صدمات جس قوم کا مقدر بن چکے ہوں‘ سانحات اور حادثات نے جن کا گھر دیکھ لیا ہو‘ ایسے میں خون کی اَرزانی اور نااہلوں کی فراوانی کیسے نہ ہو۔ حکمران سابق ہوں یا دورِ حاضر کے‘ حادثات ہوں یا سانحات‘ ان سبھی کا ردِّعمل کم و بیش یکساں ہی ہوتا ہے۔ بیانیوں سے لے کر اقدامات تک‘ کچھ بھی تو نیا نہیں ہوتا‘ نوٹس لے لیا‘ رپورٹ طلب کر لی‘ تحقیقاتی ٹیمیں بنا دی گئیں‘ ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے‘ مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا‘ وغیرہ وغیرہ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپوزیشن تو اپوزیشن‘ حزبِ اقتدار بھی سیاست اور پوائنٹ سکورنگ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ چند روز قبل سانحہ مچھ پر کیسا کیسا سیاسی سرکس دیکھنے میں نہیں آیا‘ اس کو دیکھ کر بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان سیاسی بازیگروں کو نہ اپنی کمر کا تل نظر آتا ہے اور نہ ہی آنکھ کا شہتیر۔ جس طرح کوئی اپنی کمر کا تِل نہیں دیکھ سکتا اسی طرح یہ سبھی اپنے اکثر فیصلوں کے نتائج سے لاعلم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ فیصلے کیا گل کھلائیں گے اور یہ کیسے کیسے فتنے اور انتشار پیدا کر سکتے ہیں‘ایسے عناصر ہر دور میں حکومتی صفوں میں کثرت سے پائے گئے ہیں ‘انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے اِرد گرد اور آگے‘ پیچھے پھرنے والے وزیر اور مشیر گورننس کے نام پر کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ اکثر فیصلوں اور اقدامات کے پسِ پردہ عزائم بھی کمر کے تِل کی طرح اوجھل ہوتے ہیں اور جلد یا بدیر ان کے نتائج بہرحال حکمرانوں کو ہی بھگتنا پڑتے ہیں۔ مشورے دینے اور فیصلے کروانے والے اکثر ''تِترّبِترّ‘‘ ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔
سانحات اور حادثات پر ان سبھی کے بیانات اور آنیاں جانیاں اکثر مضحکہ خیز توکبھی انتہائی افسوسناک دِکھائی دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے صرف کردار اور چہرے ہی بدلے ہیں‘ بیانیے اور دعوے وہی پرانے ہیں۔ ٹرین حادثات پر وزیر ریلوے سے استعفے طلب کرنے والے والی اپوزیشن برسرِ اقتدار آکر اپنے دور میں ہونے والے ان حادثات پر کیسی کیسی توجیہات پیش کرتی اور دفاع میں کیسی کیسی منطقیں گھڑتی نظر آتی ہے۔ سانحہ بارہ مئی پر تحریک انصاف کے بیانیے اور مطالبات آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ جن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا کرتے تھے‘ آج وہ شریک اقتدار ہیں اور ''شراکت کی ہانڈی‘‘ کو بچانے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ان مطالبات سے دستبرداری تو بنتی ہے۔
اسی طرح‘ سانحہ بلدیہ ٹاؤن ہو یا سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ ان پر بھی تحریک انصاف عوام کے غم میں برابر کی شریک تھی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں مارے جانے والوں کا ماتم تو طاہر القادری کے ساتھ مل کر کنٹینر اور دھرنوں میں بھی برابر ہوتا رہا۔ سانحہ ساہیوال میں ناحق مارے جانے والے خاندان کے بارے میں کیا وزیر‘ کیا مشیر‘ سبھی کس زور و شور سے مذکورہ افراد کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے نظر آتے تھے۔ ہمارے ہاں حکمرانوں کے لیے کسی کا مرنا کسی کا جینا شاید معمول کی بات ہے۔
