برکینا فاسو سے بھی گئی گزری ہے‘ اُس نے تو امریکہ کے خلاف قرار داد منظور کروا لی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کشمیر کاز کے لیے ہمیں روایتی سفارت کاری سے نکلنا ہوگا اور جدید خطوط کے ساتھ ساتھ کشمیری ثقافت‘ شاعری‘ مصوری اورفنونِ لطیفہ کی دیگر جہتوں کو بروئے کار لانے پر بھی زور دینا ہو گا۔ 
شیریں مزاری کی اس صاف گوئی پر دیکھتے ہیں ہمارے وزیر خارجہ اب کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔ ایسے دھیمے لہجے میں وہ بات کرتے ہیں گویا کوئی اہم ترین راز شیئر کر رہے ہوں ‘ ایسے کئی راز عوام سے شیئر کرنے کا کریڈٹ بھی یقینا انہی کو جاتا ہے۔ گزشتہ برس بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370کی تنسیخ اور مقبوضہ کشمیر کی مخصوص شناخت ختم کرنے کے بعد کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی انہوں نے قوم کو بتایا تھا کہ متحدہ عرب امارات کشمیر پر ہمارے مؤقف کا حامی ہے۔ ادھر وزیر خارجہ قوم سے یہ ''انتہائی اہم راز‘‘ شیئر کر رہے تھے اُدھر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد بھارتی وزیراعظم کے گلے میں میڈل ڈال کر کشمیر پر بھارتی مؤقف کی تائید کے ساتھ ساتھ اُن پر واری واری بھی جا رہے تھے۔ ہمارے وزیر خارجہ متحدہ عرب امارات سے یہی آس لگائے بیٹھے تھے کہ وہ ہمیں کبھی مایوس نہیں کرے گا۔ وہ تو امارات کے ولی عہد نے مودی کے ساتھ پُرجوش ملاقات اور میڈل پہنانے کی تقریب کی تصاویر جاری کروا دیں‘ ورنہ وزیر خارجہ اتنے اہم راز کا بوجھ نجانے کب تک لیے پھرتے۔ کشمیر کاز سمیت دیگر خارجہ امور پر ہماری گرفت اور خود مختاری کے حوالے سے بیانات اور بھاشن سن کر شعور اور فہم رکھنے والا سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کیا فرمایا جا رہا ہے۔
بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد ہمارے وزیراعظم کا بھی یہی مؤقف رہا ہے کہ کچھ مسلم ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی مجبوریوں کی وجہ سے کشمیر ایشو پر ہمارا ساتھ نہیں دے پا رہے۔ سوال یہ ہے کہ جن اقتصادی مجبوریوں کا فائدہ آج بھارت پوری دنیا سے اٹھا رہا ہے ہم وہ مجبوریاں کیوں نہیں پیدا کر سکتے؟ دنیا بھر میں ہمارے سفارت خانے کون سی خدمات میں مصروف رہے ہیں؟ دوست اور برادر ملک ہمارے‘ مفادات اور مجبوریاں بھارت کے ساتھ... واہ واہ! کیا خوب کارکردگی ہے وزارتِ خارجہ کی۔ ہمارے سفارت خانے اگر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے ہوتے تو صورت حال یقینا مختلف ہوتی۔ 
دنیا بھر میں بھارتی سفارت خانے اپنی مصنوعات سے لے کر کلچر کے فروغ تک جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ بھارت کئی ملکوں کی معاشی مجبوری بن چکا ہے۔ یہ مجبوری وہ ایک دن میں نہیں بنا اور نہ ہی ا س میں کوئی راکٹ سائنس ہے۔ کئی دہائیوں سے بھارتی سفارت خانے اپنے ملک کی نمائندگی کچھ اس طرح سے کر رہے ہیں کہ آج دنیا بھر میں ان کی مصنوعات اور کلچر نا قابلِ تردید حقیقت بنتا چلا جا رہا ہے جبکہ اکثر ممالک کے لیے بھارت بہت بڑی منڈی کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی سفارت کاری ہم پر کاری ضرب سے کم نہیں ہے۔ عرب ممالک اورامریکہ جیسے ممالک بھارت کی اہمیت ہم پر واضح کر چکے ہیں اور ہم ابھی تک یہ کہے چلے جارہے ہیں کہ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارا مؤقف سنا اور تسلیم کیا جائے گا۔ وزارتِ خارجہ کے تحت چلنے والے ادارے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کا منظر نامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فارن پوسٹنگز کے لیے صرف اثرورسوخ اور حکمرانوں تک رسائی درکار ہے۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کی بنیاد پر تقرریوں اور تعیناتیوں نے فارن سروس کا بیڑا غرق کر ڈالا ہے۔ اندرونِ ملک سیاسی مصلحتوں‘ بڑی سفارشو ں اور کچھ لے دے کر من چاہی تعیناتیاں تو عام ہیں ہی لیکن بیرونِ ملک ہمارے سفارتخانوں میں بھی تقرریوں اور تعیناتیوں کا یہی معیار اور کلچر اپنے عروج پر ہے۔
