حواس گم کر دینے والی کیسی کیسی خبریں صبح و شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ یہ خبریں دن کا چین لوٹنے سے لے کر رات کی نیند اُڑانے کے علاوہ اعصاب اور نفسیات پر کیسے کیسے عذاب کا باعث بنتی ہیں‘ بس کچھ نہ پوچھیے۔ کہیں گورننس بانجھ ہے تو کہیں میرٹ اپاہج دکھائی دیتا ہے‘ کہیں قول کی حرمت پامال ہے تو کہیں عمل تضادات کا شکار ہے‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک‘ سب تماشا دکھائی دیتا ہے۔نہ منصب کا لحاظ‘ نہ آئین کی پاسداری‘ قانون کی حکمرانی ہے نہ اخلاقی و سماجی قدروں کا پاس۔احساسِ ذمہ داری‘ رواداری اور وضع داری جیسی صفات ناپید ہیں۔ حکمرانوں کی قابلیت معمہ ہے اور وہ نجانے کتنی دہائیوں سے بے کس عوام کو اپنی حکمرانی کے اثرات سے مسلسل بدحال کیے جا رہے ہیں۔ برس ہا برس بیت جانے اور کتنے ہی حکمران بدل جانے کے باوجود عوام کے نصیب بدلتے نظر نہیں آرہے۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک ان کے مسائل اور مصائب جوں کے توں ہیں۔
موجودہ حکومت اپنے اقتدار کی نصف مدت پوری کرچکی‘ اس دوران کیا کھویا کیا پایا‘ یہ ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی بحث ہے؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ حکومت اپنے سبھی بیانیوں‘ وعدوں‘ دعووں کی نفی کرنے کے علاوہ وہ سبھی خواب چکنا چور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی جو دھرنوں اور انتخابات کے دوران عوام کو تواتر سے دکھائے جاتے رہے ہیں۔ ایک ہی دن کی تین منتخب خبروں نے دل و دماغ کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ گورنر سندھ کا پالتو کتا سرکاری گاڑی سے گردن نکال کر عوام کی حالتِ زار کا تماشا دیکھ رہا تھا۔یہ کیسی گورننس ہے‘ یہ کہاں کی حکمرانی ہے کہ حکمرانوں کے پالتو کتے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ‘ سرکاری گاڑیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں جبکہ کراچی سمیت سندھ کے نجانے کتنے شہروں میں آج بھی آوارہ کتوں کا راج ہے جو جیتے جاگتے راہ چلتے عوام کو یوں بھنبھوڑڈالتے ہوں گویا یہ کوئی انسان نہیں بلکہ سڑک پر پڑی ہوئی کوئی ہڈی ہوں۔یوں معلوم ہوتا ہے حکمرانوں نے سندھ کے عوام کو کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے‘ ایوانِ اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کے لیے پالتو کتے وی آئی پی ہیں تو گلیوں اور سڑکوں پر آوارہ کتوں نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ گورنر سندھ کی گاڑی میں ان کے کتے کی پٹرولنگ کے مناظر کی وڈیو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکی ہے جبکہ گورنر عمران اسماعیل کا موقف ہے کہ گاڑی میں ان کی فیملی بھی سوار تھی۔ پالتو کتے کو فیملی کے ساتھ گاڑی میں گھمانا یقینا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ حیوانات کے حقوق کا بھی پورا پورا خیال رکھتے ہیں‘ کاش اس دردمندی اور احساس کا چند فیصد ہی سندھ کے عوام کو بھی میسر آجاسکتا تو بخدا عوام کی حالتِ زار اس قدر قابلِ رحم نہ ہوتی۔
حکمران دورِ ماضی کے ہوں یا موجودہ‘ان سبھی کا مائنڈ سیٹ ایک ہی ہوتا ہے‘ بھلے ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برسائیں یا ان کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کو آڑے ہاتھ لیتے رہیں‘ ابھی حال ہی میں کراچی میں آوارہ کتوں کے ہاتھوں بھنبھوڑے جانے والے سینکڑوں راہ چلتے عوام کے ریکارڈ کیسز سامنے آنے پر ان کتوں کو تلف کرنے کے لیے سرکاری مشینری حرکت میں ابھی آئی ہی تھی کہ آصفہ بھٹو صاحبہ کو حیوانات کے حقوق یاد آگئے اور انہوں نے یہ کارروائی اس لیے رکوا دی کہ ایسا کرنا حیوانات کے حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ حیوانات پر بے رحمی کے جرم کا ارتکاب بھی ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے درجنوں شہروں میں ہزاروں راہ گیروں کو آوارہ کتوں نے کاٹ کھایا لیکن حقوقِ حیوانات کے علمبرداروں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ایسے حادثات پر باقاعدہ علاج معالجے کی سہولتیں تو درکنار کتے کے کاٹے کی ویکسین تک سندھ کے ہسپتالوں میں دستیاب نہیں ہے۔ اکثر نوجوان اور بچے تو اذیت ناک موت کا بھی شکار ہوچکے ہیں تاہم حکومت بھی اسی مائنڈسیٹ کو آئیڈیل بنا کر حقوقِ حیوانات کی چیمپئن بنی دکھائی دیتی ہے‘ اسی لیے آج بھی کراچی سمیت صوبے بھر کے کتنے ہی شہروں میں آوارہ کتوں کا راج جاری ہے۔
