"AAC" (space) message & send to 7575

اسے کہنا دسمبر آگیا ہے

دسمبر لوٹ آیا ہے۔ اس اختتامی مہینے کے تین سورج غروب ہو چکے ہیں۔ باقی شب و روز بھی بالکل اسی طرح طلوع و غروب ہوتے چلے جائیں گے جس طرح پورا سال دن رات ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ہرسال یہ اختتامی مہینہ نجانے کیسے کیسے زخم ہرے کر جاتا ہے اور کون کون سی یادوں کی صورت میں ماضی کے کتنے ہی دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کے جھمیلوں سے لیکر رونق میلوں تک‘ ملنے کی خوشی سے لیکربچھڑنے کے غم تک‘یہ دسمبر جاتے جاتے کیسے کیسے تار چھیڑ جاتا ہے۔ دسمبر کی سرد شامیں ہوں یا یخ بستہ راتیں ‘ان سبھی میں نامعلوم اُداسی کا غلبہ کچھ اس طرح بے چین کیے رکھتا ہے کہ لمحہ لمحہ دھیرے دھیرے اور ریزہ ریزہ وقت کی مٹھی سے زندگی کی سرکتی ہوئی ریت طبیعت کو مزید بے چین اور بوجھل کیے دیتی ہے۔ اس کیفیت میں برادرم حسن نثار کا یہ شعر درد بڑھانے کے ساتھ ساتھ وسوسوں اور اندیشوں کی اندھی کھائیوں میں دھکیلے چلا جاتا ہے؎
رستے پہ عمر کی میرا پاؤں پھسل گیا 
اِک اور سال پھر میرے ہاتھوں نکل گیا 
عدم سے وجود اور وجود سے فنا کی طرف سرپٹ دوڑتا ہر ذی روح اس جہانِ فانی میں پہلا سانس لیتے ہی یوں بلک بلک کر روتے ہوئے اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے کہ یہ رونا پھر آخری سانس تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کبھی ہنستے ہنستے روپڑتا ہے تو کبھی اپنے رونے پر ہنستا ہے۔ کیلنڈر کے خانوں میں بٹا انسان گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ ایک ایسے سفر پر گامزن رہتا ہے جس میں نہ اس کی مرضی شامل ہے اور نہ ہی اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا گیا ہے‘ نہ ملک مرضی کا‘ نہ ماں باپ اور بہن بھائی‘ نہ حالات پسند کے اور نہ ہی وسائل پر کوئی اختیار۔ 
دسمبر جب بھی لوٹ کر آتا ہے تو سال بھر کا میزانیہ سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ مہینے تو سبھی رنگ و سنگین یادوں سے جڑے ہوتے ہیں‘ کوئی مہینہ کسی کی جدائی کا زخم ہرا کر جاتا ہے تو کوئی مہینہ کسی کے ملنے کی یاد تازہ کر جاتا ہے۔ ان سبھی مہینوں کی یادیں دسمبر میں ایک ایسی بیل کی صورت اختیار کر جاتی ہیں جو نفسیات اور اعصاب کو ایسے لپیٹ لیتی ہے کہ کوئی اس سے جتنا بھی بچنا اور نکلنا چاہے بچ نہیں سکتا۔ یہ یادیں کس کو کتنا بے چین اور گھائل کرتی ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے بس یہی کہا جاسکتا ہے جس تن لاگے سو تن جانے۔ 
اکثر کیسز حال مست اور چال مست کے زمرے میں بھی آتے ہیں‘ انہیں نہ سال چڑھنے کا پتہ لگتا ہے اور نہ ہی سال کے جانے کا کوئی احساس ہوتا ہے۔ آگہی کے عذاب سے ناآشنا یہ سبھی ذی روح کچھ اس طرح مزے میں زندگی گزارتے ہیں کہ نہ ملنے کی خوشی اور نہ بچھڑنے کا غم جبکہ آگہی کے عذاب سے دوچار لوگ کبھی بچھڑنے والوں کو روتے ہیں تو کبھی بچھڑنے کے خوف سے روز جیتے اور روز مرتے ہیں‘ کبھی اپنی موت سے ڈر نہیں لگتا لیکن اپنوں کے مرنے کا خوف کسی پل چین نہیں لینے دیتا۔ اس خوف کا اگلا مرحلہ اس سے بھی جان لیوا ہے کہ اپنی موت کا تصور ہی جان سے پیارے پسماندگان کی فکر میں ہلکان کئے رکھتا ہے۔ یہ وسوسے‘ بے چینی اور غیر یقینی دن کا چین اور رات کی نیند لوٹنے کے علاوہ توڑنے اور پھوڑنے کا کام بھی بخوبی اور برابر کیے چلے جاتے ہیں اور وسوسے کچھ اس طرح سے دعا بن جاتے ہیں: ؎
جس روز ہمارا کوچ ہوگا
پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی
شیریں سخنوں کے حرفِ دشنام
بے مہر زبانیں بند ہوں گی
پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا
یادوں کا سراغ تک نہ ہوگا
ہمواریٔ ہر نفس سلامت
دل پر کوئی داغ تک نہ ہوگا
پامالیٔ خواب کی کہانی
کہنے کو چراغ تک نہ ہوگا
معبود اس آخری سفر میں
تنہائی کو سرخرو ہی رکھنا
جز تیرے نہیں کوئی نگہدار
اس دن بھی خیال تو ہی رکھنا
جس آنکھ نے عمر بھر رلایا
اس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا
جس روز ہمارا کوچ ہوگا
پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی
ہم اپنے مرنے تک نجانے کتنی بار مرتے ہیں‘قطرہ قطرہ‘ ریزہ ریزہ‘ دھیرے دھیرے اور ٹکڑوں میں نجانے کتنی بار‘گویا ہمیں کیا برا تھا مرنااگر ایک بار ہوتا۔ یہ چلاچلی کا میلہ ہے‘ہر کسی کو اپنی باری پر چلے ہی جانا ہے‘لیکن جب بھی کوئی عزیز‘ کوئی اپنا‘ کوئی پیارا‘ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ہم بھی تھوڑے سے مر گئے ہیں۔ اس کی موت کی تلخی کو اپنے اندر یوں محسوس کرتے ہیں گویا چند قطرے موت ہمارے اندر بھی سرایت کر چکی ہے۔ ہم اس موت کو قطرہ قطرہ محسوس کرتے‘ریزہ ریزہ بکھرتے اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 
ماں باپ جیسی عزیز ازجان ہستیوں سمیت کیسی کیسی ناگزیر صورتیں خواب و خیال بن کے رہ گئی ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں ساتھ چھوڑ جانے والے عدیل احمد سے لے کر چند سال قبل بچھڑنے والے عظیم بھائی اور اعجاز غوری تک‘ سید عباس اطہر سے لے کر منو بھائی تک‘ سید انور قدوائی سے لے کر شفیق مرزا تک‘ پرویز حمید سے لے کر عزیز مظہر تک‘ جواد نظیر اور ریاض بٹالوی سے لے کر تنویر عباس نقوی تک‘ ثمر عباس زیدی سے لے کر رومان احسان تک‘ شیخ رؤف سے لے کر سہیل جاوید تک‘ معین احمد سے لے کر آصف علی پوتا تک‘ اکبر عادل سے لے کر شیخ ریاض بابر اور آفتاب تارڑ تک کتنے ہی عزیز اور پیارے دوست احباب اور عزیز و اقارب سمیت کس کس کا نام لوں سبھی کو چشم تصور میں شب و روز ساتھ لیے پھرتا ہوں۔ نیند کو آدھی موت کہا جاتا ہے اور رات کو جب بھی اس آدھی موت کے لیے بستر پر جاتا ہوں تو بچھڑنے والوں کی یادوں اور باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آدھی موت سے تادیر دور کیے رکھتا ہے۔ ماں باپ‘ اساتذہ‘ عزیز و اقارب‘ دوست احباب کو چشم تصور میں اپنے اردگرد محسوس کرنا اور ان سبھی کے لیے دعائے مغفرت روز کا معمول ہے۔ دسمبر کے آتے ہی اعصاب اور نفسیات کو یادوں کے حملے کچھ اس طرح تہہ وبالا کیے دیتے ہیں کہ بے اختیار یہ اشعار حسرت بن کر رہ جاتے ہیں:۔ 
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے 
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گھپا میں ڈوب جائے گا 
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا‘ مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا 
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کُہرے کی مانند دیواروں میں لرزاں ہے 
اسے کہنا شگوفے تنہائیوں میں سو رہے ہیں اوران پر برف کی چادری بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا‘ تو کیسے برف پگھلے گی‘ اسے کہنا کہ لوٹ آئے 
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ جانے والے لوٹ آئیں۔ وہ تو بس اپنی یادوں کی کرچیاں چھوڑ جاتے ہیں جنہیں چنتے چنتے ہمارے ہاتھ نہ صرف لہولہان رہتے ہیں بلکہ ان کی یادوں کے سپنے دیکھنے والی آنکھیں بھی ان کرچیوں سے بھر جاتی ہیں تو آنکھیں بھی بے اختیار بھر آتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں