"AAC" (space) message & send to 7575

حوصلہ افزائی داخلِ دفتر

شاباش‘ حوصلہ افزائی اور انعام و اکرام کارکردگی کو یقینا چارچاند لگا دیتے ہیں۔ اعلیٰ کارکردگی پر تعریف کے چند بول کام کرنے والے کانہ صرف حوصلہ بڑھاتے ہیں بلکہ مزید کارنامے سرانجام دینے کے لیے پرعزم بھی رکھتے ہیں۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے: بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دنوں میں انہوں نے کسی کیس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور محدود وقت کا الٹی میٹم دے کر تنبیہ کی کہ مقررہ وقت کے دوران ملزما ن کو ہر صورت گرفتار کیا جائے۔ پولیس کے اعلیٰ حکام نے چوہدری شفقات احمد‘ جو اس وقت ڈی ایس پی تھے‘ کو ''بَلی کا بکرا‘‘ بنا کر وزیراعظم کے روبرو پیش کردیا کہ اس کیس کی تفتیش چوہدری صاحب کے پاس ہے۔ تب کے اعلیٰ افسران شفقات صاحب کو وزیراعظم کے روبرو کروا کر خود بری الذّمہ ہوگئے۔ وزیراعظم نے اپنے اگلے دورئہ لاہور کے دوران ایئرپورٹ پر ہی پولیس حکام سے اس کیس کے بارے پوچھا تو انہوں نے چوہدری شفقات کو دوبارہ وزیراعظم کے حضور پیش کر دیا‘ جنہوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ وہ ملزمان کو گرفتار کر چکے ہیں۔ ان کے اس جواب نے اعلیٰ پولیس افسران کو بھی چکرا کر رکھ دیا۔ وزیراعظم نے اس وقت کے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ جرائم کے خلاف اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر چوہدری شفقات کو ایس پی کے عہدے پر ترقی اور انعام دیا جائے۔ چوہدری شفقات نے وزیراعظم سے بھرے مجمع میں کہہ دیا ''آئی جی صاحب نے تو کبھی شاباش نہیں دی‘ ترقی کیا دیں گے‘‘۔ چوہدری شفقات کی بے باک گفتگو ان کیلئے مصیبت بن گئی۔ ان ریمارکس کے بعد اس وقت کے آئی جی نے ان کی ترقی کو ذاتی عناد اور اَنا کا مسئلہ بنا لیا اور پھر طویل عرصے تک ان کو ترقی نہ مل سکی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ شفقات احمد ایس پی بنے‘ایس ایس پی بنے اور ڈی آئی جی کی ذمہ داریاں بھی اضافی طور پر نبھاتے رہے۔ یہ کہنا قطعاً بے جا نہ ہوگا کہ وہ اُس زمانے میں لاہور پولیس میں ایک قابل اور دلیر کرائم فائٹر کے طور پر جانے جاتے رہے۔ 
میرے آج کے کالم کا موضوع داخلِ دفتر ہونے والی وہ فائلیں ہیں‘ جو افسر شاہی کے مخصوص مزاج کی وجہ سے وقت کی گرد تلے دفن ہو چکی ہیں۔ یہ کوئی عام فائلیں نہیں‘ ان فائلوں میں موجود دہشت گردوں کے قلع قمع سے لے کر ان کی سرکوبی تک کی تمام داستانیں بھی داخلِ دفتر ہو چکی ہیں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر‘ اہل خانہ کی جانوں کو خطرات سے دوچار کر کے‘ اس دھرتی کے دشمنوں کو کیفرکردار تک پہنچانے والوں کو کس طرح نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ ان کی جانثاری اور سرفروشی کا کیا یہی صلہ ہے؟ فروری 2017ء میں ہونے والی ہولناک دہشت گردی میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ڈی آئی جی کیپٹن مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل سمیت دیگر شہدا کی قربانیاں رنگ لائیں اور انسدادِ دہشت گردی کا ادارہ قلیل مدت میں دہشت گردوں کے سروں پہ جاپہنچا اور 12رکنی گروہ کو قانون کی حراست میں لے لیا گیا۔ اسی گروہ نے واہگہ بارڈر‘ یوحنا آباد اور گلشن اقبال پارک سمیت دہشت گردی کی کئی اندوہناک وارداتوں کا اعتراف کیا۔ سی ٹی ڈی کی اس شاندار کارکردگی پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پولیس سروس کے سب سے بڑے اعزاز قائداعظم پولیس میڈل کا بھی اعلان کیا۔ اسی طرح فیصل آباد میں دہشت کی علامت حافظ سلمان نے شہریوں کی زندگی اجیرن کرنے کے علاوہ امن بھی تہ وبالا کر رکھا تھا۔ قتل اور ڈکیتیوں سمیت اُس کے سنگین جرائم کی طویل فہرست پولیس کے لیے کڑا امتحان بن چکی تھی۔ گزشتہ برس اس کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا سہرا بھی انسدادِ دہشت گردی کے اسی ادارے کے سر ہے۔ اس کے سر کی قیمت بیس لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی جو یقینا اس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ملنی چاہیے تھی‘ لیکن اس کیس کی فائل افسر شاہی کے مزاجِ شاہانہ کی بھینٹ چڑھنے کے بعد متعلقہ محکمے کی فائلوں کے انبار میں دفن ہو چکی ہے۔ سرکاری بابوؤں کا کہنا ہے کہ کیس زائدالمدت ہو چکا ہے۔ اسی طرح رائے ونڈ بم دھماکے کے دہشت گرد کے سر کی قیمت پچیس لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی اور یہ دہشت گرد بھی اسی انسدادِ دہشت گردی کے آہنی ہاتھوں سے نہ بچ سکا اور اپنے عبرتناک انجام کو پہنچا۔ یہ انعام بھی جانے کہاں چلا گیا‘ کیونکہ اسے کیفرکردار تک پہنچانے والے کرائم فائٹرز تو انعام کی اس رقم سے آج تک محروم ہیں۔ تمام تاخیری حربے استعمال کرنے کے بعد متعلقہ محکمے کا وہی عذر کہ کیس زائد المدت ہو چکا ہے۔ 
یہ تو نمونے کے چند کیسز ہیں جن سے متعلقہ محکمے کی کارکردگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ محکمہ انسدادِ دہشت گردی میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ اگر دہشت گردی کے کیسوں کے حوالے سے یہ رویہ ہے تو باقی شعبوں کا بھی یہی حال ہوگا۔ آئی جی آفس اور متعلقہ محکمے کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ کے مسائل کوئی نئے نہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جانیں ہتھیلیوں پر ہم لیے پھرتے ہیں‘ خوف اور خطرات کے سائے ہمارے اہل خانہ پر لہراتے ہیں‘ جانوں کے نذرانے بھی ہمی دیتے ہیں تو پھر یہ امتیازی سلوک کیوں؟ گزرتے وقت میں ایسے کتنے ہی کیس قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ جانثاری اور سرفروشی کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی اور حب الوطنی کو ان فائلوں میں دفن کر دیا جائے۔ شاباش‘ تعریف اور انعام و اکرام اعلیٰ کارکردگی کا اعتراف ہی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کرائم فائٹرز کی کارکردگی کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے۔ 
چند سال پہلے تک ہمارا ملک جس طرح دہشت گردی کی میں رہا ہے‘ دہشت اور بربریت کے جو مناظر چشمِ فلک نے دیکھے ہیں وہ کوئی دور کی بات نہیں۔ ان دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے والے ہیروز کو فراموش کر دینا نہ صرف نامناسب ہے بلکہ میری نظر میں غیر منصفانہ بھی ہے۔ ان کرائم فائٹرز کی حوصلہ شکنی ان کے حوصلوں اور جرأت مندی کے لیے خطرے کی علامت ہو سکتی ہے۔ ایسے کیسز داخلِ دفتر کرنے کی روش ترک کرتے ہوئے جرأت مندی بڑھانے کے لیے ممکنہ خطرات کا احساس کرنا بے حد ضروری ہے۔ کالم ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ ٹیلی ویژن پر دو اعلیٰ پولیس افسرا ن کی محاذ آرائی کی خبروں نے اپنی طرف متوجہ کر لیا اور آج کاکالم بھی پولیس سے ہی متعلق ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ آئی جی پنجاب (اب سابق)ڈاکٹر شعیب دستگیر‘ سی سی پی او لاہور کی تعیناتی کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس اہم ترین تقرری پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیااور چین آف کمانڈ کا تقاضا ہے کہ وہ ایسے حالات میں کام کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب سی سی پی او کو تعینات کرنے یا کرانے والے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ حکومتی چیمپئنز نے اپنا وزن سی سی پی او لاہور کے پلڑے میں ڈال کر آئی جی پنجاب کو چلتا کر دیا ہے۔ یوں آئی جی صاحب پیچھے ہٹ گئے اور ان کی جگہ نئے آئی جی کا تقرر کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں صورتحال تو سنبھل گئی ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ نئے آنے والوں کو منیرنیازی کے اس دریا کا سامنا کرنا پڑ جائے جس کا ذکر انہوں نے اپنے شہرئہ آفاق شعر میں کچھ یوں کیا ہے: ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں