ملک بھر میں مباحثے کا سماں ہے‘ سینیٹ کا الیکشن ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ اپوزیشن کا اپنا مؤقف ہے تو حکومت کی اپنی توجیہات۔ وزیر اعظم صاحب کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں اوپن ووٹنگ نہ ہوئی تو اپوزیشن والے روئیں گے۔ سینیٹ کے الیکشن میں اپوزیشن روتی ہے یا حکومت‘ یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ‘تاہم عوام کا رونا دھونا تو روزِ اوّل سے جاری ہے۔ اس لیے سینیٹ الیکشن کو لے کر ان سبھی کے بیانیوں کی جگالی سے کہیں بہتر ہے کہ ان عوام کی بات کریں جو ان سبھی کے متاثرین میں شامل ہیں۔ جس ملک میں اقلیتی اشرافیہ اکثریتی عوام پر سلطانی کے سبھی شوق پورے کرتی ہو اور اکثریت کو ایک پل بھی چین نصیب نہ ہو‘ ساری زندگی جستجو اور جہد ِمسلسل کی نذر ہو کر بھی کچھ ہاتھ نہ آئے تو زندگی بھر کا خلاصہ کسی خسارے سے کم نہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اکثریت ہر دور میں طرزِ حکمرانی کے خلاف سراپا احتجاج ہی رہتی ہے۔ یہ سیاسی اشراف اپوزیشن میں رہ کر جمہوری جدوجہد کے نام پر جو کچھ کرتے ہیں برسرِ اقتدار آتے ہی ایسی تمام سرگرمیوں اور احتجاجی مظاہروں سے کسی قدر خائف نظر آتے ہیں اور مظاہرین کو سبق سکھانے کے لیے ہر ممکنہ طریقہ آزمانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ 126 دن شہرِ اقتدار کو مفلوج بنائے رکھنے والی تحریک انصاف نے اگلے روز اسی شہر میں سرکاری ملازمین کو منتشر کرنے کے لیے کون سا حربہ نہیں آزمایا۔ اسلام آباد کا ریڈ زون میدانِ جنگ کا سا منظر پیش کرنے لگا۔ مظاہرین پر لاٹھی چارج‘ آنسو گیس کی شیلنگ سمیت پولیس فورس کے سبھی حربے تو بے دریغ استعمال کیے گئے۔ یہ ریاستی حربے ان سرکاری ملازمین پر آزمائے گئے ہیں جو تنخواہوں میں اضافے کیلئے کب سے سراپا احتجاج ہیں۔
جب آمدن کی چادر سر سے پاؤں تک پوری نہ ہو‘ مہنگائی کا جن روز نئی دھمال ڈالتا ہو‘ قوتِ خرید آخری سانسوں کا منظر پیش کرتی ہو اور حکومتِ وقت ان سبھی حشر سامانیوں کے باوجود بار بار یہی تلقین کرے کہ گھبرانا نہیں تو آدمی کیا کرے‘ کدھر جائے؟ کس کے آگے فریاد کرے؟ عرصۂ اقتدار کی نصف مدّت ختم ہونے کو ہے اور حکومت کوئی عملی اقدامات کرنے کے بجائے 'گھبرانا نہیں‘ کی تلقین کر کے بقیہ مدت بھی اسی طرح گزارتی نظر آتی ہے‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام ایسی طرزِ حکمرانی کے مزید متحمل ہو سکیں گے؟ وزیروں اور مشیروں کی آنیاں جانیاں اور تضاد بیانیاں کیا عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکیں گی۔ ان کے وہ سبھی دعوے اور وعدے تو ''دور کے ڈھول‘‘ ہی ثابت ہوئے کہ تحریک انصاف جب تک اقتدار سے دور رہی اس کے دعووں کے ڈھول عوام کو نہ صرف سہانے لگتے تھے بلکہ وہ اس پر خوب اتراتی بھی تھی۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ سہانے ڈھول کان پھاڑنے کے ساتھ ساتھ دن کا چین اور رات کی نیند بھی برباد کر چکے ہیں۔
حکمران دورِ ماضی کے ہوں یا عہدِ حاضر کے عوام یہ سبھی مشکلات ہر دور میں چہروں اور کردار وں کی تبدیلی کے باوجود بھگتنے پر مجبور ہیں۔ کیسے کیسے دھوکے ‘ جھانسے اور بہلاوے ان کا مقدر بنے رہے ہیں۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان‘ تو کبھی قرض اُتارو ملک سنوارو تو کبھی سب سے پہلے پاکستان‘ کبھی بنامِ دین تو کبھی بنام وطن اور اب تبدیلی کا سونامی تو سب کچھ ہی بہائے لیے جا رہا ہے۔ نہ سماجی انصاف کا دعویٰ پورا ہوا نہ قانون کی حکمرانی کا‘ نہ میرٹ کا بول بالا ہوا اور نہ ہی گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ کڑے احتساب کا بیانیہ بھی اب منہ چھپائے پھرتا ہے۔تھانے ‘پٹوار اور ہسپتالوں سمیت نجانے کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جن کے دروازے میں داخل ہوتے ہی عوام کو دھتکار اور پھٹکار کے ایسے ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کہ ان پر قلم آرائی کے لیے ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں‘ حکمران بدلتے رہتے ہیں لیکن مظاہرین نہیں بدلتے‘ ان کے مطالبے بھی وہی رہتے ہیں اور ان کی حالت ِزار بھی جوں کی توں چلی آرہی ہے۔ اس تناظر میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں اپوزیشن روئے یاحکومت ‘ان کا یہ رونا تو اس سیاسی سرکس اور میوزیکل چیئر کا حصہ ہے۔ اپوزیشن حکومت میں آ جائے یا حکومت اپوزیشن میں چلی جائے سب کا رونا تو ہمیشہ ہی مگر مچھ کے آنسو ثابت ہوا ہے‘ جبکہ اصل رونا تو عوام کا رونا ہے جو روزِ اول سے لمحۂ موجود تک نہ صرف جاری ہے بلکہ آنے والے وقتوں میں بھی عوام کے آنسو یونہی رائیگاں نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں عوام کو کیسے کیسے عذابوں اور دکھوں کا سامنا ہے‘ الفاظ میں ان کی منظر کشی کرنے کا حوصلہ شاید نہ کر سکوں لیکن حالتِ زار کی وضاحت کے لیے ساحر لدھیانوی کے ان اشعار کا سہارا لینے پر مجبور ہوں:
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
ہر اِک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں اُلجھن دلوں میں اُداسی
یہ دنیا ہے عالمِ بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی
یہاں تو جیون سے ہے موت سستی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
میرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا
تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
آخر میں اس مایوسی کی دلدل اور غیر یقینی کے اندھیروں میں ایک خبر جگنو بن کر چمکی ہے کہ پنجاب پولیس عوام کو دھتکار اور پھٹکار سے بچانے کے لیے پہلی بار سنجیدہ نظر آئی ہے ۔اب عوام گھر بیٹھے وہ سہولیات آن لائن حاصل کر سکیں گے جو تھانوں اور دفاتر میں دھکے کھانے کے باوجود میسر نہیں آتی تھیں۔ ایک تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے مفادِ عامہ کی دو ایسی ایپس کا افتتاح کیا ہے جس میں نہ پولیس کی کارکردگی کا ڈھول پیٹا گیا اور نہ ہی جرم و سزا کی ہوشربا داستانیں سنائی گئیں‘ نہ اعداد و شمار کے گورھ دھندے سے ستائشِ باہمی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ آئی جی پنجاب انعام غنی کا کہنا تھا کہ اب پولیسنگ میں عوام کو ترجیحی اہمیت حاصل ہوگی۔ عوام اور پولیس ساتھ ساتھ ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں۔ پولیس کی طرف سے رویوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ عوام کے تمام تحفظات دور کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقداما ت کیے جائیں گے اس حوالے سے پولیس میں خود احتسابی کا ایک ایسا مضبوط سسٹم رائج کر دیا گیا ہے جو ان تمام امکانات اور واقعات کا تدارک کرے گا جو عوام اور پولیس کے درمیان فاصلوں اور نفرتوں کا باعث بنتے رہے ہیں۔ پنجاب پولیس بھی تعلقات عامہ کے شعبے کو استوار کر چکی ہے اس اقدام سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ تنظیمِ نو پنجاب پولیس کو ان اہداف سے ہمکنار کر سکے گی جن کے دعوے اور وعدے تحریک انصاف ہمیشہ سے کرتی آئی ہے۔ ان نئے چیلنجز میں پنجاب پولیس کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ ڈی آئی جی اور ڈی پی آر سمیت ڈی آئی جی انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی اپنی کمان کے شانہ بشانہ ہیں۔ بس خیال رہے یہ سبھی افسران حکومت کی ان تعریفوں سے محفوظ رہیں کیونکہ ایسی تعریفیں نجانے کتنے افسران کو پہلے ہی لے بیٹھی ہیں ۔