حکومت کا ایک اور تازہ ترین اقدام جو خود اپنے ہی بیانیے کی نفی کے سکور میں اضافے کا باعث ہے‘ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے ارکان ِاسمبلی کو پچاس پچاس کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے‘ حالانکہ وہ خود اس فنڈنگ کی مخالفت کیا کرتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے فنڈز دینا نامناسب اور غیر منطقی ہے۔ دھرنوں اور انتخابی مہم میں یہ بیانیہ بھی سپرہٹ تھا کہ ترقیاتی کاموں کے فنڈز بلدیاتی اداروں کو ہی ملنے چاہئیں‘ کونسلر کا کام جب ارکانِ اسمبلی کریں گے تو ان کا کام کون کرے گا؟ ارکانِ اسمبلی اڑھائی سال میں تو اپنا کام شروع بھی نہ کر پائے شاید اسی لیے وزیراعظم صاحب نے انہیں کونسلرز کے کام پر لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ اپنا کام نہ سہی کم از کم کونسلر کا کام تو کریں کیونکہ کونسلرز کا ادارہ تو موجودہ حکومت اپنے بیانیے کے برعکس پہلے ہی بند کر چکی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت جیسے شہر میں بھی جابجاگندگی اور کوڑے کے انبار کے ساتھ ساتھ اہم شاہراہیں کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو کہیں ان میں پڑنے والے گڑھے جگہ جگہ ٹریفک حادثات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا ایک اور فخریہ بیانیہ منہ چڑاتا پھر رہا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2019ء کے مقابلے میں 2020ء میں بدعنوانی بڑھی ہے۔ سابق حکمرانوں کی جس کرپشن‘ لوٹ مار اور بدعنوانی کا ڈھول بجا کر عوام سے مینڈیٹ طلب کیا گیا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت اپنے ہی ایک اور بیانیے کی نفی کے سکور میں مزید اضافے کے ساتھ اس سفر پہ سرپٹ دوڑتی نظر آتی ہے۔ بیانیے کی نفی تو ایک طرف ماضی کے حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی کے سبھی بدترین ریکارڈ توڑنے کے علاوہ ریکارڈ توڑ بد عنوانی کے ساتھ یہ ریکارڈ بھی توڑ ڈالا‘ پاکستان بدعنوانی میں چار درجے بڑھنے کے بعد 120 سے 124نمبر پر چلا گیا ہے‘ 2019ء میں پاکستان کا رینک 120 اور سکور 32تھا۔ صورتحال کی مزید وضاحت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ 2018 ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا رینک 117 اور سکور 33تھا‘ باقی جمع تفریق عوام خود بخوبی کر سکتے ہیں کہ حکومت نے کتنے بیانیوں کی نفی کی اور طرزِ حکمرانی کے کتنے ریکارڈ توڑ ڈالے۔
بیانیوں کی نفی کے سکور سمیت سابق حکمرانوں کے ریکارڈ توڑنے کا ریکارڈ حکومت نے ریکارڈ مدت میں قائم کر دیا ہے۔ مختصر دورانیے میں قائم کیے گئے ان ریکاڈز کی داستان اتنی طویل ہے کہ ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہیں تاہم آج انہی تین خبروں پر ہی اکتفا کرتے ہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ عوام کے اعصاب اور نفسیات پر اتنا ہی بوجھ ڈالنا چاہیے جتنا وہ ایک کالم میں برداشت کر سکیں۔ پہلے سے دربدر اور بھٹکتے عوام کیا کم دکھی اور مایوس ہیں‘ وہ ایک کالم میں اس سے زیادہ حالات کے نوحے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سکور بنتے رہیں گے ریکارڈ ٹوٹتے رہیں گے‘ ہم کالموں میں اس پر کڑھتے رہیں گے اور عوام اسی طرح مزید مایوس اور مزید دکھی ہوتے رہیں گے‘ جبکہ حکومت کے چیمپئنز اسی طرح سنچر یوں پر سنچریاں بنا کر یونہی ریکارڈ توڑتے رہیں گے۔