پی ڈی ایم کا جلسہ کامیاب تھا یا ناکام‘ دونوں طرف سے مسلسل بحث اور پوائنٹ سکورنگ جاری ہے۔ عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا بیانیہ مر چکا‘جبکہ پی ڈی ایم کا دعویٰ ہے کہ جلسہ تاریخ ساز تھا اور 31جنوری تک استعفے نہ دیے تو اگلے ہی روز لانگ مارچ کی تاریخ دیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ یہ آر ہوئے نہ پار صرف خوار ہوئے ہیں۔ مولانافضل الرحمن کا موقف ہے کہ ناجائز حکومت نہیں چلنے دیں گے‘ بلاول کا کہنا ہے کہ کٹھ پتلی وزیراعظم کا استعفیٰ لیں گے اور محترمہ مریم نواز تو جو بھی کہیں کم ہے۔ اپوزیشن کی ڈیڈ لائن کے بعد صورتحال کیا رُخ اختیار کرتی ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا‘ بہرحال سردی کی شدت کے باوجود سیاسی حدت میں تیز ی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کے لائحہ عمل کو ہی ماڈل بنا کر انہی کی پچ پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 2013ء کے انتخابی نتائج پر شدید تحفظات رکھتے ہوئے تحریک انصاف نے تو اگلے ہی برس دھرنا دے ڈالا تھا‘ لیکن موجودہ اپوزیشن نے 2018ء کے انتخابی نتائج مسترد کر کے دو سال سے زائد عرصہ گزارا ہے۔ اپوزیشن کا پہلا سال تو احتسابی کارروائیوں‘ گرفتاریوں‘ پیشیوں سمیت نجانے کون کون سے مصائب کی نذر ہوگیا۔ دوسرے سال میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان کے اوسان بحال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ان کے بیانیے اور مزاحمت میں بھی روز بروز شدت آتی چلی گئی اور اب یہ عالم ہے کہ وہ حالات کو ''پوائنٹ آف نوریٹرن‘‘ پر لے جانے کیلئے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔
یہ سیاسی سرکس اس ملک و قوم کیلئے قطعی نیا نہیں... کئی دہائیوں سے یہ کھیل تماشے دیکھتے دیکھتے عوام کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔ اب تو حالات کے ماروں کی حالت یہ ہے کہ آنکھیں پتھرانے کے ساتھ ساتھ خود بھی پتھراتے چلے جارہے ہیں۔ یہ سیاسی سرکس ہر دور میں اسی طرح کھڑکی توڑ رَش لیتا دکھائی دیا ہے۔ حکومتِ وقت کو ''ٹَف ٹائم‘‘ دینے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کی روایت کو دوام بخشنے والے نوازشریف نے ہردور میں اپوزیشن کو ہر ممکن مشکل حالات سے دوچار کرنے کیلئے کبھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ 1993ء کے انتخابات کے نتیجے میں جب بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں تو نوازشریف کی راتوں کی نیند اور دن کا چین برباد ہوگیا اور اگلے ہی سال 1994ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف بڑے زور و شور سے تحریک نجات شروع کی اور ٹرین مارچ کے دوران ملتان ریلوے سٹیشن پر جوشِ خطابت میں ہوش کھوتے ہوئے یہ بھی کہہ ڈالا کہ موجودہ حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے‘پاکستان کے پاس ایٹم بم موجود ہے۔
روس اور افغانستان جنگ بندی کے بعد روس اپنی پہلے والی اہمیت کھو چکا تھا اور عالمی منظر نامے پر پاکستان کی افادیت اور اہمیت میں بھی خاصی کمی واقع ہو چکی تھی۔ ایسے میں نواز شریف کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پریسلر ترامیم کے نتیجے میں ہمیں سخت دفاعی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ خطیر رقوم ادا کرنے کے باوجود ہمارے ایف16طیاروں کی فراہمی کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا۔ ملتان ریلوے سٹیشن پر نواز شریف کے اس خطاب کا حوالہ دینے کا اصل مقصد یہ گوش گزار کرنا تھا کہ حصولِ اقتدار کی تڑپ میں یہ سماج سیوک نیتا قومی سلامتی کے تقاضوں کو بھی کس بے دردی سے فراموش کر ڈالتے ہیں۔ آج بھی مسلم لیگ(ن) حصولِ اقتدار کی دھن میں اکثر ہوش وحواس کھوتی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی محاذ آرائیوں کی داستانیں طویل اور پرانی ہیں۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ غلام اسحاق خان‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ‘ جنرل وحید کاکڑ‘ جنرل جہانگیر کرامت‘ فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ سے لے کر بے نظیر بھٹو‘ جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری تک‘ نواز شریف نے کب کسی کو معاف کیا ہے۔ ذاتی ایجنڈے اور مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے نہ انہوں نے اداروں کا احترام کیا اور نہ ہی منصب کا لحاظ۔پاک فوج سے لے کر سپریم کورٹ تک سبھی پر چڑھ دوڑتے رہے ہیں۔ تین بار وزارتِ عظمیٰ کے مزے لینے والے نواز شریف کی شعلہ بیانیوں سے لے کر زہر فشانی تک‘ اداروں کو نشانہ بنانے سے لے کر محاذ آرائی تک ان سبھی پر حیران ہونے والوں پر مجھے تعجب ہے۔ اب محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان کی صاحبزادی بھی انہی کی روایات کو دوام بخشنے کیلئے وہ سبھی کچھ کر گزرنے کو تیا رہیں جو ان کے والد ماضی میں کرتے رہے ہیں۔
سیاسی سرکس میں میوزیکل چیئر کا والیم اتنا تیز ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔اپنے اپنے موقف پر ڈٹے انصاف سرکار اور اپوزیشن ایک دوسرے کو زِیر کر کے زَبر ہونے کی کوشش میں بری طرح مبتلا ہیں۔ ایسے میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے باہر نکل کر اہلِ لاہور کے لیے اربوں روپے کے منصوبوں کا اعلان کر کے اچھا خاصا ماحول بدل ڈالا ہے۔ اس تقریب میں فی البدیہہ اور نان سٹاپ اظہارِ خیال سے یہ تاثر ضرور اجاگر کیا ہے کہ وہ صرف سیاست ہی نہیں کام بھی کرنا جانتے ہیں۔ لاہوریوں کے لیے نیا شہر بسانے سے لے کرنئے ہسپتال اور فلائی اوورز کے ساتھ ساتھ ہاؤسنگ پروجیکٹ اور بارشی پانی کے ذخائر کے علاوہ دیگر منصوبہ جات کے بارے میں جو بریفنگ دی بخدا اگر اس کا نصف بھی کر گزریں تو نہ صرف بڑا بریک تھرو ہوگا بلکہ ترقی کے سفر کا اہم سنگِ میل بھی ثابت ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے یہ سبھی منصوبے براہِ راست ان عوام سے جڑے ہوئے ہیں جو ہر دور میں ہر حکومت کی توجہ کے منتظر رہتے ہیں۔ اُمید کے ساتھ یہ دُعا ہے کہ ہر دور میں منتظر رہنے والوں کا یہ انتظار اس دور میں ختم ہو جائے۔ ویسے بھی عوام حکمرانوں سے مانگتے ہی کیا ہیں‘ اقتصادی اصلاحات اور خوشحالی کے خواب تو درکنار انہیں تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال میں دھتکار اور پھٹکار کے بجائے عزت اور دادرسی نصیب ہو جائے تو اور کیا چاہیے۔
انصاف سرکار اور اپوزیشن کی پوائنٹ سکورنگ اور ایک سے بڑھ کر ایک بیان بازی اور سیاسی سرکس کی میوزیکل چیئر سے نکل ایک ایسی خبر شیئر کرتا چلوں جو خاصی دیر سے قلم آرائی پر اُکسائے چلے جارہی ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اپنی مالیاتی ٹیم کو چینی کی قیمتوں میں کمی کرنے پر مبارکباد دی ہے۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ چینی کی قیمتوں میں کمی یقینی اس لیے تھی کہ انصاف سرکار کی انتظامی مشینری نے مقامی چینی کو مارکیٹ میں آنے سے روک رکھا تھا ‘ مقصد یہ تھاکہ جب تک غیر معیاری اور ناقص درآمدی چینی ختم نہیں ہو جاتی اس وقت تک مقامی چینی مارکیٹ میں فروخت نہ کی جائے گی۔ جس کارنامے کا کریڈٹ اقتصادی ٹیم کو دیا جارہا ہے وہ خاصے کی بات جہانگیر ترین پیشگی انصاف سرکار کو گوش گزار کر چکے تھے کہ یہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا کھیل ہے‘ مقامی چینی مارکیٹ میں آنے دیں تو قیمتیں خودبخود گر جائیں گی۔ درآمد شدہ غیر معیاری چینی ان چیمپئنز کے گلے پڑ چکی تھی جو بمشکل انتظامی مشینری کی مدد سے ناصرف گلے سے اُتاری گئی بلکہ مقامی چینی کی مارکیٹ میں سپلائی اس وقت تک جبراً روکے رکھی جب تک غیر معیاری اور پاؤڈر نما چینی کا سٹاک ختم نہ کر دیا گیا۔ چینی کی قیمتوں میں کمی پر چین کی بانسری بجانے والوں کی ساری مہارت صرف چینی پر ہی کیوں مرکوز ہے‘ باقی ہر طرف مہنگائی کی آگ کا بھڑکتا ہوا اَلاؤ بنتا چلا جارہا ہے جس کے شعلے عوام کی قوتِ خرید کو بھسم کیے دے رہے ہیں۔ یہاں چینی کی قیمتوں میں کمی کی مبارکباد دی اور وصول کی جا رہی ہیں۔