پہلے بھی عرض کرچکا ہوں‘ وژن کا فقدان ہو اور خیالات کی یافت نہ ہو تو الفاظ کی فضول خرچی سے گریز کرنا چاہیے‘ خصوصاً حکمرانوں کی زبان و بیان عملی تصویر نہ بنے تو سب کچھ الفاظ کا گورکھ دھندا ہی لگتا ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس کی شعلہ بیانیاں ہوں یا بلند بانگ دعوے‘ انقلابی اقدامات کے اعلانات ہوں یا مفادِ عامہ کے فیصلوں کی خوشخبریاں‘ سبھی کو دیکھ کریوں لگتا ہے جیسے کسی نے کوئی پرانا ریکارڈ لگا دیا ہو جبکہ گورننس اور کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ یہ دونوں ہی گا‘ گے‘ گی تک محدود ہیں۔ وہی بیانات‘ وہی اعلانات‘ وہی دعوے اور سنہری مستقبل کی وہی خوشخبریاں‘ آج بھی اسی طرح عوام کو دیے چلے جا رہے ہیں جیسے اقتدار میں آنے سے پہلے دیا کرتے تھے۔ برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم کی پہلی تقریر کا اگر چند فیصد بھی حقیقت بن جاتا تو صورتحال جوں کی توں اور اس قدر مایوس کن نہ ہوتی۔
ہمارے وزیر اعظم کا تازہ ترین فرمان ہے کہ نئے پاکستان کا مقصد کمزور طبقے کو اوپر لانا ہے‘ پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے اور ہمارا احتساب بھی پانچ سال بعد ہی ہونا چاہیے۔ جس پاکستان کو نیا ثابت کرنے کی سرکاری کوششیں اڑھائی سال سے جاری ہیں اس میں بسنے والے گورننس کی تاب نہ لاتے ہوئے پرانے پاکستان کو ترس گئے ہیں۔ رہی بات احتساب پانچ سال بعد ہونے کی تو عرض ہے کہ کرپشن صرف مالی ہی نہیں بلکہ انتظامی بھی ہوتی ہے۔ انتظامی کرپشن کی قیمت قوموں اور نسلوں کو چکانا پڑتی ہے یہاں تو کیا وزیر‘ کیا مشیر‘ سبھی کے درمیان مقابلے کا سماں دکھائی دیتا ہے کہ پارٹی کے بیانیوں اور دعووں کی کون کتنی نفی کرتا ہے۔ احتساب کے لیے پانچ سال کا انتظار کیوں؟ فیصلہ سازوں کے ارادوں اور نیتوں سے لے کر عملوں تک سبھی کچھ تو عیاں ہوچکا ہے۔ ریاست کے وسائل سے کھلواڑ کرنے والے پانچ سال بعد خدا جانے کہاں ہوں گے؟ اکثر فیصلہ ساز تواپنا ٹارگٹ پورا ہوتے ہی اڑن چھو ہوجائیں گے اور عوام ہمیشہ کی طرح لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔
مہنگائی سے بدحال سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافے کے لیے دربدر ہیں جبکہ کلیدی عہدوں پر کروڑوں روپے کے عوض جو تقرریاں کی جارہی ہیں‘ اس کی قیمت بہرحال اس قوم کو ہی ادا کرنا ہے۔ کسی کی تنخواہ 67 لاکھ روپے ہے تو کوئی قوم کو 33 لاکھ میں پڑتا ہے۔ اسی طرح کسی کی اہلیت نامعلوم ہے تو کسی کی کارکردگی صفر ہے۔ تعجب اور کمال یہ کہ وزیر اعظم سمیت کسی کو بھی یہ منظرنامہ دکھائی کیوں نہیں دے رہا؟ مفادِ عامہ کے نام پر سرکاری اداروں کو جس بیدردی سے بھنبھوڑا جا رہا ہے انہیں روکنے کے بجائے مزید اڑھائی سال کے لیے فری ہینڈ دیے رکھنا مناسب ہو گا؟ سات دہائیاں بیت چکیں عوام کی دہائی ہر دور میں بڑھتی ہی چلی گئی۔73 برسوں سے دھکے اور دھوکے کھاتے یہ عوام بدحال اور ہلکان ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ نئے پاکستان کا مقصد اسی بدحال طبقے کو اوپر لانا ہے۔ اوپر لانا تو درکنار عوام تو اس مقام سے بھی گرچکے ہیں جس پر وہ پرانے پاکستان میں بمشکل گزارہ کررہے تھے۔ ویسے بھی احتساب کے حوالے سے وزیراعظم کا یہ تازہ فرمان ان کے اپنے ہی دیرینہ بیانیوں اور وعدوںکی عین نفی ہے جس میں وہ سماجی انصاف اور کڑے احتساب کے دعوے کیا کرتے تھے۔ عرصۂ اقتدار کی نصف مدت گزارنے کے بعد یہ تھیوری مملکت خداداد پر فٹ بیٹھتی ہے کہ یہ ایسا خطہ ہے کہ جہاں حکمرانی کسی کی بھی ہو‘ دعوے اور وعدے کتنے ہی بلندوبالا کیوں نہ ہوں عوام کی حالت زار ہر دور میں بد سے بدتر ہی ہوتی چلی گئی ہے۔ پس ثابت ہواکہ اس مملکت میں ہر سرکار سابقہ ادوار کی طرزحکمرانی کا ریکارڈ توڑنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔
زیادہ دور نہ جائیں صرف چند دہائیوں کا ہی جائزہ لیتے ہیں‘ دورِ حکومت ضیاالحق کا ہو یا نواز شریف کا‘ بے نظیر کا ہو یا پرویز مشرف کا‘ آصف علی زرداری کا ہو یا عمران خان کا‘ عوام کی حالت سبھی ادوار میں یکساں رہی ہے۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک وہی خاندان‘ وہی چیمپئنز‘ وہی ایجنڈے‘ وہی ٹارگٹ‘ وہی شکار‘ وہی شکاری‘ وہی کھیل‘ وہی کھلواڑ۔ گورننس کی درگت بنانے سے لے کر میرٹ تار تار کرنے تک سبھی ایک سے بڑھ کر ایک پائے گئے۔ ان پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اب تو الفاظ بھی سراپا احتجاج نظر آتے ہیں کہ ان حکمرانوں پہ کوئی اثر ہونے والا نہیں اور نہ ہی حالات سدھرنے کی توقع رکھنی چاہئے کیونکہ سبھی حکمران اس آسیب کے تابع ہیں جو من چاہے فیصلے اور من مرضی کی پالیسیاں ہر دور میں بنواتا چلا آیا ہے۔ یہاں پر حکومت ان کی نہیں ہے‘ یہ تو اشاروں کے غلام اور مصلحتوں کے مارے ہیں۔ حکمرانوں کو اعلانات کے بادشاہ ضرور کہا جا سکتا ہے‘ یہ صرف اعلانات اور دعوے ہی کر سکتے ہیں‘ عملدرآمد کا فیصلہ کرنے والے شاید کوئی اور ہوتے ہیں۔ برسر اقتدار آنے کے بعد اپنی بے بسی کا احساس ہوتے ہی تمام معذوریوں اور مجبوریوں کے ساتھ خود بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز نہیں آئے۔ شکم پروری سے لے کر کنبہ پروری اور بندہ پروری تک سبھی مناظر ہر دور میں زوروشور سے جاری رہے ہیں۔
خلقِ خدا کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا یقینا باعثِ اعزاز ہے۔ ربِ کائنات یہ اعزاز اپنے منتخب بندوں کو ہی عطا کرتا ہے۔ گورننس جہاں قدرت کا بہت بڑا انعام ہے اس سے کہیں بڑھ کر امتحان بھی ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ گورننس کے مواقع قدرت نے سبھی کو عطا کیے ہیں۔ اس عطا میں خطا کی گنجائش ہرگز نہیں۔ خطا کے باوجود عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت مزید مہلت دے رہی ہے۔ اس مہلت کو نعمت اور غنیمت جان کر طرزِ حکمرانی اور دیگر معاملات پر نظرثانی ضرور کرلینی چاہئے۔ کہیں کوئی بھول چوک اور خطا تو سرزد نہیں ہوگئی۔ بدقسمتی سے مملکت خداداد میں روزِ اول سے لمحہ موجود تک جسے بھی گورننس کی نعمت عطا ہوئی وہ اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے منسوب کرکے اسے اپنی ہی ادا کا کرشمہ سمجھ بیٹھا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ اس کی کسی ادا کا چمتکار ہے۔
خطا در خطا کے باوجود ہمارے حکمرانوں کو قدرت مہلت بھی خوب دیتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ شریف برادران اس ملک پر تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک شوقِ اقتدار پورا کرتے رہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں پھر بے نظیر اور بعد میں آصف علی زرداری کی شکل میں برسر اقتدار رہی۔ کئی خاندان نسل در نسل ان جماعتوں کے پیروکار ہیں۔ ان کے اکثر پیروکار ہر دور میں شریک اقتدار اس لیے رہتے ہیں کہ ان کی کوئی پارٹی نہیں ہوتی۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی وہ قائد اور پارٹی بدل کر آسیب کی ڈیوٹی کرتے ہیں۔ خطائوں کے باوجود مہلت کا میسر رہنا کسی کرشمے سے کم نہیں۔ ماضی کے بیشتر حکمران طویل عرصہ تک اس کرشمے کے بینی فشری رہے ہیں۔ جوں جوں انہیں یہ کرشمے میسر آتے رہے توں توں یہ سبھی بوئے سلطانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ کیا ان حکمرانوں سے یہ پوچھا جانا عین منطقی نہیں کہ جن اہداف کی تعمیل کے لیے یہ حکمرانی آپ کو عطا کی جب وہی پورے نہ ہو سکے تو یہ ساری مراعات اور عزت افزائی‘ شکم سامانیاں کس کھاتے میں؟ کنبہ پروری سے لے کر‘ بندہ پروری تک‘ یہ تام جھام اور موج مستیاں کس طرح حلال قرار دیں گے؟ اسی طرح سرکار سے یہ پوچھ لینے میں کیا حرج ہے کہ جس انتظامی قابلیت کا ڈھول بجاتے رہے وہ کہاں رہ گئی؟ وہ علمی اور تکنیکی مہارت کیا ہوئی جس کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے۔ کہاں گئے وہ ماہرین جو برسر اقتدار آنے سے پہلے گورننس کی تیاری کررہے تھے؟ وہ نتائج برآمد کیوں نہ ہوسکے؟ عوام کو گمراہ کیوں کیا گیا؟ یاد رہے! خطائوں کے باوجود مہلت قدرت کی عطا ہے جیسے ان سے پہلے حکمرانوں کو یہ عطا ہوتی رہی ہے۔