سانحات تو بہت بڑی بات ہیں‘ جس ملک میں انتظامی غفلت سے ہسپتالوں میں معصوم بچوں سے لے کر بوڑھے اور جوانوں تک‘ آئے روز مرتے ہوں‘ جہاں عالمی ادارۂ صحت پولیو کے ریکارڈ کیسز پر ریڈ الرٹ جاری کر دیتا ہو‘ ٹی بی جیسی بیماری آج بھی موت کا پروانہ بنی پھرتی ہو‘ دل کے ہسپتال میں مطلوبہ سٹنٹ ناپید ہوں‘ جہاں کورونائی صورتحال پر حکومتی اخراجات پر عدالتیں سوال اٹھا دیتی ہوں اور حکومت جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کہیں گم ہو جاتی ہو اور حکمران چین کی بانسری بجائے چلے جارہے ہوں‘ وہاں سانحات اور حادثات پر کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ پولیس کی تفتیش کی تاب نہ لاکر جان دینے والے ملزمان ہوں یا لا اینڈ آرڈر کے نام پر قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نہتے اور معصوم شہری‘ سبھی ناحق مرنے والے کی وجۂ موت بدانتظامی ہو یا بدنیتی‘ حادثہ ہو یا دہشت گردی‘ ان سبھی کی روحیں حصولِ انصاف کے لیے آج بھی یقینا بھٹکتی ہوں گی۔
تعجب ہے ان ناحق مارے جانے والوں کے خون کا بدلہ لینے کے بلند بانگ دعویٰ کرنے والی اپوزیشن برسرِ اقتدار آکر اس مطالبے سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ ان میتوں کے جنازوں کو کاندھے دینے میں پیش پیش سماج سیوک نیتا ان سے کیے گئے وعدے بھی یوں فراموش کر ڈالتے ہیں گویا یہ کوئی بوجھ نہیں۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان میتوں کے نام لیتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ میتوں سے ان کی یہ جفائیں اور طرزِ تعافل رحمان فارس کے یہ اشعار یاد دلا کر افسردگی اور مایوسی میں ہر بار اضافہ کر جاتے ہیں۔
میتوں سے ڈرتے ہو؟
میتیں تو تم بھی ہو / چلتی پھرتی وہ لاشیں / جن کی سانس چلتی ہو / اور ضمیر مردہ ہے / جن کے جسمِ مردہ پر / زندگی فسردہ ہے / میتیں تو تم بھی ہو / اور تمہارے مسلک میں / وعدہ و وفا مردہ / غیرت و حیا مردہ / چشم و آئینہ مردہ / سب کہا سنا مردہ / جو بھی حس تمہاری ہے / زندگی سے عاری ہے / بے نوا سماعت بھی / بے بصر بصارت بھی / جس محل میں رہتے ہو / وہ محل بھی میت ہے / میتیں گل و گلداں / میتیں سبھی درباں / تاج و تخت بھی لاشیں / ساز و رخت بھی لاشیں / تم نے جو بنائے تھے / سب اصول مردہ ہیں / اور تمہارے باغوں کے / سارے پھول مردہ ہیں / پھر بھی اس قدر بزدل؟ / کیا کمال کرتے ہو / میتوں میں رہ کر بھی / میتوں سے ڈرتے ہو؟
قارئین! چند منتخب سانحات کایہ نوحہ ہی دل کا کام تمام کیے ہوئے ہے۔ اعصاب سے لے کر نفسیات تک‘ کاغذ سے لے کر قلم تک‘ الفاظ سے لے کر اعراب تک سبھی لہو لہو ہے۔ نجانے ایسے کتنے ہی سانحات اور حادثات ان کی مصلحتوں اور مجبوریوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح شہر قائد میں روزانہ کی بنیاد پر کیسے کیسے عذاب کئی دہائیاں جھیلے ہیں۔ کتنا خون بہایا گیا؟ کتنی ماؤں کی گود اُجاڑی گئی؟ کتنے سہاگ دن دہاڑے خون میں نہلائے گئے؟ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے؟ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا؟ کبھی حصولِ اقتدار کے لیے تو کبھی طولِ اقتدار کے لیے‘ کراچی کے عوام کو مصلحتوں اور سیاسی تعاون کے عوض کب بھینٹ نہیں چڑھایا گیا؟ مصلحتوں اور مفاہمت کی سیاست کی بدبودار روایت آج بھی جاری ہے۔ تاریخ کا پہیہ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس مٹی سے غداری کی‘ جس نے بھی وطن عزیز کے عوام کے خون کو پانی سے بھی ارزاں جانا‘ نہ وہ رہا اور نہ ہی اُس کا اقتدار۔ مُکّے لہرا لہرا کر بات کرنے والے مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف ہوں یا مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری یا پھر نواز شریف ہوں‘ کون کہاں کس حال میں ہے؟ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے میتوں کو کاندھے دینے والے ان میتوں سے ڈرنے کے بجائے ان سے کیے گئے وعدوں اور ان کے نام پر کیے گئے دعووں کا پاس کر کے اس ڈر سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