صرف چوبیس گھنٹے کے دوران سربراہ حکومت کے دو بیانیے حالات کی نزاکت اور گمبھیر صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں۔ 13جنوری کو ان کا یہ بیان قومی اخبارات کی شہ سرخی تھا کہ '' وزرا کو وزیراعظم کی وارننگ‘‘ اور اگلے ہی یعنی 14جنوری کو شہ سرخی بن کر شائع ہونے والا یہ بیان بھی وزیراعظم ہی کا تھا کہ تبدیلی نہ آنے کی بڑی وجہ مافیا ہے۔یہ ملکہ بھی ہمارے وزیراعظم ہی کو حاصل ہے کہ تلخ حقیقت ہو یا پورا سچ بڑی آسانی اور سادگی سے کہہ ڈالتے ہیں۔ ان کی اس سادگی پر کیا یہ شعر صادق آتا ہے؟
کہنے کو تو کہہ دیتے ہو سادہ سی کوئی بات
ہوتے ہیں ہر اک بات کے سینکڑوں پہلو
ایسی سادگی عوام کا درد بڑھانے کے ساتھ ساتھ مایوسیوں کے سائے اُن کے قد سے اس قدر لمبے کر ڈالتی ہے کہ وہ خود کو ان سایوں کے آگے بونا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کہیں دن کی رسوائی ہے تو کہیں رات کی بے چینی۔ ایسی گفتگو پر دُکھی ہونے والے عوام اپنے حکمرانوں کو کیسے یاد دلائیں کہ انہوں نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے کیسے کیسے سہانے خواب دکھائے تھے۔ یہ بھی کہا تھا کہ ایسی ٹیم لاؤں گا کہ دنیا دیکھے گی‘ ہمارے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے‘ہمارا ہوم ورک مکمل ہے‘ ہمارے ماہرین کام کر رہے ہیں‘ ہمیں اقتدار ملا تو عوام کی تقدیر بدل دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مگربرسرِ اقتدار آنے کے بعد ان کا یہ بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا‘حالات اس قدر خراب ہیں۔اپنے عرصہ اقتدار کی نصف مدت گزارنے کے بعد جو حکومت اہداف کے حصول میں ناکامی کے عذر اور جواز پیش کرنا شروع کر دے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار کی بقیہ مدت میں عوام کا کیا حال ہوسکتا ہے۔
گورننس جیسے اہم فریضے کے لیے جو ٹیم میدان میں لائی گئی وزیراعظم آج بھی اس سے غیر مطمئن اور نالاں دکھائی دیتے ہیں‘ پے در پے تبدیلیوں کے باوجود وزیرہوں یا مشیر کوئی بھی اپنی ذمہ داریوں پر فٹ نہیں بیٹھ رہا۔ اپنی ہر ناکامی اور نالائقی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہرانے کے علاوہ نجانے کیسی کیسی توجیہات پیش کرتے اور عذر تراشتے نظر آتے ہیں۔ جس کابینہ کو وزیراعظم وارننگ دینے پر مجبور ہو جائیں وہاں کیسی گورننس ‘ کہاں کا میرٹ اور کون سی حکمرانی؟ یہ کیسی حکمرانی ہے‘یہ کیسا احتساب ہے کہ خزانہ لوٹنے والوں کے ہاتھ بھی صاف ہیں اور خزانہ بھی صاف‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومتِ وقت بے بس اور لاچار ہو کر ایسے بیانیے جاری کرنے لگے کہ جن عوام سے تارے توڑ کر لانے کے دعوے کیے تھے انہیں دن میں ہی تارے دکھا ڈالے۔
وزیروں اور مشیروں کی ریکارڈ تبدیلیاں اپنی جگہ‘ انتظامی مشینری میں تبدیلی کے ایسے ایسے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی‘ برسرِ اقتدار آنے کے بعد سرکاری افسران کی اکثریت پر یہ الزام عائد کر کے کھڈے لائن لگایا جاتا رہا کہ یہ (ن)لیگ کے بندے ہیں‘ پھر ڈھیروں تجربات کے بعد انہی بندوں کو تمام اہم انتظامی عہدے سونپنا پڑے۔ صوبہ پنجاب کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انتظامی طور پر وہی افسران کلیدی عہدوں پر براجمان ہو کر صوبہ چلا رہے ہیں جن پر (ن)لیگ سے وابستگی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے؛ تاہم انہی افسران سے یہ توقعات بھی باندھی جا رہی ہیں کہ یہ سبھی (ن)لیگ کو ٹف ٹائم دے کر حکمران جماعت کیلئے موافق حالات اور الیکشن میں ساز گار ماحول پیدا کریں۔ ان افسران کے بارے میں تمام تر تحفظات کے باوجود یہ اعتراف بھی کیا جا چکا ہے کہ شریف برادران کی جڑیں سسٹم میں تاحال موجود ہیں۔