سوال یہ ہے کہ جس طرح بھارت دنیا بھر کی اقتصادی مجبوری بن کر ہمارے سینے پر مونگ دل رہا ہے وہ مجبوری ہم کیوں نہیں بن سکے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ رائٹ مین فار رائٹ جاب کے تصور کی نفی ہے۔ سیاسی تقرریوں کے علاوہ نالائق‘ غیر سنجیدہ اور منظورِ نظر افسران کی تعیناتیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ ہماری سفارتی کمزوریاں ہماری پسپائی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ سفارتخانوں میں تعیناتی کو سیر سپاٹے‘ موج مستی اور پی آر کے لیے استعمال کرنے والوں نے جو چاند چڑھایا ہے اس نے وزارتِ خارجہ کی کارکردگی کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ 
کہاں دیوارِ چین جیسے شاہکار عجوبے کی مرمت و بحالی کے لیے مالی معاونت کرنے والا پاکستان اور کہاں وطنِ عزیز کی موجودہ صورت حال۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک زمانے میں چین میں پاکستانی سفارتخانہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ پاکستان سے ادیبوں‘ شاعروں اور فنونِ لطیفہ سے متعلق دیگر شخصیات کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اکثر تو پاکستانی سفیر اپنی رہائشگاہ بھی ان مہمانوں کے طعام و قیام کے لیے پیش کر دیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے سابق سفیر اکرم ذکی کا نام قابلِ ذکر اور سرفہرست ہے۔ انہوں نے اپنی سفارتکاری کے ایام میں ان سرگرمیوں اور تقریبات کے انعقاد کے لیے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں پاکستانی ادب‘ ثقافت‘ فلم اور ڈرامہ سبھی چین میں بھر پور متعارف ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں پاکستانی فلمیں بھی انتہائی پسند کی جاتی تھیں۔ ہمارے ماضی کے کئی اداکار چین میں جانے مانے جاتے تھے۔ آج یہ عالم ہے کہ کلچر سے لے کر کمپیوٹر سائنسز اوردیگر علوم تک انڈیا اپنی مصنوعات کا لوہا نجانے کتنے ممالک میں منوا چکا ہے۔ بھارتی سرکار اپنے سرکاری اور غیر سرکاری تمام شعبوں کی سرپرستی اور خبرگیری کرتی ہے۔ اس محاذ پر بھی پاکستانی سفارتخانوں کی کارکردگی صفرہے ۔ اس پہ ستم یہ کہ وزارتِ خارجہ جن سماج سیوک نیتاؤں کے ہتھے چڑھی رہی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ وزرائے خارجہ سے لے کرسفیروں اور اتاشیوں تک سبھی کی کارکردگی کا پول کھل چکا ہے۔
کشمیر کے ایشو پر اگر ہمیں کہیں پسپائی کا سامنا ہے تو صرف سفارتی محاذ پر۔ اگر ہمارا سفارتی محاذ مضبوط اور مؤثر ہوتا تو اقوامِ عالم کا یہ ردِ عمل ہرگز نہ ہوتا۔ ہماری نازک معاشی اور اقتصادی صورتحال اور سفارت خانوں کی ناقص کارکردگی نے مل کر بھارت کو منہ زوری اور جارحیت کا موقع فراہم کیا ہے۔ مسلم اُمہ اور دیگر دوست ممالک کی سرد مہری اور بے رخی پر واویلا کرنے کے بجائے ان وجوہات اور اسباب کا تعین کرنا چاہیے جن کی وجہ سے آج ہم عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ ویسے بھی مسلم اُمہ کے جس بھائی چارے کا ڈھول ہم پیٹتے پھرتے ہیں وہ چارہ بھی بھارت کب کا چر چکا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں