نجانے وہ کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں سے ایسے فیصلے کروا دیتا ہے کہ پسپائی کے ساتھ ساتھ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ پسپائی‘ رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بننے والے فیصلوں اور اقدامات کے پسِ پردہ کردار کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ حکمرانوں کے اردگرد آگے پیچھے پھرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں ''عرفِ عام‘‘ میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی وفاداری کو مسلمہ ثابت کرنے کے چکر میں حکمرانوں کو بھی چکر دے جاتے ہیں‘ جس کے نتائج کا خمیازہ بہرحال حکمرانوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ فیصلے سیاسی ہوں یا انتظامی ان کا ردِّ عمل حکمرانوں کی سیاست اور ساکھ‘ دونوں کو ہی یکساں متاثر کرتا ہے۔
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہر دورِ میں حکمرانوں کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے چلے آئے ہیں۔ تحریک انصاف اس ''پراڈکٹ‘‘ میں کافی خود کفیل محسوس ہوتی ہے۔ افتادِ طبع سے مجبور کیا وزیر کیا مشیر صبح شام کیسا کیسا تماشا، کیسا کیسا سرکس لگائے رکھتے ہیں۔ کبھی درجنوں مائیک آگے سجائے تو کبھی ٹاک شوز میں سبکی، ندامت اور جگ ہنسائی کا سامان کچھ اس طرح کرتے نظر آتے ہیں کہ سننے اور دیکھنے والا چکرا کر رہ جائے کہ یہ مخالفین کا تبرّہ کر رہے ہیں یا اپنی نالائقی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ کوئی نوازشریف کی بیماری کو ڈرامہ ثابت کرنے پہ تلا ہوا ہے تو کوئی ضمانت نامہ لہرا لہرا کر میڈیا کو دِکھا رہا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی کی واپسی کے ضامن ہیں۔ ایسے میں شیخ رشید احمد کا وہ بیانیہ مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ شہباز شریف کی گوٹی حکومت کے ساتھ فٹ ہے۔ شیخ رشید صاحب روز اوّل سے ہی شہباز شریف کو دستیاب ریلیف کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اُن تمام خدشات کا اظہار بھی کھل کر چکے ہیں جو آج حکومت کے سامنے جوابدہی کا باعث بنے نظر آتے ہیں۔
کافی عرصے سے نوٹس کروا رہا ہوں کہ وزیر ریلوے کا لب و لہجہ اور بیانیہ بتدریج بدل رہا ہے۔ ان کے تحفظات خدشات میں بدلے اور اب خدشات شکووں سے ہوکر اختلافات کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ان کا یہ بیانیہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے والے بھگتیں گے۔ وہ کافی دنوں سے شہباز شریف کو لے کر واویلا کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہ انتہائی سیانے‘ اور سیاست کے اسرارورموز سے بخوبی واقف ہیں۔ قبل از وقت ہی ممکنات اور متوقع صورتحال کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کرنا شروع کردیتے ہیں جو بظاہر بے وقت کی راگنی اور اکثر بعید از قیاس بھی محسوس ہوتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ حالات بتدریج اس نہج پر جاتے نظر آتے ہیں جس کا اشارہ اور اظہار وہ پہلے ہی کرچکے ہوتے ہیں۔
جن حکومتی اقدامات اور فیصلوں پر وہ دبے الفاظ میں تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے تھے اب وہ کھل کر ناصرف ان سے اختلاف کرتے نظر آرہے ہیں بلکہ سخت تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ شیخ رشید صاحب کے بدلتے رجحانات ''سیاسی موسمیات‘‘ پر واضح نظر آرہے ہیں۔ تحفظات سے اختلافات تک‘ یہ سفر انتہائی مختصر اور ''ریکارڈ‘‘ مدت میں پورا ہوا ہے جبکہ اس میں مزید شدت کی توقع بھی کی جارہی ہے۔ ان کے اس طرز عمل کو ایک اہم غیرمعمولی پیش رفت کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ بحر سیاسیات میں کشتی کے پہلے ہچکولے پر ہی سامان اتارنا شروع کردیتے ہیں‘ اور کشتی کے بھنور میں پہنچنے تک وہ اپنا کافی سامان ہلکا کرچکے ہوتے ہیں۔ ریکارڈ اور ماضی گواہ ہے کہ وہ کشتی کے ڈوبنے سے پہلے ہی اپنی سمت اور منزل تبدیل کرکے دوسری کشتی پر سوار ہوجاتے ہیں‘ جس کی ان کے پاس اپنے تئیں بے شمار توجیہات اور جواز موجود ہوتے ہیں۔گزرتے وقت اور بدلتے حالا ت کے ساتھ ساتھ فواد چوہدری کا بیانیہ بھی بتدریج بدلتا نظر آرہا ہے۔ اکثر معاملات پر وہ حکومتی مؤقف اور پالیسیوں سے کھل کر اختلاف کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کی بیماری اور تشخیصی رپورٹوں پر تو انہوں نے انکوائری کا مطالبہ بھی کر ڈالا ہے‘ جو انصاف سرکار پر ناصرف ایک کڑا سوال ہے بلکہ نواز شریف کی بیماری اور برطانیہ میں سرگرمیوں پر واویلا کرنے والے وزیروں اور مشیروں سمیت سبھی کے لیے چارج شیٹ بھی ہے جبکہ جناب وزیراعظم کی ہدایت پر مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بحیثیت چیف ایگزیکٹو شوکت خانم ہسپتال بذات خود سروسز ہسپتال جاکر نواز شریف کی بیماری کی تصدیق کی اور پھر وزیراعظم کو بھی یہی رپورٹ دی کہ نواز شریف کی حالت نازک ہے۔
اسی طرح نواز شریف کے بیرونِ ملک جانے کے بعد خود وزیراعظم نے بھی یہ بیان دیا تھاکہ انہیں نوازشریف پر رحم آگیا اور کابینہ میں اختلافِ رائے کے باوجود انہیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی۔ اب پوری انصاف سرکار یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ نواز شریف کی بیماری ڈھونگ اور محض ڈرامہ تھی۔ اُدھر برطانیہ سے نواز شریف کی کوئی تصویر جاری ہوئی اِدھر سرکار نے دری بچھا لی۔ ایسا واویلا کرتے ہیں گویا نوازشریف ہسپتال سے رات کے اندھیرے میں کہیں غائب ہوگئے یا جیل توڑ کر فرار ہوئے ہیں۔ اپنی زبانوں سے شعلے اگلتے انصاف سرکار کے سقراطوں اور بقراطوں نے وزیر اعظم کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ انصاف سرکار وہ سارے اقدامات کرتی نظر آتی ہے جن کا ذکر سننا بھی گوارا نہ تھا۔ وہ سبھی کچھ جس سے وہ گھن کھایا کرتے تھے آج اپنی ہی سرکار میں اپنے ہی ہاتھوں کرتے نظر آتے ہیں۔
بڑے بول اور بلند بانگ دعووں پر مبنی سارے بیانیے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ برسرِ اقتدار آنے سے پہلے یہ تاثر عام تھاکہ وزیر اعظم کے پاس ایک ایسی ٹیم موجود ہے جو ناصرف ملک و قوم کی تقدیر بدل کررکھ دے گی بلکہ ان چیلنجز اور مسائل سے بھی نبرد آزما ہو سکے گی جو کئی دہائیوں سے عوام کے لیے جونک بنے ہوئے ہیں‘ خصوصاً بلا امتیاز کڑے احتساب، سماجی انصاف، گورننس اور معیشت کی بحالی کے حوالے سے عوام اُمیدوں کے جو چراغ جلائے بیٹھے تھے وہ سبھی ایک ایک کرکے بجھتے چلے جارہے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ نااُمیدی، مایوسی اور غیر یقینی صورتحال عوام کو ہلکان اور بے حال کیے ہوئے ہے۔ صفر تیاری کے ساتھ برسرِ اقتدار آنے والی تحریک انصاف نے ابتدائی چند ماہ میں ہی ثابت کر دیا تھاکہ دھرنوں اور انتخابی مہم میں دئیے جانے والے بھاشن اور بلند بانگ دعووں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ تو وہ نوازشریف کو روک سکے اور ناہی کسی سے ایک ٹکے کی ریکوری کر سکے۔
سرکار نواز شریف کی واپسی کا بیانیہ لے کر نیا سٹیج سجائے ہوئے ہے جبکہ شہباز شریف سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کو واپس وطن لائیں اور احتسابی عمل کا سامنا کریں۔ ایسے میں ایک لطیفہ بے اختیار یاد آرہا ہے کہ ''آٹھ بھائی کہیں سے مارکھا کر گھر لوٹے تو باپ نے انتہائی غصے سے کہا کہ تم آٹھ کڑیل جوان بھائی کس کام کے ہو... جو تمہیں کسی نے اس بے دردی سے پیٹ ڈالا ہے۔ اُن میں سے ایک بولا ''ابّاجی! ہم آٹھ اکیلے... اور وہ دو کا ٹولہ‘‘ پٹتے نہ تو اور کیا کرتے‘‘۔
اس لطیفے کو ان مشیروں اور وزیروں سے ہرگز منسوب نہ کیا جائے جو نواز شریف کی بیماری اور واپسی کا سٹیج لگا کر صبح و شام واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