بات ہو رہی تھی وزرا کو وارننگ کی‘ واقفانِ حال کو بخوبی یاد ہو گا کہ تقریباً ڈیڑھ سال قبل بھی وزیراعظم آفس سے ستائیس وزارتوں کو ''تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے تحت ریڈ لیٹر جاری کئے گئے تھے‘ اس کے باوجود صورتحال بہتر ہونے کے بجائے دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ حکومت کو ڈیڑھ سال قبل ہی حالات کی نزاکت اور بگڑتی ہوئی صورتحال کو بھانپ لینا چاہیے تھا کہ یہ وزارتیں ان وزیروں کے بس کی بات نہیں۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ ریفارمز کے نام پر ملک بھر میں ڈیفارمز کے ڈھیر جابجا نظر آتے ہیں۔ یہ بات اب روزِ روشن کی طرح پوری قوم پر آشکار ہو چکی ہے کہ حکومتی ٹیم کے بلند بانگ دعوے ہوں یا وعدے‘ اقتصادی اصلاحات ہوں یا سماجی انصاف‘ قانونی کی حکمرانی ہو یا میرٹ کا دور دورہ‘ یہ سبھی اہداف اس ٹیم کے قد سے کہیں بڑے ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ کیسی تبدیلی ہے جو کچھ بھی تبدیل نہ کر سکی۔ وہی نظام وہی پیچیدگیاں‘ وہی عذر وہی توجیہات‘ وہی شکار وہی شکاری‘ وہی کھیل وہی کھلاڑی‘ وہی سہانے خواب وہی بھیانک تعبیریں‘کچھ بھی تو نہ بدل سکا اور اب حکمران بھی تبدیلی نہ آنے کی وجوہ‘ عذر اور توجیہات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں عوام بے چارے جائیں تو جائیں کہاں۔ کہاں جاکر اپنا سر پھوڑیں‘ کہاں جاکر ایک بار پھر لٹنے کی دہائی دیں‘ کس کا گریبان پکڑیں‘ کس سے منصفی چاہیں۔یہ لٹنا لٹانا تو ان کا مقدر ہی بن چکا ہے۔ برس ہا برس بیت گئے‘ کتنے ہی حکمران بدل گئے‘ کتنے ہی موسم آئے گئے لیکن ان کے نصیب بدلتے نظر نہیں آتے۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک مصائب اور مسائل جوں کے توں ہیں۔
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے انہیں عوام کا کوئی درد نہیں‘ کئی دہائیوں سے بھٹکتے‘ لٹتے پٹتے عوام نے 2018 ء کے انتخابات میں مینڈیٹ دیتے وقت کیسی کیسی امیدیں وابستہ کر لی تھیں کہ سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی بھی ہوگی۔ اقتصادی اصلاحات کے ساتھ ہمارے حالات بھی بدلیں گے‘ ہسپتال‘ تھانہ اور پٹوار میں دھتکار اور پھٹکار کے بجائے عزت و دادرسی ہوگی اور راج کرے گی خلقِ خدا۔ یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نصف مدت گزرنے کے بعد حکمران عوام کی سیاہ بختی اور قابلِ رحم حالت کا مداوا کرنے کے بجائے عذر اور توجیہات پیش کرنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے۔
جب طرزِ حکمرانی ذاتی مفادات کے گرد گھومتا ہو‘ مصاحبین اور رفقا نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ شریکِ اقتدار ہوں‘ سرکاری وسائل پر بندہ پروری سے لے کر کنبہ پروری تک کو جائز سمجھ لیا گیا ہو‘ بندر بانٹ اور لوٹ مار عام ہو‘ ساز باز اور خورد برد کو استحقاق سمجھا جاتاہو‘ سماجی انصاف اور قانون کی حکمرانی ترجیحات میں شامل نہ ہو‘ بیان بازی عام ہو‘ بہتان تراشی اور بدتہذیبی اخلاق کا معیار ہو تو عوام کے حالات کیسے بدل سکتے ہیں‘ تبدیلی کے خواب کیسے شرمندئہ تعبیر ہوسکتے ہیں؟ خوشحالی کے دعوے اور وعدے کیونکر پورے ہوسکتے ہیں؟ سماجی انصاف کیسے قائم ہوسکتا ہے؟ قانونی کی حکمرانی کیونکر ممکن ہوسکتی ہے؟ مصلحتوں اور مجبوریوں میں گھری حکومت کے مشیر ہوں یا وزیر سبھی کا گزارہ ہاں میں ہاں ملائے بغیر ممکن نہیں۔ انہی مصلحتوں کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے ندیم افضل چن نے اپنی ذمہ داریوں سے استعفیٰ دے کر ایک ایسا چن چڑھا دیا ہے جس کی روشنی میں کیا مصلحتیں کیا مجبوریاں‘ کیا خوشامدیں اور کیا ناز برداریاں سبھی عیاں ہو چکی ہیں اور ان کا بدترین مخالف بھی ان کے اس اقدام پر تنقید کے قابل نہیں۔ معاونِ خصوصی کا استعفیٰ وزیراعظم کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ انہوں نے ''یس باس‘‘ کے بجائے استعفے کو فوقیت کیوں دی؟ جس دن اس کا جواب مل گیا شاید قوم کو کوئی عذر اور توجیہ پیش کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