"AAC" (space) message & send to 7575

مرنے والوں کو اور کیا چاہیے؟

قلم سے نکلنے والی سیاہی جب آنسو بن کر ہر سطر ہی بھگو ڈالے اور کاغذ سسکیاں لیتا دکھائی دے تو الفاظ سینہ کوبی کیوں نہ کریں۔ اعراب دامن چاک کیے بالوں میں خاک کیسے نہ اڑاتے پھریں۔ سانحات اور صدمات کے مارے عوام اور حکمرانوں کا بھی عجب رشتہ ہے۔ خوشحالی کے جھانسوں سے لے کر عزتِ نفس کی بحالی کے فریب تک نجانے کیسے کیسے دھوکے کھانے والے عوام کی حیثیت ہی کیا۔ یہ کہاں کے حکمران اور کیسا طرز حکمرانی ہے۔ بیماروں کو شفا نہیں۔ حکمرانوں میں وفا نہیں۔ مظلوم کی داد رسی نہیں۔ بچوں میں بچپن کی بے فکری نہیں۔ پڑھے لکھوں کا مستقبل نہیں۔ بڑھاپے کا آسرا نہیں۔ چہروں پہ مسکراہٹ نہیں۔ ہنرمندوں کی قدر نہیں۔ منہ زور کے آگے شرفا کی وقعت نہیں۔ سماجی انصاف نہیں۔ قانون کی پاسداری نہیں۔ عزت سے لے کر جان و مال تک کچھ بھی تو محفوظ نہیں۔ لکھنے والوں کے قلم خشک ہونے کے ساتھ ساتھ الفاظ بھی ختم ہو چکے ہیں‘ لیکن عوام کی سیاہ بختی کسی طور ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ نصیب کی سیاہی نے نجانے کہاں کہاں کالک مل دی ہے۔ ہر سو ایسا اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سسکتے بلکتے الفاظ یکایک دھاڑیں مار کر رونے لگیں گے۔ کوئی نظر بد ہے یا آسیب‘ پتا نہیں کیا ہے۔ ان کی نیتوں کا کھوٹ کب تک عوام کی قسمت کھوٹی کرتا رہے گا؟
قارئین! آج پھر طبیعت ملول اور بے چین ہے۔ عوام کی بے بسی کا ماتم کروں یا ذلت و دھتکار کا؟ حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کا رونا روئوں یا وعدوں سے انحراف کا۔ کئی دہائیوں سے لٹتے پٹتے یہ عوام اچھے دنوں کی آس میں اتنا چلتے ہیں کہ چلتے چلتے قبروں میں جا گرتے ہیں۔ اچھے دنوں کے سہانے خواب دیکھنے والی آنکھیں بالآخر قبروں میں جا سوتی ہیں۔ مایوسیوں اور سوگ میں ڈوبا یہ کالم یونہی زاروقطار نہیں رو رہا۔ اس حشر کی ذمہ دار دو خبریں ہیں جنہوں نے موڈ برباد کرنے کے ساتھ ساتھ کالم کے خدوخال ہی بدل ڈالے۔ ارادہ کچھ اور ہی لکھنے کا تھا‘ لیکن ان خبروں کے شکنجے نے مہلت ہی نہ دی کہ ان کے سوا کچھ لکھوں۔ منہ چڑاتی سنگل کالم خبر کچھ یوں ہے کہ انڈونیشیا کے ایک وزیر کو کورونا مریضوں کی خوراک میں خورد برد کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ گزشتہ دس روز میں انڈونیشیا کے یہ دوسرے وزیر ہیں جنہیں کرپشن پر گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری خبر نمایاں سرخیوں کے ساتھ بے حسی اور سفاکی کی ایسی کہانی چیخ چیخ کر بیان کر رہی تھی کہ اس پر تبصرے کے لیے ڈھونڈے سے بھی الفاظ نہیں مل پا رہے۔ ایسے الفاظ کہاں سے لائوں جو طرزِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھنے والے سات جیتے جاگتے انسانوں کی بے بسی اور لمحہ لمحہ موت کا خوف محسوس کرنے والوں کی کیفیت بیان کر سکے۔ وہ کون سے الفاظ ہیں جو گھروں سے شفا کی طلب میں ہسپتال آنے والوں کو موت ملنے کی واردات کا احاطہ کر سکیں۔
پشاور کے ہسپتال میں آکسیجن نہ ملنے سے سات انسانی جانیں ''گڈ گورننس‘‘ کو پیاری ہو گئیں۔ حکمرانوں کے لیے عوام کا جینا کیا اور مرنا کیا۔ یہ مرنا جینا ہر دور میں ہر سرکار کے لیے معمول کا واقعہ رہا ہے۔ اِدھر ان بد نصیبوں کی قبروں کی کھدائی شروع ہوئی اُدھر سرکار کا احساسِ عوام کا جذبہ جاگ اٹھا۔ فوری نوٹس لینے کے علاوہ تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے اڑتالیس گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی گئی۔ مرنے والوں کو اور کیا چاہئے۔ ایسے اہم اور عوام دوست اقدامات یقینا احساسِ عوام سے سرشار حکومت ہی کر سکتی ہے۔ ناحق مرنے والوں کے لواحقین بھی کیا یاد کریں گے کہ کسی حکومت نے ان کے پیاروں کی موت کانوٹس لینے کے ساتھ ساتھ امدادی رقوم کا بھی اعلان کرکے حاتم طائی کپ جیت لیا ہے۔ ہر انکوائری رپورٹ میں دو چار بکرے بَلی کے لیے ضرور پیش کر دیے جاتے ہیں لیکن ایسے سانحات کے اصل ذمہ داران درجنوں مائیک سجائے انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتے۔ پہلی خبر میں کورونا مریضوں کی خوراک میں کرپشن کرنے پر انڈونیشیا کا وزیر گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ہمار ے ہاں سات انسانی جانیں بے حسی اور سفاکی کی بھینٹ چڑھ گئیں‘ لیکن نوٹس لینے سے انکوائری کروانے تک اور امدادی رقوم کا اعلان کرنے سے لے کر لواحقین سے ہمدردی جتانے تک سبھی امور اس قدر فخریہ انداز میں کیے گئے کہ گویا ناحق مرنے والوں اور ان کے پسماندگان پر احسانِ عظیم کیا جا رہا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ جس ملک میں کورونا مریضوں کی خوراک میں کرپشن پر وزیر گرفتار کر لیا جاتا ہو وہاں پشاور جیسا سانحہ ہوتا تو وہ وزیر آج کس حال میں ہوتا۔ 
ہمارے ہاں ایسا سانحہ ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کورونا کی پہلی لہر اور لاک ڈائون کے دوران کیے گئے حکومتی اقدامات پر اٹھنے والے ہوشربا اخراجات پر اٹھنے والے سوالات آج بھی جواب طلب ہیں۔ از خود نوٹسز کے باوجود ان اربوں روپے کا حساب آج بھی معمہ ہے۔ کورونائی اقدامات ہوں یا مستحقین میں تقسیم کیے جانے والے اربوں روپے‘ ان سبھی پر اعلیٰ عدالتیں تحفظات کا شکار اور غیر مطمئن ہوں اور اس طرزِ حکمرانی پر آئے روز سوال اٹھائے جاتے ہوں تو کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟ جہاں عام آدمی کے مسائل اس کے قد سے کہیں بڑے اور زندگی اجیرن ہو جائے تو ایسے میں احساسِ عوام جیسی باتیں ڈھکوسلے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتیں۔
کرپشن پر کبھی سزائے موت کی باتیں کی جاتی ہیں اور کبھی برطرفی کی۔ کبھی چینی ماڈل متاثر کرتا ہے تو کبھی انقلاب ایران کی مثال دی جاتی ہے۔ کبھی مہاتیر محمد کی مثال دی جاتی ہے تو کبھی ریاست مدینہ کو رول ماڈل بنایا جاتا ہے۔ پونے دو سال قبل پاکستان کے دورے پر آئے ملائیشیا کے تاریخ ساز حکمران مہاتیر محمد جاتے جاتے ہمارے حکمران کو ایک پتے کی بات کہہ گئے تھے کہ ''قیادت کرپٹ نہیں ہونی چاہیے‘ ورنہ کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا‘‘۔ مہاتیر محمد کی بات سولہ آنے نہیں‘ بلکہ سولہ سو آنے درست ہے‘ گویا وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا بنیادی مسئلہ اور اصل بیماری کیا ہے۔ 94 سالہ مہاتیر محمد کی طرف سے اس مشورے اور نصیحت پر یہ کہا جا سکتا ہے:
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے
بطور وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریر سنتے ہی عوام جھوم اٹھے تھے۔ گویا‘ آ گیا وہ شاہکار‘ جس کا تھا انتظار۔ اب راج کرے گی خلق خدا۔ کرپشن‘ لوٹ مار‘ اقربا پروری کے سیاہ دور کا خاتمہ ہو گا۔ کم و بیش اسی طرح کے خوش کن خیالوں میں گھرے عوام وزیر اعظم صاحب کی پہلی تقریر کو اس منزل کا نقطہ آغاز سمجھ بیٹھے جس کا خواب دھرنوں اور انتخابی مہم میں عوام کو تواتر سے دکھایا گیا تھا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ عوام کو دکھایا جانے والا وہ خواب بتدریج ایک جھانسہ محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ گڈ گورننس اور بہترین طرز حکمرانی کے دعویداروں نے اپنے دور اقتدار کے ابتدائی چند ماہ میں ہی عوام کی خوش گمانیوں کا سارا نشہ ہوا کر دیا اور دکھائے جانے والے تمام سنہری خواب چکنا چور کر ڈالے۔ جس دور حکومت میں خلق خدا نے راج کرنا تھا‘ اس دور میں تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال سے لے کر ایوان اقتدار تک کچھ نہیں بدلا۔ عوام کے لیے ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے سارے منظر جوں کے توں ہیں۔
معیشت سے لے کر عوام کی قسمت تک‘ سب پر جمود طاری ہے۔ سیاسی اشرافیہ ہو یا افسر شاہی‘ کرپشن اور لوٹ مار کی داستانوں کی گونج آج بھی اسی طرح سنائی دے رہی ہے جیسے سابقہ ادوار میں سنتے چلے آئے تھے۔ کتنے جھانسے اور دھوکے باقی ہیں‘ جو عوام نے ابھی کھانے ہیں‘ خدا جانے! عرصہ اقتدار کی نصف مدت ختم ہونے کو ہے لیکن طرز حکمرانی کا ماڈل کیا ہوگا اس کا انتخاب ہونا ابھی باقی ہے۔ یہاں کسی ماڈل کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے؛ تاہم تازہ ترین انڈونیشین ماڈل پیش خدمت ہے اسے بھی دیگر ماڈلز کے ساتھ شو کیس کی زینت بنایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں